قومی حکومت کی افواہوں اور چہ مگوئیوں کے پیچھے کون؟

قومی حکومت کی افواہوں اور  چہ مگوئیوں کے پیچھے کون؟

تجزیہ:سلمان غنی بظاہر قومی حکومت کی نہ تو کوئی منطق ہے ، نہ ہی یہ کوئی آئینی آپشن ہے مگر بڑھتی ہوئی محاذ آرائی اور سیاسی محاذ پر بڑھتے تناؤ میں قومی حکومت بارے چہ مگوئیاں جاری ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اگر ملک کو معاشی حوالے سے واقعتاً ترقی کی پٹڑی پر ڈالنا ہے۔

 تو پھر سیاسی درجہ حرارت میں کمی کیلئے کچھ عرصہ کیلئے قومی حکومت بنانی چاہئے تاکہ اس آپشن کو بروئے کار لا کر کسی حد تک حالات کو نارمل کیا جائے ۔ بعد ازاں ملک میں عام انتخابات کی جانب پیشرفت کی جانی چاہئے ،پہلی بات تو یہ کہ یہ تجویز کہاں سے آ رہی ہے ،ماضی میں بھی خاص حالات میں ایسی تجویز آتی رہی یہ سوچ و فکر نئی نہیں بلکہ سیاسی بحرانوں کو بنیاد بنا کر ایسے فارمولے میڈیا کے ذریعے آتے رہے لیکن فیصلہ سازی پر دسترس رکھنے والوں کے ہاں اسے پذیرائی نہ مل سکی اور اگر آج کے حالات میں فیصلوں میں بنیادی کردار ادا کرنے والے خود ہی موجودہ حکومت کے حوالے سے مطمئن ہیں اور پشت پر کھڑے ہیں تو پھر اس کا ایسا کیا جواز ہے ،ویسے بھی موجودہ حکومت کسی ایک جماعت کی نہیں بلکہ یہ کئی جماعتوں کا مجموعہ ہے ، اگر کوئی مجوزہ قومی حکومت سیاسی قوتوں کی بجائے ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ہوگی تو سیاسی جماعتیں کیا پھر مزاحمت کیلئے تیار ہوں گی ایسا ممکن نظر نہیں آتا ہاں البتہ جن حلقوں سے یہ تجویز آ رہی ہے ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ قومی حکومت بنگلہ دیش طرز کی ہو گی جس کچھ عرصہ ممکن بنا کر انتخابات کی جانب پیشرفت کی جائے گی البتہ ایسی تجویز دینے والے یہ نہیں بتا پا رہے کہ مذکورہ قومی حکومت ایوان کے اندر سے ہو گی یا باہر سے اور کیا یہ صرف مرکزی سطح پر قائم ہوگی اور صوبوں میں موجودہ حکومتیں قائم رہیں گی ؟اور یہ قومی حکومت اس کا کوئی آئینی جواز ہوگا ؟ اگر آئین سے بالاتر کسی قومی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے تو کیا وہ عدالت عظمیٰ میں چیلنج نہیں ہو پائے گی کیونکہ کسی آئینی تحفظ کے بغیر کوئی بھی بندوبست نہ تو قائم ہو سکتا ہے اور نہ چل سکتا ہے ۔ اگر ایوان سے کسی قومی حکومت کی تشکیل کی بات ہے تو پھر ایوان کے اندر سے کسی کو بنایا جائے گا تو پھر وہ کسی دوسرے کو کیونکر قبول کرے گا لہذا مذکورہ صورتحال کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ آئین قانون کے تابع ایسا کوئی بندوبست نہ تو بنتا نظر آتا ہے اور نہ ہی چلتا دکھائی دیتا ہے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ قومی حکومت کا ماڈل صرف ان کیلئے قابل قبول ہو سکتا ہے جنکی سیاسی سطح پر اپنی کوئی پذیرائی نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں