نیب ترامیم، احتساب عدالتیں1سال میں فیصلہ سنانے کی پابند
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو بحال کردیا ہے نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل گزشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا۔
تاہم صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022 کوقومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی۔اس قانون سازی کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھابل کے مطابق وفاقی یا صوبائی ٹیکس معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دئیے گئے ہیں جبکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مالی فائدہ نہ اٹھانے کی صورت میں وفاقی اور صوبائی کابینہ کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے ، نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا،نیب دھوکا دہی کے کسی مقدمے کی تحقیقات تبھی کر سکتا ہے جب متاثرین کی تعداد 100سے زیادہ ہو،نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا،قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا،بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔ان ترامیم کے بعد چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں بھی ایک برس کی کمی کر کے اسے تین سال کر دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بنے گا۔
احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی 3 سال کی مدت کیلئے ہوگی جبکہ احتساب عدالت کے جج کو ہٹانے کیلئے متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہوگی،احتساب عدالتیں کرپشن کیسز کا فیصلہ ایک سال میں کرنے کی پابند ہوں گی، نیب انکوائری کی مدت کا تعین بھی کیا گیا جس کے مطابق نیب 6 ماہ کے حد کے اندر انکوئری کا آغاز کرنے کا پابند ہوگا، گرفتار شدگان کو 24 گھنٹوں میں نیب عدالت میں پیش کرنے کاپابند ہوگا جبکہ کیس کے دائر ہونے کے ساتھ ہی گرفتاری نہیں ہوسکتی،جن سیاست دانوں کو ان ترامیم سے فائدہ ہوا ان میں صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف،سابق وزرائے اعظم نواز شریف، چودھری شجاعت ، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی، پرویزاشرف، شوکت عزیز ،سابق وزرائے اعلیٰ پرویزالٰہی، عثمان بزدار، حمزہ شہباز، اسلم رئیسانی، قدوس بزنجو، پرویزخٹک، محمودخان، قائم علی شاہ، مراد علی شاہ، منظور وٹو، حیدر ہوتی، لشکری رئیسانی، مالک بلوچ ، ثنااللہ زہری ،شوکت ترین، اسحاق ڈار، سردار مہتاب، فرزانہ راجا، سلیم مانڈوی والا، خواجہ آصف، خسرو بختیار، سعد رفیق، حنا ربانی کھر اور دیگر شامل ہیں۔