نظرثانی اپیل:سپریم کورٹ میں نیا بینچ تشکیل،ہم کون ہوتے ہیں کسی کے ضمیر کا فیصلہ کرنیوالے؟:چیف جسٹس

نظرثانی اپیل:سپریم کورٹ میں نیا بینچ تشکیل،ہم کون ہوتے ہیں کسی کے ضمیر کا فیصلہ کرنیوالے؟:چیف جسٹس

اسلام آباد(نمائندہ دنیا)جسٹس منیب اختر کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے بھی آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت کیلئے بینچ کا حصہ بننے سے انکار کردیا، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا، میں نہیں چاہتا دوسرے بینچز کو ڈسٹرب کیاجائے۔

جسٹس نعیم اختر افغان کو نئے لارجر بینچ میں شامل کرلیا گیا ہے ، سپریم کورٹ میں بند دروازوں کے پیچھے اب کچھ نہیں ہورہا، دوران سماعت وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے نظرثانی اپیل کی حمایت کردی ،چیف جسٹس نے کہا عدالتی فیصلہ تو لگتا تحریک عدم اعتمادکو غیر موثر بنانے کیلئے تھا،ووٹ نہ گنیں تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جاسکتا،ہم کون ہوتے کسی کے ضمیر کا فیصلہ کرنیوالے ، آئین میں اپنی طرف سے کیسے کچھ شامل کیا جاسکتاہے ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مظہر عالم میاں خیل لارجر بینچ میں شامل تھے ،گزشتہ سماعت پر جسٹس منیب اختر نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تھا اس پر ججز کمیٹی نے منگل کونیا بینچ تشکیل دیا جس میں جسٹس منیب کی جگہ جسٹس نعیم اختر کو شامل کیا گیا ،سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے کہا جسٹس منیب اختر کو کل سماعت کے بعد بینچ میں شمولیت کی درخواست بھیجی گئی،جسٹس منیب نے اپنی پوزیشن برقرار رکھی، کیس کی فائل میرے پاس آئی میں نے جسٹس منصور شاہ کا نام تجویز کیا،ججز کمیٹی اجلاس میں جسٹس منصور شاہ کا انتظار کیاگیاانکی جانب سے انکار جسٹس نعیم اختر کو نئے لارجر بینچ میں شامل کرلیا گیا۔

آج کل سب کو معلوم ہے کہ سپریم کورٹ میں کیاچل رہا ہے ،سپریم کورٹ میں اب کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہورہا،پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے آج اجلاس کے منٹس بھی جاری کئے گئے جو سپریم کورٹ ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کر دئیے گئے ہیں،سپریم کورٹ میں جوہوتا ہے سب کے سامنے ہوتاہے ،بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھادیاچیف جسٹس نے کہا ہم آپکوبعد میں سنیں گے ابھی بیٹھ جائیں،سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت نے کہا اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور آرٹیکل 184/3 کی درخواستیں بھی تھیں،چیف جسٹس نے کہا کیا ریفرنس اور درخواستوں کو ایک ساتھ سنا جاسکتا تھا؟ ریفرنس پر رائے اور آرٹیکل 184/3 دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، صدراتی ریفرنس پر صرف رائے دی جاسکتی ہے فیصلہ نہیں، اس وقت صدر کون تھا؟شہزاد شوکت نے جواب دیا اس وقت عارف علوی صدر تھے ، ریفرنس میں آرٹیکل 63 اے کے تحت خیانت کے عنصر پر رائے مانگی گئی، عدالت نے قرار دیا تھا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف سیاسی جماعتوں کے لیے کینسر ہے منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جاسکتا،چیف جسٹس نے کہا آئین میں تحریک عدم اعتماد، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا انتخاب کی وضاحت موجود ہے۔

جب آئین واضح ہے تو اس میں اپنی طرف سے کیسے کچھ شامل کیا جاسکتا ہے ،عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نا جائے تو وزیراعظم ہٹایا ہی نہیں جاسکتا، اس کا مطلب ہے آرٹیکل 95 تو غیر فعال ہوگیا ووٹنگ کی مشق ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اسے گنا بھی جائے ، یہ عدالتی فیصلہ تو لگتا ہے عدم اعتماد کی تحریک کو غیرموثر بنانے کیلئے تھا، کیا فیصلہ آرٹیکل 95 اور 136 کو متاثر نہیں کرتا؟ اراکین اسمبلی اگرپارٹی سربراہ، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کو پسند نہیں کرتے توکیا ہوگا؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اس کا ایک حوالہ اقلیتی فیصلے میں موجود ہے ، بلوچستان میں ایک مرتبہ اپنے ہی وزیراعلیٰ کیخلاف اس کے اراکین عدم اعتماد لائے تھے چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا برطانیہ میں کنزرویٹوپارٹی کے ساتھ دیکھیں کیا ہوا، پارٹی کی حکمرانی برقراررہی لیکن وزیراعظم تبدیل ہوگیا۔ شہزادشوکت نے کہا ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی آواز سے متعلق تھا،فیصلے میں کہا گیاکہ کوئی مثال موجود نہیں جس میں انحراف ضمیر کی آواز پر کیاگیاہو،چیف جسٹس نے کہا کیا سچ میں ایسا لکھا گیا ہے ؟ضمیر کا فیصلہ کون کرے گا؟ لوگوں کے ضمیر میں کون جھانکے گا؟ کیا جو روز پارٹی تبدیل کرتے ہیں وہ ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرتے ہیں یا بے ایمان ہیں؟ اسکا فیصلہ کون کرے گا؟ ہم بطور جج کیسے فیصلہ کریں کہ ایک بندہ ضمیر کی آواز پر ووٹ دے رہا ہے یا نہیں؟ ہم کون ہوتے ہیں کسی کے ضمیر کا فیصلہ کرنے والے ،نظرثانی درخواست کب دائر ہوئی؟شہزاد شوکت نے جواب دیا 2022 میں نظرثانی درخواست دائر کی، چیف جسٹس نے کہا عابدزبیری بھی جب صدر سپریم کورٹ بار بنے تو اپیل واپس نہیں لی، سپریم کورٹ بار کے دونوں گروپ نظرثانی درخواست پر قائم رہے ، چلیں تسلی ہوئی کہ نظرثانی بار کی سیاست کی وجہ سے نہیں تھی،عدالت نے کہا دوران سماعت کئی سوالات سامنے آئے ،سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا میرا موکل جیل میں ہے نوٹس ملے گا تو جاکر ہدایات لوں گا،چیف جسٹس نے کہا یہ آئینی معاملہ ہے ہدایات کیا لیں گے ؟ کیاوہ آپ سے کہیں گے آئین کو نہ مانو؟ کیا ہر کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر نوٹس دیں؟ علی ظفر نے کہا موجودہ صدر نے نظر ثانی دائر نہیں کی چیف جسٹس نے کہا سابق صدر آکر معاونت کرنا چاہیں تو ویلکم،چیف جسٹس نے کہا آپ ویسے بتادیں نظر ثانی کے حامی ہیں یا مخالف ؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا میں نظر ثانی کی مخالفت کروں گا، بعد ازاں چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے سماعت کا حکمنامہ لکھوایا جسکے مطابق نظرثانی درخواست 3دن تاخیر سے دائر ہوئی،علی ظفر نے اعتراض اٹھایا تاہم درخواست گزار کے مطابق تفصیلی فیصلہ نہ آنے سے نظرثانی میں تاخیر ہوئی رجسٹرار آفس معلوم کرے کہ تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا ؟ جسٹس منیب اختر نے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کی، دوبارہ درخواست پر جسٹس منیب نے دوسرا خط لکھ دیا، رجسٹرار سپریم کورٹ یہ معاملہ چیف جسٹس کے نوٹس میں لائے ججز کمیٹی کا دوبارہ اجلاس بلا کر جسٹس نعیم اختر کو بینچ کا حصہ بنایا، دوران سماعت کئی سوالات سامنے آئے ، سوالات پر فریقین کو معاونت کی ہدایت کی جاتی ہے ، فریقین برطانیہ،امریکا سمیت دیگر ممالک میں انحراف کی حیثیت سے آگاہ کریں،بعد ازاں کیس کی سماعت آج بدھ ساڑھے گیاہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں