پاکستان کا میزائل پروگرام امریکا کے نشانے پر کیوں؟

پاکستان کا میزائل پروگرام امریکا کے نشانے پر کیوں؟

(تجزیہ:سلمان غنی) نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے برسراقتدار آنے سے پہلے ہی ان کے نامزد کردہ افراد کی جانب سے آنے والے بیانات اور اعلانات سے ان کے عزائم ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔

 ایسامحسوس ہوتا ہے نئی دہلی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد ان کی پالیسیوں میں ٹھہراؤ ممکن نہیں۔ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد خصوصی ایلچی رچرڈ گرینل کا اپنے انٹرویو میں یہ کہنا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے  نامزد وزیرخارجہ ماکوروینو نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے ، ظاہر کرتا ہے کہ انہیں پاکستان کا میزائل سسٹم ہضم نہیں ہو پا رہا ۔ یہ ان کی آنکھ میں کھٹک رہاہے ، اس کی ٹائمنگ بھی اہم ہے ۔ ایساکیوں ہے ؟ ۔ اہم سوال یہ ہے آخر کیا وجہ ہے امریکا میں برسراقتدار آنے والی نئی انتظامیہ کے ذمہ دار پاکستان کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ کیا بھارت ، اسرائیل اور دیگر ممالک کے پاس ان کا میزائل پروگرام موجود نہیں اور کیا فلسطین اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل جدید جنگی اسلحہ استعمال نہیں کر رہا ۔روس سے جنگ کے حوالے سے یوکرائن نے کونسے اسلحہ کا استعمال نہیں کیا اوربھارت کا میزائل سسٹم کس حد تک پرامن مقاصد کیلئے ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے یہ نئی مہم کسی خاص ایجنڈا کے تحت ہے اور مقصد پاکستان کو دباؤ میں لانا ہے ۔کبھی پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالہ سے خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں اور کبھی میزائل سسٹم پر سوالات کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ اگر دنیا کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کسی بھی تنازع میں پاکستان کی امریکا سے براہ راست کوئی چپقلش نہیں ۔ خاص حالات میں پاکستان کے میزائل پروگرام کے حوالہ سے یہ نکتہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ امریکا کو ٹارگٹ کرنے تک کی دسترس رکھتا ہے جبکہ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہو یا میزائل پروگرام یہ بھارتی خطرات کے گرد گھومتا ہے اور پاکستان کو ہمیشہ سے بھارت کے جارحانہ عزائم بارے تشویش رہی ہے ۔

چونکہ علاقائی صورتحال میں امریکا کا بھارت کے ساتھ ایک خصوصی تعلق ہے جو اس حوالہ سے ثابت شدہ ہے ۔پاکستان کے میزائل سسٹم کے حوالہ سے امریکا کے حالیہ بیانات بھارت کو خوش کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے جو چین کے خلاف بھارت کو مضبوط اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے ۔ پاکستان نے ان بیانات اور امریکی تحفظات کے بارے واضح کر دیا کہ امریکی پابندیوں کا مقصد خطے میں عدم توازن کو بڑھاوا دینا ہے ۔ امریکا کی جانب سے میزائل پروگرام سے متعلق تشویش حقیقت پسندانہ نہیں۔ بھارت کا میزائل پروگرام پاکستان سے زیادہ طویل فاصلے تک ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن واشنگٹن دہلی کے بارے میں ایسی تشویش کیوں ظاہر نہیں کرتا ۔ اس کی بڑی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ امریکا پاکستان کے چین سے مضبوط روابط اور پاکستان کی معاشی مضبوطی کیلئے ہونے والے اقدامات سے خائف ہے اور سمجھتا ہے اگر پاکستان پر دباؤ نہ ڈالا گیا تو وہ خطہ میں ایک موثر معاشی قوت کے طور پر ابھرے گا جو امریکی مفادات کیلئے درست نہیں۔جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ امریکاپاکستان کو اپنے بیانات اور اعلانات کے ذریعہ دفاعی محاذ پر لا پائے گا پاکستان کا ردعمل ظاہر کرتا ہے پاکستان اس مہم کو ایک خاص ایجنڈا کا حصہ سمجھتا ہے اور پاکستان پر پابندیوں کا عمل اثرانداز نہیں ہوگا۔جہاں تک امریکی پابندیوں کا سوال ہے تو کئی دہائیوں سے بے شمار امریکی پابندیاں پاکستان پر لگی ہیں لیکن پابندیوں سے امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس میں اسے ناکامی ہوئی البتہ دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثر پڑا ۔امریکا کی نئی انتظامیہ کو سوچنا پڑے گا اور پاکستان کے حوالہ سے ذمہ دار طرز عمل اختیار کرنا ہوگا تاکہ امریکا کی عالمی سطح پر ساکھ بحال ہوسکے ۔خصوصاً اسے جنوبی ایشیا میں اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالنے کی بجائے بھارت اور پاکستان کے حوالہ سے حقیقت پسندانہ طرز عمل اختیار کرنا چاہیے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں