محسن ملک کیخلاف کارروائی افغان طالبان کیلئے لمحہ فکریہ
(تجزیہ:سلمان غنی) افغانستان سے دراندازی کی کوشش اور پاکستان کی جانب سے بھرپور ردعمل کے ذریعہ ناکام بنانے کے عمل سے ایک بات تو کھل کر سامنے آئی ہے کہ مغربی بارڈر پر پیدا شدہ صورتحال میں دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا عمل صرف ٹی ٹی پی کی کارروائی ہی نہیں بلکہ اسے طالبان انتظامیہ کی تائید بھی حاصل ہے اور افغان وزارت دفاع کی جانب سے آنے والے موقف سے بہت کچھ ظاہر ہوگیا ہے۔
کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے عمل کا حصہ ہے اور افغانستان پر ہونے والے مبینہ حملوں کو جواز بناتے ہوئے وہ اب پاکستان میں کارروائیوں کا حصہ ہیں،ان کے سینئر رہنما اور وزیراطلاعات خیبراﷲ خیرخواہ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ جس میں وہ پاکستان کے مخالف عسکریت پسندوں کو پناہ دینے پر فخر کرتے دکھائی دئیے ۔یہ خود طالبان انتظامیہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے انہیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان کے خلاف ان کا یہ کردار خود ان کی تیاری کے حوالہ سے کیا ہوگا ، اب تک تو پاکستان ہی تھا جو عالمی محاذ پر اس کاکیس پیش کرتا نظر آیا ورنہ ان کی اپنی اہلیت صلاحیت یہ تھی کہ آج تک کسی نے اس حوالہ سے سافٹ کارنر نہ لیا کسی نے امن تسلیم نہیں کیا ، ایران ،چین اور روس بھی طالبان انتظامیہ کو اس کے طرز عمل کے حوالے سے چارج شیٹ کرتے دکھائی دئیے کہ دوحہ معاہدہ پر عملدرآمد کیونکر ممکن نہیں ہو پا رہا دہشت گرد اپنا کھیل کیوں کھیلتے اور افغان سرزمین کا استعمال کیونکر جاری رکھتے نظر آ رہے ہیں ،اگر افغان طالبان خوارج کے سدباب کی بجائے اس کی تائید و حمایت جاری رکھیں گے تو پھر پاکستان اپنی بقا و سلامتی کیلئے آزاد ہوگا ، پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور نیوکلیئر پاور کی حیثیت سے اپنی سرزمین کو شدت پسند ی اور دہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے وہ ہر ممکن آپشن بروئے کار لائے گا۔پاکستان اس حوالے بڑا کلیئر ہے ،البتہ افغان انتظامیہ کی اب رٹ نظر نہیں آ رہی دیکھنا ہوگاکہ وہ اپنے محسن ملک کے حوالہ سے کیا طرزعمل اختیار کرتی ہے اور کیسے خود کو پاکستان دشمن افغان حکومتوں کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے ۔