پی ٹی آئی مظاہروں کی کال کارکنوں کا امتحان لینے کے مترادف

 پی ٹی آئی مظاہروں کی کال کارکنوں کا امتحان لینے کے مترادف

(تجزیہ: سلمان غنی) تحریک انصاف کی جانب سے ایک مرتبہ پھر مجوزہ آئینی ترمیم بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور اب اراکین اسمبلی کے گھروں پر چھاپوں کیخلاف احتجاج کی کال دی گئی ہے اور اپنی تنظیموں ، اراکین اسمبلی اور کارکنوں کو اپنے اپنے مقامات پر احتجاجی مظاہروں کی ہدایات جاری کی گئی ہیں لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ آج پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاجی کی کال کے اصل مقاصد کیا ہیں ۔

اب ایک مرتبہ پھر سے ان کی احتجاج کی کال کا تجزیہ کیا جائے تو مسلسل احتجاجی عمل کی روش کو خود تحریک انصاف کے اندر سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اب احتجاجی روش کے حوالے سے خود پی ٹی آئی کے اندر بھی دو آرا ہیں ۔ بار بار کے احتجاج کا عمل خود کارکنوں کا امتحان لینے کے مترادف ہے ۔ دوسری جانب منظر سے غائب بعض پارٹی ذمہ داران ملک کے اندر احتجاجی کیفیت طاری کرنے پر مضر ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسلسل احتجاجی عمل کے ذریعے ہی حکومت کو دباؤ میں لایا جاسکتا ہے لہٰذا پارٹی ذمہ داران اور کارکنوں کو احتجاج کیلئے باہر نکلنا چاہیے ، اس نکتہ نظر کے حامل افراد میں حماد اظہر ،مراد سعید ودیگر شامل ہیں۔پنجاب میں صورتحال بہت مختلف ہے اور بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا عمل ہزاروں سے سینکڑوں اور اب یہ درجنوں تک محدود ہوتا نظر آرہا ہے ۔ کارکنوں کے اندر یہ غم وغصہ پارٹی کی احتجاجی پوزیشن پر اثر انداز ہوتا نظر آرہا ہے ۔ پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کیلئے دی جانے والی کال میں واضح کہا جارہا ہے کہ آج جمعہ کے روز نماز جمعہ کے بعد احتجاج پرامن ہوگا، سیاسی کمیٹی کی جانب سے پرامن احتجاج پر زور دیا جا رہا ہے ۔ تاثر یہ پیدا ہورہا ہے کہ پارٹی کے اندر احتجاج کی صلاحیت ماند پڑ رہی ہے اور کسی ایک جگہ بڑے احتجاج کی بجائے اب ضلعی صدر مقامات پر احتجاج کی کال اسکا ثبوت ہے ۔پی ٹی آئی کے ایک ذمہ دار ذرائع نے دنیا نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی کہ پارٹی کی اندرونی صفوں میں خصوصاً کارکنوں میں جیل سے باہر قیادت پر عدم اعتماد بڑھ رہا ہے ۔پی ٹی آئی کے جذباتی کارکن اپنی سیاسی کمیٹی کو جماعت کی مصلحت پسند کمیٹی قرار دے رہے ہیں ۔ ادھر احتجاج کی کال پر حکومت پر بخار سوار ہوجاتا ہے ، اس حوالے سے اس پر اثر انداز ہونے کیلئے ممکنہ اقدامات شروع کرائے جاتے ہیں ۔ اس عمل سے احتجاج پر اثر انداز ہونا تو کیا ، الٹا انتظامی مشینری کے اقدامات سے روز مرہ کے معمولات اور شہریوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔راستوں کی بندش اور کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کا عمل حکومتی پریشانی کو زیادہ عیاں کرتا ہے لہٰذا اب پنجاب حکومت کی جانب سے صوبہ بھر میں عام تعلیمی اداروں کی بندش کے اعلان کو اس تناظر میں لیا جارہا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں