"SBA" (space) message & send to 7575

نیا سال, سوال اور شاپر

ایک ہی دن‘ ایک ہی وقت میںپاکستان اور بھارت سو فیصد اکٹھے آزاد ہوئے تھے۔ عوامی جمہوریہ چین‘ آزادی کی عمر میں ہم سے2 سال 2 مہینے چھوٹا ہے‘ اسرائیل بھی ہم سے نومہینے کم عمر ہے۔جرمنی‘ فرانس‘ آسٹریا‘ سپین‘ اٹلی‘ چیکو سلواکیہ اور برطانیہ‘ چین‘ جاپان‘ جنوبی کوریا پر ہماری آزادی کے صرف دو سال پہلے تک مسلسل لاکھوں توپ کے گولے‘ ہزاروں جہازوں کی روزانہ بمباری‘ ہر طرح کے نئے نئے بم‘بارود اور آگ و آہن کی مسلسل بارش برسائی گئی۔ یکم جنوری 2025ء کے روز یعنی کل رات 12بج کرایک منٹ پر پاکستان کی عمر 77 برس 4 ماہ اور 18 دن ہو جائے گی۔ بانیانِ پاکستان نے ری پبلک آف پاکستان کے نا م سے ریاست کوعام آدمی اور غریبوں کی پناہ گاہ کے طور پر بنایا تھا۔بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے تصور میں ایک فلاحی ریاست تھی‘جہاں اکثریتی مسلمان اور دوسری مذہبی اقلیتیں سُکھ کا سانس لے سکیں۔قائداعظم کا تجربہ یہ تھا کہ کہیں ہمیں متحدہ ہندوستان میں بھاری بھرکم عددی طاقت کی غلامی نہ کرنی پڑے۔اسی لیے آزادی کی جدوجہد میں قائداعظم نے نہ تو خاکسار تحریک کی طرح کوئی لشکر قائم کیا‘ نہ ہی برٹش آرمی میں موجود ہندوستانی فوجی افسروں سے پاکستان موومنٹ میں مدد مانگی نہ کبھی کوئی اس طرح کی ڈیمانڈ کی۔ متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن آزاد بھارت کے پہلے سربراہِ ریاست بنے‘بیرسٹر موہن داس کرم چند گاندھی نہ بنے۔ جو مہاتما بھی تھے اور اپنی قوم کی آزادی کی جدوجہد میں حضرتِ قائداعظم جیسا رول ادا کرنے والے راہبر بھی۔
اب چلتے ہیں یکم جنوری کی صبح کی طرف جب آزاد پاکستان میں مظلوم اور محکوم طبقات کے لیے نیا سورج طلوع ہو گا۔ اس طلوعِ شمس کے ساتھ ہی کچھ سوال جو پاکستان کی تاریخ‘جغرافیہ‘ وسائل کی تقسیم اور ابو العصر حفیظ جالندھری کے بقول‘ پاک سرزمین کا نظام‘ قوتِ اخوتِ عوام والی کلی سے پھوٹتے ہیں۔آئیے اُن سوالوں کی طرف جو ہمیں سال 2024ء نے پچھلے عشروں سے لے کر ورثہ میں دیے ہیں۔ پاکستان کے وسائل اور اقتدار دونوں پر قابض طبقات پر بھی نظر ڈالیں۔ یہ حقیقت مت بھولیے گا کہ اسی تناظر میں شاپروں کا کرداربھی ناقابلِ فراموش ہے۔کیونکہ ہم سب کو شاپر بظاہر بڑے کام کی شے نظر آتا ہے۔ شاپر نیلے‘ پیلے رنگ کا ہو تو اُس میں گھر کا سارا گند چھپاکر اُسے برسرِ عام سجایا جا سکتا ہے۔شاپر کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسے بار بار Reuse ہونے کی سہولت بھی حاصل ہے۔اسی لیے شاپروں کی کمی نہیں ہوتی‘ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔قارئین وکالت نامہ‘ دنیا اخبار اور دنیا بھر کے لیے نیا سال آیا اور اپنے دامن میں پاکستان کے لیے سوال ہی سوال بھر کرلایا ہے۔وراثتی سوال اور حقیقی سوال۔
پہلا سوال : پاکستانی کرنسی کی ویلیو افغانستان کے روپے سے بھی کم کیسے ہوئی؟اس سوال کا جواب اُن سے پوچھنا چاہیے جو کنٹینر‘کشتیاں‘ اور سرکاری جہاز بھر کر پاکستان کی دولت پاکستان سے باہر لے جا کر پارک کرتے ہیں۔پھر اسی دولت کے سہارے وہ پاکستان میں طاقت کے شاپر بھرتے ہیں اور پھر غیر منتخب‘ غیر جمہوری اور غیر ملکی طاقتوں سے اقتدار کی بھیک مانگتے ہیں۔اُدھار میں مانگی ہوئی طاقت کے زور پراس ایلیٹ بھکاری مافیا نے پاکستان کو ساری دنیا میں بھکاری بنا کر رکھ دیا۔ جس کی تازہ مثال اس سال مغرب کے کیمروں سے سامنے آئی‘ تب جب پاکستان کے وفد کی پذیرائی ہوئی۔میزبان ملک کے معتبر صحافی نے ہمارے سربراہ ِ وفد سے پوچھا :آپ اتنے مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہر ے ہوئے ہیں‘ اتنی مہنگی گاڑیوں میں بیٹھ کر یہاں پہنچے ہیں۔ اتنا قیمتی برانڈڈ سوٹ پہن کر ہم سے قرض کی بھیک مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ مجھے یقین ہے کہ نئی میڈیائی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پہلے بھی یہ سوال بار بار بھیک منگوں سے پوچھے جاتے ہوں گے۔ اگر پچھلے ساڑھے تین سال پر نظر ڈالیں تو بھکاری مافیا نے عوام پر جتنا غصہ اُتارا اُس کی واحد وجہ عوام کی طرف سے سوال پوچھنا ہے۔سوال کے جواب میں لاٹھی‘ گولی‘ ڈالا‘ ہتھکڑی ایف آئی آر‘ریمانڈ‘غصے اور ہذیان پر وہ اُترآتا ہے جس کے پاس سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ کیا نئے سال میں پاکستانیوں کو پاکستان کے نظام پر سوال اُٹھانے کی اجازت ہو گی؟ دستورِ پاکستان نے توآرٹیکل 19-Aکے ذریعےRight to information کا حق قائداعظم کے پاکستان کے شہریوں کوپہلے دن سے دے رکھا ہے۔
اور یہ ''حق‘‘ کوئی تاریخ کی خیرات نہیں
تیرے اور میرے رفیقوں نے لہو دے دے کر
ظلم کی خاک میں اس حق کا شجر بویا تھا
سا ل ہا سال میں جو برگ و ثمر لایا ہے
دوسرا سوال:کیا جمہوری پاکستان میں جمہورِ پاکستان کو حقِ حکمرانی دیا جائے گا؟ دستور نے اپنی تخلیق وتکمیل 12اپریل 1973ء کے دن Preambleمیں یہ حق شہریوں کوگارنٹی کیاتھا۔پیرا گراف نمبر2میں ان الفاظ کے ساتھAnd whereas it is the will of the people of Pakistan to establish an order۔یعنی پاکستان کے اندر نظامِ حکومت قائم کرنے کے لیے پاکستان کے عوام کو جو حق دیا وہ اسی دستور کے مطابق صرف ''عوام کی مرضی‘‘ کے نیچے ہے۔ الیکشن کروانے والے‘ ووٹ گننے والے‘ فارم 45کو فارم 47میں تبدیل کرنے‘ کروانے والے اور الیکشن کے نتائج کو 'مثبت نتائج‘ بنانے والے کسی طاقتور حلقے کوآئین تسلیم نہیں کرتا۔ مختلف میدانوں کے ماہرین کے تازہ تبصروں کے مطابق پاکستان کے لیے 2023-24ء کے سال ہر اعتبار سے بدترین سال تھے۔ پولیو کا مرض پھر سے لوٹ آیا ہے۔ در انداز اور نان سٹیٹ ایکٹر پھر آدھمکے ہیں۔مزید شہری غربت کی لکیر سے نیچے گرے‘ مہنگائی ساتویں آسمان پر چڑھ گئی۔روزگار بیٹھ گئے‘ محنت کشوں کی قوتِ خرید مر گئی۔انٹرنیٹ کو سیاسی شارک مسلسل کاٹ کاٹ کر کھاگئی۔ ملک کے بہترین ذہن ڈرین ہوگئے۔پاسپورٹ بنانے‘ ڈنکی لگانے کے کاروبار نے زور پکڑا تو صرف اس لیے کہ اچھے کی امید ہوا ہو گئی ہے۔ ملکی ادارے اپنے کام سے زیادہ دوسروں کے کاروبار میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ غریب کا کوئی پرسانِ حال ہے نہ اُس کی طرزِ حکمرانی سے کوئی توقع۔ کیا 2025ء کا سال پاکستان کے لوگوں کو حقِ حکمرانی اور اُن کے وسائل ڈاکوئوں اور لٹیروں سے واپس دلوانے کا سال ہوگا یا کچی آبادی میں اپنے خرچ پر لگائے گئے سولر پینل اُتارنے کا سال آیا ہے؟
پسِ نوشت: گزرتے سال میں پاکستانی بھکاریوں کے عروج کی نئی خبر یہ ہے۔ امریکہ کے دو اہم ترین عہدیداروں L.Morgan اور Richard Grenell نے دستاویزی ثبوت لگا کر یہ حیران کن ٹویٹ کیا کہ جب امریکی شہری محض جینے کی بڑھتی ہوئی قیمت اور افراطِ زر سے سٹرگل کر رہے ہیں‘ ایک پاکستانی NGO نصف ملین یو ایس ڈالر لے اُڑی ہے۔ پراجیکٹ کا نام ہے ''Democratic Values‘‘۔ امریکی مداخلت نامنظور‘ امریکی ڈالروں کے شاپر جی آیاں نوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں