حکومت پی ٹی آئی مذاکرات نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں
(تجزیہ:سلمان غنی) اپوزیشن کے بعد حکومت کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کے اعلان کے بعد سپیکر ایاز صادق کی جانب سے آج اسمبلی سیکرٹریٹ میں بلائے جانے والے مشترکہ اجلاس کو ملک میں موجود تنائو کی کیفیت میں ایک اہم سیاسی پیش رفت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
اور دو طرفہ کمیٹیوں کی حیثیت کا جائزہ لیا جائے تو ملکی بڑی قیادت کے بعد ان شرکا کو اپنی پارٹی کے ذمہ داروں میں شمار کیا جاتا ہے اور اسی بنا پر توقع ظاہر کی جا رہی ہے مذاکراتی عمل میں بڑے بریک تھرو کے بعد یہ مذاکرات با مقصد اور نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں ۔ لہذا اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہ مذاکرات کن ایشوز پر ہوں گے ،حکومت کچھ اپوزیشن کو دینے کی پوزیشن میں ہو گی اور اپوزیشن کیا اپنی احتجاجی روش میں تبدیلی لا پائے گی ۔ ویسے تو ان مذاکرات کے آغاز پر اصولی طور پر بانی پی ٹی آئی کو سول نافرمانی کی اپنی کال واپس لینی چاہئے لیکن ان مذاکرات کا آغاز ہی اس کال پر اثر انداز ہو گا کیونکہ خود بانی پی ٹی آئی کی جانب سے اس حوالہ سے کال کی بات اتوار کو کی گئی مگر انہوں نے اس کا اعلان جلدی میں کر دیا لہذا بے یقینی کی کیفیت میں ان مذاکرات کی اہمیت یہ بھی ہے کہ ان کے حوالہ سے پس پردہ کچھ دبائو بھی موجود ہے اور پس پردہ کچھ چلتا بھی نظر آ رہا ہے لہذاایک بات واضح ہے کہ مشکل صورتحال میں پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کی کچھ وجوہات تو ضرور ہوں گی۔
لگتا ہے انہیں کہا گیا ہے کہ مستقبل کے حالات میں اپنے سیاسی کردار اور ممکنہ ریلیف کے لئے اپنا طرز عمل بھی بدلنا ہو گا اور سیاسی طریقہ کار بھی ،اور آنے والے حالات میں سسٹم کو قبول بھی کرنا ہو گا اور سسٹم کو چلانے میں معاونت بھی کرنا ہو گی اور ایسی اطلاعات بھی ہیں ان شرائط کے عوض معینہ مدت سے کچھ قبل انتخابات بھی ہو سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب حکومت کو بھی پی ٹی آئی کو ممکنہ ریلیف فراہم کرنا ہو گا اور سیاسی استحکام کے لئے ان سے تعاون کرنا ہو گا۔ البتہ ایک بات طے ہو گی حکومت اپوزیشن کو کوئی ایسی یقین دہانی نہیں کرا پائے گی جس میں انہیں فیصلہ سازوں کی تائید حاصل نہ ہو گی۔ پی ٹی آئی کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق مذاکرات کا ایجنڈا تو طے نہیں مگر آج کی میٹنگ میں ایجنڈے کے نکات پر بات ہو گی اور ہمیں حکومتی طرزعمل سے پتہ چلے گا کہ ہمیں آگے کہاں تک جانا ہے جہاں تک سول نافرمانی کی کال کی واپسی کا تعلق ہے تو یہ اختیار ہماری لیڈر شپ کا ہے اور یہ نومئی اور 26 نومبر کے واقعات پر کمیشن کے قیام سے مشروط ہے البتہ حکومتی ذرائع مصر ہیں کہ مذاکرات سیاسی ایشوز پر ہیں ذاتی پر نہیں ۔
سیاسی استحکام کے لئے ہر ممکن حد تک جائیں گے مگر عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے ۔ذرائع کے مطابق حکومت مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بنانے میں ہر حد تک جائے گی مگر اس کا انحصار پی ٹی آئی پر ہو گا کہ ہم پر کتنا بوجھ لادنا ہے ۔دوسری جانب ماہرین اس مذاکراتی عمل کو برف پگھلنے اور اس پر تحمل سے چلنے کاذریعہ قرار دیتے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اس کی کامیابی کا انحصار زیادہ حکومت پر ہو گا ۔ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذاکرات جن حالات میں یقینی بنے ہیں یہ کسی تیسرے فریق کی مدد کے بغیر ممکن نہیں البتہ مذاکرات کی نتیجہ خیزی بارے کہا جا سکتا ہے کہ اس حوالہ سے نتائج جلد سامنے نہیں آئیں گے ۔ ہو سکتا ہے یہ عمل ہفتوں چلے اور اس امر کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ یہ بریک بھی ہوں اس بارے پی ٹی آئی کے مطالبات رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔اسلام آباد کے ذمہ دار ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اصل کام فریقین کا بیٹھنا تھا وہ ممکن بن رہا ہے ، آگے کیسے چلے گا قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتاالبتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کا مل بیٹھنا ہی بریک تھرو ہے اور ان کے مستقبل کا انحصار دونوں کے طرز عمل پر ہو گا ۔البتہ وقتی طور پر بانی پی ٹی آئی کے لئے کسی ریلیف کا امکان نہیں، پی ٹی آئی اس پر حکومت پر دبائو رکھے گی۔ مذکورہ مذاکراتی عمل میں حکومت کا موقف ہو گا کہ نو مئی کے واقعہ پر عدالتی عمل پر کوئی دبائونہیں لیا جائے گا ۔