آج کل ملتان کے سینئر صحافی اور اپنے مہربان جبار مفتی صاحب کی خودنوشت پڑھ رہا ہوں۔ جبار مفتی صحافتی اور سیاسی حلقوں میں نہایت احترام سے جانے جاتے ہیں۔ اپنی خودنوشت میں انہوں نے پچاس سال سے زائد صحافتی‘ سیاسی اور ذاتی واقعات پر مبنی کہانیاں لکھی ہیں جنہیں پڑھ کر آپ کو بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے۔ کچھ واقعات کے تو وہ عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ایک واقعہ ایسا بھی لکھا ہے جسے پڑھ کر آپ کانپ کر رہ جاتے ہیں کہ انسان اتنا سنگدل بھی ہو سکتا ہے۔
جبار مفتی لکھتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگایا تو ابتدا میں سیاسی رہنماؤں اور حکمرانوں کو گرفتار کرنے کے بجائے انہیں حفاظتی تحویل میں لینے کا اعلان کیا گیا۔ قومی اتحاد کے حامیوں نے مٹھائیاں اور حلوے کی دیگیں تقسیم کیں۔ بھٹو صاحب کو مری کے گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا تھا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر وہاں بھٹو صاحب سے ملنے گئے تو ان کا انداز بہت مؤدبانہ تھا۔ بھٹو صاحب نے انہیں بدستور اپنا ماتحت سمجھتے ہوئے بے نقط سنائیں بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ چنانچہ کہنے والے کہتے ہیں کہ جس کا بس چلا‘ اس نے دوسرے کو نہیں چھوڑا۔
جبار مفتی لکھتے ہیں کہ 1978ء میں ایک روز میں اسلام آباد کے سیکٹر جی 6 میں اپنے گھر میں بیٹھا تھا کہ دروزے پر دستک ہوئی۔ باہر نکل کر دیکھا تو امجد کا بھائی ارشد اقبال کھڑا تھا۔ کافی گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ بیٹھک میں بٹھایا‘ حال احوال پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ ایف ایس ایف (یعنی اپنے محکمے) کے سربراہ مسعود محمود سے ملنے آیا ہے اور جلدی میں ہے۔ میں نے گھبرانے کی وجہ پوچھی تو اس نے تفصیل بتانے سے گریز کیا اور کہا کہ ضروری کام ہے۔ فون پر بات نہیں کی جا سکتی تھی‘ اس لیے ملنے چلا آیا۔ اس نے بتایا کہ بہت حساس اور نازک کام ہے۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیااور پھر کوئی رابطہ نہ رہا۔ رمضان المبارک کی ایک صبح یہ روح فرسا خبر ملی کہ اچھرہ اڈا لاہور میں امجد اقبال کو اس کے گھر کی دہلیز پر نامعلوم افراد نے خنجر کے وار سے قتل کر دیا ہے۔ میٹرک کے دوست اسلم حیات کھرل سے تفصیلات معلوم کیں تو پتا چلا کہ شام کو عین افطاری کے وقت جب سارا گھرانہ افطاری کا سامان سجائے اذانِ مغرب کا منتظر تھا تو گھر کی گھنٹی بجی۔ امجد یہ دیکھنے کے لیے باہر نکلا کہ کون ہے‘ اس کے باہر نکلتے ہی سارا محلہ اس کی چیخوں سے گونج اٹھا۔ چیخیں سن کر ارشد سرکاری پستول لے کر باہر بھاگا۔ شام کے سائے میں تین چار لوگ گلی سے بھاگے جارہے تھے اور امجد خون میں لت پت تڑپ رہا تھا۔ارشد نے بھاگنے والوں پر فائر بھی کیا مگر وہ بھاگنے میں کامیاب رہے۔ امجد کی میت رونے کے لیے بوڑھی ماں اور نو عمر بہنوں کے آگے رکھ دی گئی۔ قاتلوں کی مہارت اور چابکدستی سے اندازہ لگایا گیا کہ وہ تربیت یافتہ تھے یا کسی ایسے محکمے سے وابستہ تھے جہاں اس طرح کے آپریشن کی وسیع تربیت اور تجربہ موجود ہے۔ عام تاثر یہ تھا کہ امجد اور ارشد چونکہ ایک ہی قد کاٹھ اور جسامت کے حامل سگے بھائی تھے اس لیے امجد کو ارشد کے مغالطے میں قتل کیا گیا۔ اس کا پس منظر یہ بتایا گیا کہ چونکہ نواب محمد احمد خان پر فائرنگ کرنے والے گروپ میں ارشد اقبال بھی شامل تھا‘ اس لیے ثبوت مٹانے کے لیے اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن شام کے دھندلکے میں شکل کی مشابہت اور ایک جیسے قد کاٹھ کے باعث حملہ آور امجد کو ارشد سمجھے اور اپنے ذمے لگا کام مکمل کر کے بھاگ گئے۔ ضیا دور میں نواب محمد احمد خان قتل کیس کی ایف آئی آر کو جھاڑ پونچھ کر کے باہر نکالا گیا اور بھٹو صاحب کو مقدمۂ قتل میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس مقدمے میں گولیاں چلانے والے ایف ایس ایف کے اہلکاروں اور حکم دینے والے اعلیٰ افسروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں انسپکٹر ارشد اقبال‘ انسپکٹر غلام مصطفی اور ان کے بگ باس مسعود محمود بھی شامل تھے۔ مسعود محمود تو سلطانی گواہ بن گئے مگر باقی ملزمان الزامات سے انکاری تھے۔ مقدمے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مزید اقراری بیانات ضروری سمجھے گئے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کو استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کی وجہ ارشد اقبال کے گھرانے کا جماعت اسلامی سے تعلق بھی تھا۔ پتا چلا کہ اُس وقت کے امیرِ جماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کو حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ اگر ارشد اقبال اعترافی بیان دے دے کہ اس نے بھٹو کی ہدایت پر (بذریعہ مسعود محمود) نواب محمد احمد خان کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس کے لیے زیر حراست انسپکٹر ارشد اقبال کے بڑے بھائی محمد اسلم‘ جو جماعت اسلامی کے سکول 'نیا مدرسہ‘ میں استاد تھے‘ سے رابطہ کیا گیا۔ انہوں نے اپنی والدہ کو آمادہ کیا اور دونوں کو راولپنڈی لے جایا گیا جہاں صدر ضیا کے دستِ راست وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل ایف اے چشتی سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ انہوں نے ماں بیٹے کو یقین دلایا کہ اگر ارشد اور اس کا کوئی ساتھی اقراری بیان دیدے تو بھٹو کو سزا ہو جائے گی اور بیان دینے والوں کو صدرِ مملکت معافی دے دیں گے۔ اس کی صدر ضیا الحق کی طرف سے ضمانت ہے۔ پھر ماں بیٹا دونوں واپس لاہور پہنچ کر جیل میں ارشد سے ملے اور اسے آمادہ کر لیا کہ وہ گواہی دیدے۔ اس نے انسپکٹر غلام مصطفی کو قائل کیا جس نے (خاندانی ذرائع کے مطابق) ارشد سے کہا کہ کہیں مروا نہ دینا‘ اقراری بیان پر پھانسی لگ سکتی ہے۔ ارشد اقبال نے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا‘ میری ماں چل کر آئی ہے اور صدر ضیا نے یقین دلایا ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ ماں نے کہا ہے کہ پُتر تمہارے ایک بیان سے قوم کی جان بھٹو سے چھوٹ جائے گی اور تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔ میں اپنی ماں کو ہاں کہہ چکا ہوں‘ اب تم بھی میرا ساتھ دو‘ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔
اس پر انسپکٹر غلام مصطفی بھی مان گیا۔ دونوں نے اقراری بیان دے دیا جس کے نتیجے میں نواب محمد احمد خان قتل کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد خیال تھا کہ اقراری بیان دینے والے ملزمان اور سلطانی گواہوں کو معاف کر دیا جائے گا‘ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ جب ان کی سزائے موت پر عملدرآمد یقینی نظر آنے لگا تو ارشد کی ماں اور بھائی اسلم بہت تڑپے‘ روئے اور چیخے چلائے۔ انہوں نے میاں طفیل محمد کو بار بار توجہ دلائی جنہوں نے ایوانِ صدر رابطے کیے‘ جنرل چشتی کو ان کے وعدے یاد دلائے‘ مگر کچھ نہ ہو سکا بلکہ جنرل چشتی نے ان کا فون سننا ہی بند کر دیا۔ پھر ایک دن ارشد اقبال اور غلام مصطفی کو بھی باقی ملزمان کے ساتھ پھانسی دے دی گئی۔
جبار مفتی‘ جو اس خاندان کو اچھی طرح جانتے تھے‘ لکھتے ہیں کہ باقیوں کے لواحقین کا تو پتا نہیں لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ جس ماں نے کسمپرسی میں‘ غربت میں بے وسیلہ ہونے کے باوجود بڑے ارمانوں سے پانچ بیٹوں کی پرورش کی‘ اپنا پیٹ کاٹ کر ان کو پڑھایا‘ جوان کیا۔ وہ جب جوان ہوئے تو ان میں سے ایک سرکاری نوکری میں شہید ہو گیا تھا‘ دوسرا گھر کے دروازے پر قتل ہو گیا اور تیسرے کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ اس ماں پر کیا بیتی ہو گی؟ چلیں شہید اور قتل ہونے کو حادثہ یا اللہ کی مرضی کہہ کر دل کو تسلی دے دی ہو گی مگر اس بیٹے کی موت پر ماں کا جگر کس طرح کٹا ہو گا جس بیٹے کو اس نے خود ہی اقراری بیان پر آمادہ کیا تھا اور اسی بیان کے سبب وہ پھانسی کے پھندے تک پہنچ گیا۔ پھر وہ ماں بھی زیادہ دن زندہ نہ رہ سکی کہ اب اس کے جینے کو دنیا میں رہ ہی کیا گیا تھا؟ قوم کی جان بھٹو سے چھڑانے کے نام پر اس نے خود اپنے لختِ جگر کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال دیا تھا۔