غزہ پر محض تقریریں ، اسرائیل نوٹس لینے کو تیار نہیں
(تجزیہ: سلمان غنی) مشرق وسطی خصوصاً غزہ اور لبنان کی صورتحال پر سعودیہ میں بلائی جانے والی کانفرنس کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے ۔
ریاض میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں اسلامی ممالک کے رہنما مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر غور و خوض کے بعد کسی متفقہ لائحہ عمل پر پہنچنے کی کوشش کریں گے کیونکہ غزہ میں جاری نسل کشی اور لبنان میں جاری مسلسل بمباری کے عمل نے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں تشویش کی لہر پیدا کر رکھی ہے ۔کانفرنس میں غزہ اور لبنان میں پیدا شدہ انسانی صورتحال پر عالمی کوششوں اور کاوشوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا ۔کانفرنس کے حوالہ سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کانفرنس میں عرب ممالک کے چین سے تعلقات اور تجارتی تعاون بڑھانے پر بھی غور ہوگا لہٰذا اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہ کانفرنس اپنے مقاصد میں کامیاب رہے گی کیا عالم اسلام کے ممالک فلسطینیوں کی نسل کشی اور یہاں روا رکھے جانے والے ظلم و جبر اور بربریت کے خلاف اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی پوزیشن میں ہوں گے ۔ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو پائیں گے جہاں تک غزہ میں پیدا شدہ صورتحال اور لبنان میں جاری بمباری کے مسلسل عمل کا سوال ہے تو ایک جانب جہاں عالم اسلام کا طرز عمل محض تقاریر ، قراردادوں اور مطالبات پر مشتمل ہے جس کا کسی طرح بھی اسرائیل نوٹس لینے کو تیار نہیں اور وہ مسلسل اپنی طے شدہ حکمت عملی کے تابع فلسطینیوں کی نسل کشی پر مضر ہے ، اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ عالم اسلام کی جانب سے آنے والے ردعمل کے باوجود اسرائیل مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے اپنے اقدامات پر گامزن ہے۔
کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ نہ رنگتا ہو ، طاقت اور قوت کا بے جا استعمال نہ کرتا ہو ، اس کی بڑی وجہ امریکا سمیت استعماری طاقتوں کا اس کی پشت پر کھڑا ہونا ہے اور وہ زبانی طور پر تو جنگ بندی کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں مگر عملاً وہ اسرائیل کی پیٹھ تھپکاتے اور اس کیلئے ممکنہ مدد فراہم کرتے نظر آتے ہیں خصوصاً اس حوالہ سے سپر پاور امریکا کا طرز عمل منافقانہ ہے اور اس لئے اب تک اس کے دہرے کردار کے باعث ہی امریکا کے حالیہ انتخابات میں صدر بائیڈن اور ان کی جماعت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ،غزہ کی صورتحال اور اس میں طاقت کے بے جا استعمال پر امریکیوں کی اکثریت اس کی مخالفت کرتی نظر آئی کہ خود ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالہ سے تو واضح موقف اختیار نہیں کیا لیکن انہوں نے مسلم کمیونٹی خصوصاً نوجوان امریکیوں کو یقین دلایا کہ وہ غزہ اور لبنان میں پیدا شدہ صورتحال میں جنگ بندی کو یقینی بنائیں گے ، لہٰذا ٹرانسفر آف پاور کے بعد صدر ٹرمپ کیلئے بڑا چیلنج خود غزہ کی صورتحال اور لبنان کی جنگ ہوگی ۔ کیا وہ اسے یقینی بنا پائیں گے فی الوقت تو اس حوالہ سے کچھ کہنا مشکل ہے ، کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر کوئی بھی ہو لیکن یہودی لابی کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونا مشکل ہوتا ہے ۔
امریکی میڈیا میں آنے والی بعض رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ اگر غزہ میں جنگ بندی یقینی نہ بنا سکے تو تب بھی اسرائیل کی پشت پر ویسے کھڑے نظر نہیں آئیں گے جیسے بائیڈن انتظامیہ کھڑی تھی ، ویسے بھی غزہ کی صورتحال اب عالم اسلام سے زیادہ اب انسانیت کا مسئلہ بن چکی ہے ، اس حوالہ سے مغرب کا ردعمل ا ہم ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ خصوصاً نوجوانوں نے باہر آ کر اپنے ردعمل کا اظہار کیا اور مغرب پر غزہ کے حوالہ سے ایک نفسیاتی کیفیت طاری رہی ۔ جہاں تک اس حوالہ سے مشرق کا سوال ہے تو بظاہر مشرق وسطیٰ کے ممالک اور خصوصاً مسلم ممالک نے غزہ کی صورتحال پر ردعمل کا اظہار محض بیانات، اعلانات اور قراردادوں تک محدود رکھا ۔ اس کا دباؤ اسرائیل پر آنے کی بجائے خود اسرائیل نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا ، اسے معلوم تھا کہ عالم اسلام اس حوالہ سے کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ، جہاں تک پاکستان کا سوال ہے تو پاکستان نے اس حوالہ سے ردعمل کا اظہار ضرور کیا مظلوم فلسطینیوں کی عملی امداد خوراک اشیائے ضروریہ اور ادویات کی فراہمی تک ضرور کی البتہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مظلوم معصوم اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے اسرائیل کے ظلم وجبر اور بربریت کی مذمت کی اور اس حوالہ سے دنیا اور خصوصاً عالمی قوتوں کو جھنجھوڑا اور فلسطین کے ایشو کو انسانیت کا ایشو قرار دیتے ہوئے اس پر موثر اقدامات پر زور دیا اور کہا کہ غزہ میں جنگ بندی وقت کی آواز ہے۔
اور اس حوالہ سے خاموشی مجرمانہ ہے وزیراعظم شہباز شریف نے اس حوالہ سے شنگھائی کانفرنس ، تمام عالمی فورمز پر فلسطین کاز پر جرأت مندانہ حقیقت پسندانہ انداز اختیار کیا اور اب بھی عرب ممالک کی کانفرنس بارے توقعات ہیں کہ وزیراعظم عرب سربراہوں کی کانفرنس میں فلسطین جیسے انسانی ایشو پر عملی اقدامات پر زور دیں گے جہاں تک یہ سوال ہے کہ اسرائیل پر کوئی دباؤ کارگر نہیں ہوتا تو اس کی بڑی وجہ اس کو ملنے و الا امریکی آشیر باد اور تھپکی ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض اہم مسلم ممالک اس حوالہ سے کسی ردعمل کا اظہار امریکا کی طرف دیکھ کر دیتے ہیں ، وہ عملی اقدامات سے گریزاں رہے ہیں لہٰذا اب ایک مرتبہ گیند پھر عالم اسلام کی کورٹ میں ہے اور اس میں بڑا کردار سعودی عرب اور پاکستان کا ہوگا اور ضرورت اس امر کی ہے کہ غزہ اور لبنان کی صورتحال خصوصاً جنگ بندی کیلئے ضروری ہے کہ عالم اسلام اپنے اندر اتحاد و یکجہتی پیدا کرتے ہوئے فلسطین کاز پر جرات دکھائے اور امریکا کو باور کرائے کہ اس ایشو پر اپنا کردار ادا کرے اور اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی روکے دوسرا یہ کہ عالم اسلام کے ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کریں اور اسرائیل کیلئے پٹرولیم کی سپلائی بند کریں اور اسرائیل کو باور کرائیں کہ ہم اپنے عربوں کے خون سے ہاتھ نہیں رنگنے دیں گے ، بلاشبہ آج بھی غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کی کنجی عالم اسلام کے پاس ہے اسے جرات دکھانے اور اسرائیل کو دھمکانے کی ضرورت ہے ویسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی میں کردار ادا کرنے کے اعلان کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور ایسی فضا طاری کی جائے جس میں اسرائیل کو لینے کے دینے پڑیں ویسے بھی اسرائیل غزہ و لبنان کی صورتحال میں سخت مسائل سے دوچار ہے اسرائیل کے اندر سے بھی نیتن یاہو کے خلاف ردعمل بڑھ رہا ہے۔
وزیر دفاع کی برطرفی کے عمل نے ان کی حکومت کے خلاف بڑا سوال کھڑا کر رکھا ہے لہٰذا اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن اقدام کے لئے فضا سازگار بھی ہے ہموار بھی تھوڑی جرأت عالم اسلام کے حکمرانوں کو دکھانا پڑے گی جس کیلئے عرب ممالک کا یہ فورم اہم ہے جہاں تک چین سے ان ممالک کے تعلقات کار کا سوال ہے تو یہ تعلقات دوطرفہ ایشوز سے منسلک ہیں اور جس کے بڑھتے اثر و رسوخ نے امریکا کو پریشان کر رکھا ہے اور خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد عربوں کے چین سے تعلقات انہیں ہضم نہیں ہو پائیں گے لیکن اگر عالم اسلام کے ممالک اپنے اندر اتحاد پیدا کریں ، عالم اسلام کے ایشو کے حوالہ سے ان میں ہم آہنگی اور یکجہتی ہو تو کوئی دباؤ ان پر کارگر ثابت نہیں ہو سکے گا ویسے بھی غزہ کی صورتحال، لبنان پر بمباری اور خصوصاً ایران کے خلاف امریکا کے عزائم پر روس و چین کی حکمت عملی عالم اسلام کے لئے ایک بڑی اخلاقی و سیاسی سپورٹ ہے جس کا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ بلاشبہ اس خطہ میں امریکا کا اثر و رسوخ افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد کم ہوا ہے ، چین اور روس نے جگہ بنا لی ہے لہٰذا مذکورہ صورتحال میں عالم اسلام اپنے مفادات کو یقینی بنانے کیلئے بڑے اقدامات کی پوزیشن میں ہے اور اس موقع پر کانفرنس کو ذریعہ بنا کر اس برے کھیل سے نجات ممکن ہے جس کے تحت مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی اور دنیا میں امریکا کی حاکمیت قائم ہے بات جرأت دکھانے اور اپنے وسائل اور کردار پر اعتماد اور اعتبار کی ہے ، راستے کھل رہے ہیں ، اس کا فائدہ اٹھایا جانا چاہئے فلسطین کے مظلوم عوام کی نظریں عالم اسلام پر ہیں فیصلہ عالم اسلام کے حکمرانوں کو کرنا ہے کہ کیا وہ خود اپنے عوام اور خدا کے ہاں سرخرو ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ریاض کانفرنس میں اپنے خطاب میں جہاں غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور دیا ، وہاں اسرائیل کو جنگی جرائم میں جوابدہ بنانے کی بات کی مگر اسرائیل کو جوابدہ کون بنائے گا یہ اہم ہے اس پر کانفرنس کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی یہ دیکھنا ہوگا۔