کیا انتخابات اگلے سال مارچ تک جائیں گے ؟

کیا انتخابات اگلے سال مارچ تک جائیں گے ؟

(تجزیہ:سلمان غنی) ملک میں پیدا شدہ نئے حالات میں بعض سیاستدان ڈائیلاگ پر زور دیتے نظر آ رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ موثر اور بامقصد ڈائیلاگ کے بغیر نہ تو حالات میں بہتری ممکن ہے اور نہ ہی آئندہ انتخابات کی جانب پیش رفت ہو سکے گی ۔

مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے بغیر انتخابات میں جانے کا عمل نتیجہ خیز نہیں ہوگا ۔عباسی کی جانب سے اٹھائے جانے والے نقصانات تو کسی حد تک حقیقت پسندانہ ہیں مگر بڑا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ آج کی صورتحال میں ڈائیلاگ کیسے ممکن بن پائے گا ۔ گزشتہ ایک سال میں پیدا شدہ صورتحال میں پاکستان کی مقتدرہ قوتیں اپنے کسی براہ راست کردار سے اجتناب برتتی نظر آ رہی ہے اور اس کی وجہ سابق حکمران جماعت کی جانب سے پاکستان کے ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کرنے کا عمل تھا جس بارے یہ رائے عام ہوئی تھی کہ متاثرہ پارٹی اقتدار سے اپنی بیدخلی کا ملبہ پاکستان کی مقتدرہ پر ڈال کر اس کی ساکھ پر اثر انداز ہونے کے درپے ہے ۔اس صورتحال پر اب وہ لیڈر شپ جو چند ہفتے قبل تک ایک جارحانہ طرزعمل اختیار کرتے اداروں کو للکارتے اور مخالفین پر الزام تراشی سے چوکتی نظر نہ آئی تھی اب اسے مذاکرات کی یاد تڑپا رہی ہے ۔فی الحال تو مذاکراتی عمل ممکن نظر نہیں آ رہا لہٰذا مذکورہ صورتحال کی روشنی میں آنے والے انتخابات اور ان کی نتیجہ خیزی کے حوالہ سے تحفظات ابھی سے اٹھتے نظر آ رہے ہیں جن کا ذکر خود سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کیا ہے اور حالات وواقعات کا رخ بھی یہی بتا رہا ہے کہ تناؤ اور ٹکراؤ کی اس کیفیت میں اول تو انتخابات کی جانب پیش رفت نظر نہیں آ رہی اور اگر ہوتی بھی ہے تو پھر انتخابی نتائج ایک نئے بحران کو جنم دیں گے ویسے تو اسلام آباد کے ذمہ دار حلقوں کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے اور نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کے عمل پر الیکشن کمیشن کو تین سے چار ماہ کا عرصہ درکار ہوگا لہٰذا اکتوبر سے انتخابات کے التوا کا انحصار خود عدلیہ اور پارلیمنٹ پر ہوگا۔

مذکورہ حلقوں کا کہنا ہے کہ اس فسق کے نتیجہ میں انتخابات کا یہ عمل 2023کے بجائے مارچ 2024میں چلا جائے گا۔ مذکورہ ذرائع کے مطابق ریاست ریاستی معاملات کے حوالہ سے پوری طرح یکسو ہے البتہ اہل سیاست میں اپنے معاملات خصوصاً انتخابات کے حوالہ سے پوری طرح یکسوئی نہیں اور جب تک اہل سیاست اپنے درمیان معاملات اور خصوصاً سیاسی مسائل کے حل کے حوالہ سے یکسو نہیں ہوں گے بات آگے نہیں بڑھ سکے گی ویسے بھی نظر یہ آ رہا ہے کہ انتخابات کے آثار دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں نے اعلانیہ طور پر اپنی تیاری شروع کر دی ہے اور انتخابی میدان میں کیسے اترنا ہے صف بندی کیا ہوگی اس کی پلاننگ کر کے اس حوالہ سے سرگرم ہو چکی ہیں اور نظر یہ آ رہا ہے کہ آنے والے قومی بجٹ کے بعد باقاعدہ انتخابی محاذ سرگرم نظر آئے گا اور یہ امکانات بھی ظاہر ہوئے ہیں کہ حکمران اتحاد حکومت سازی کے عمل اور حکومت چلانے پر تو یکسو اور متحد تھا لیکن آنے والے انتخابات میں اپنے موثر کردار کے حوالہ سے اپنے اپنے پروگرام پر گامزن ہوگا اور خصوصاً پیپلز پارٹی کے حوالہ سے کہا جا رہا ہے کہ وہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے ساتھ چلنے کی بجائے دیگر سیاسی جماعتوں اور گروپس کے ساتھ مل کر چلنے کو ترجیح دے گی کیونکہ پنجاب میں لگنے والے میدان میں اسے مسلم لیگ ن سے یہ توقعات نہیں کہ وہ انہیں یہاں خصوصاً سنٹرل پنجاب اور شمالی پنجاب میں اکاموڈیٹ کر پائے گی لہٰذا اس کی کوشش ہوگی کہ وہ جنوبی پنجاب کی طرز پر مغربی پنجاب اور شمالی پنجاب میں بھی دیگر جماعتوں اور گروپس کے ساتھ سیاسی ایڈجسٹمنٹ کر کے میدان میں اترے لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال انتخابات کا بگل تو نہیں بجا لیکن انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں نے ابھی سے لنگوٹ کسنا شروع کر دیئے ہیں اور میدان پنجاب میں ہی لگتا دکھائی دے رہا ہے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں