بات ہو رہی تھی لوگوں تک انفارمیشن کی رسائی کو ممکن بنانے کے خلاف قانون سازی کے نام پر پیکا کا زہریلا ٹیکہ ایجاد کرنے کی۔ اگلے روز اسلام آباد کے کچھ ہیوی ویٹ حضرات کے Think Tank میں گفتگو کے لیے بلایا گیا۔ ہم سب جانتے ہیں آج جہاں ہم پہنچ چکے ہیں اس منزلِ بے مراد اور ہمیں یہاں تک دھکیل کر لانے کے ذمہ دار‘ گلے سڑے نظام کے منیجرز اور بینی فشریز کو چھوڑ کر قوم کا ہر فرد پریشان ہے۔ میرے میزبان بھی ایسی ہی پریشانی کی کیفیت میں نظر آئے۔ سب سے اہم سوال وہی پوچھا گیا جو آج کل ہر شخص گلی محلے سے راج دربار تک پوچھتا پھر رہا ہے۔ مگر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے رنگیلے سوال اُٹھانے والے کی زبان کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ سوال یہ تھا: کیا پاکستان کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ باقی رہ گیا ہے؟ کیا ہم کسی طور سکیورٹی سٹیٹ سے ویلفیئر سٹیٹ کی طرف آ سکتے ہیں؟ میرا جواب تھا: میری نظر میں ہمارے ''خود ساختہ راہبر‘‘ اور قومی وسائل پر قابض منیجرز کو وبا کا جوڑا دیمک کی طرح چاٹ گیا ہے۔ ان میں سے پہلی وبا کو تاریخِ عالم میں Refused to Learn کا نام دیا گیا۔ ہمارے فیصلہ ساز اور منیجرز تاریخ کے تھپڑ اور جغرافیے کے تھپیڑے کھانے کے باوجود بھی سبق سیکھنے سے انکاری ہیں۔ دوسری وبا کو Self Denial کہتے ہیں۔ یعنی یہ ماننے سے انکار کہ ملک کو کوئی مسئلہ درپیش ہے۔ یہ ماننے سے انکار کہ ملک میں ترقی کے سارے راستے بند ہو گئے۔ یہ ماننے سے انکار کہ اب کھجور اور خیمے والے برادرانِ اسلام سمیت مڈل ایسٹ کا کوئی ملک پاکستان کو ''خبز‘‘ کھانے کے لیے ایک دھیلا دینے کو بھی تیار نہیں۔ یہ ماننے سے انکار کہ ہر طبقے میں بے چینی‘ مہنگائی ‘ اداروں کی بے لگامی اوربے توقیری کا سامنا ہے۔ جب تک ہم نیلسن منڈیلا کا ماڈل آف Truth and Reconciliation نہیں اپنائیں گے‘ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ غلطیوں کا اعتراف کرنا کافی نہیں رہا‘ قوم کے خلاف جرائم کی تفتیش بھی کرنا ہو گی۔ آپ کل نیک نیتی اور کھلے دل سے یہ کام کر لیں‘ استحکام بھی آئے گا اور قوم میں اعتماد بھی پیدا ہو گا۔ ورنہ قوم سمجھتی ہے کہ اُن کے خلاف اُن کے اپنے اداروں نے اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ سیاست سے معیشت تک اور معاشرت سے زراعت تک‘ ہر جگہ اور ہر شعبے میں۔ وہ وقت ہمارے سر چڑھ آیا جب قوم ریاست سے نیا عمرانی معاہدہ اور نئی شرائط پر دستور مانگے گی۔
لکھو کہ تابعِ شاہی نہیں مزاجِ عوام
شکست کھا کہ رہے گی چراغ سے ہر شام
اُوپر درج دونوں وبائوں کی ماں بلکہ نانی‘ دھاندلی زدہ الیکشن اور فرضی حکومتیں بنانے کی حیلہ سازی ہے۔ اسی لیے خوشامد سے ملنے والے اقتدار کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔
نواز شریف کے بنائے 2016ء کا پیکا کا زہریلا ٹیکہ‘ باجوہ ڈاکٹرائن کے ہاتھ آیا۔ تب پی ٹی آئی کے تین وفاقی وزرا اور باجوہ کا ایک نمائندہ کابینہ کو پیکا میں ترمیم کے فضائل پر بریف کرنے آیا۔ میٹنگ شروع ہوئی تو ماحول یہ تھاکہ قانون متفقہ پاس کیا جائے۔ وہ تینوں وزیر جو رجیم چینج کے بعد پہلی فرصت میں عمران خان کو چھوڑ کر بھاگے‘ ایک ایک نشست پر جاکرکابینہ ارکان کو سمجھا رہے تھے۔ یہ باجوہ صاحب کا ذاتی کام ہے‘ اس پہ اعتراض نہ کرنا بہتر ہو گا۔ کیبنٹ میٹنگ شروع ہوئی تو میں نے بات کرنے کے لیے مائیک کا بٹن دبایا‘ عمران خان نے کہا: بتائیں بابر! آپ نے کیا کہنا ہے۔ میں نے پیکا میں مجوزہ ترامیم پر بولنا شروع کیا اور اُس کے آئینی نقائص ایک ایک کر کے گنوانے لگا۔ اس پہ تینوں وزرا تلملا اُٹھے مگر کابینہ کے اکثریتی ارکان نے کہا: وزیرپارلیمانی امور کو تفصیل سے سنا جائے۔ رزلٹ یہ ہوا تینوں وزیر کابینہ سے قانون سازی کے بجائے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے۔ یہ 2022ء کا سال تھا‘ جب پیکا قانون میں پچھلے دروازے سے ایک ناپسندیدہ ترمیم زبردستی گھسائی گئی۔ موجودہ حکومت میں موجود اُس دور کی اپوزیشن کے چار نمایاں اہلکاروں کے بیانات یہ تھے۔
پہلا‘ شہباز شریف: ڈریکونین پیکا آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دلوانے پر صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو مبارک باد دیتا ہوں۔ آرکائیو نکال کر دیکھ لیں‘ شہباز شریف کا یہ بیان 9 اپریل 2022ء کی شہ سرخیوں اور ٹکرز میں موجود ہے۔ اس سے پہلے کے تین عدد بیانات اس طرح سے ہیں۔
20 فروری 2022ء کو مریم نواز نے بیان جاری کیا: پھر نہ کہنا کہ بتایا نہیں۔ 21 فروری2022ء کو شہباز شریف کا بیان ان لفظوں میں جاری ہوا: مین سٹریم میڈیا پر پابندیاں لگانے کے بعد اب یہ سوشل میڈیا کا منہ بند کرنے کے لیے نکل پڑے ہیں۔ 23 فروری 2022ء کو ایک موجودہ خاتون صوبائی وزیر اور ایک وفاقی وزیر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا آرڈیننس کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔
وہی پیکا جو پچھلی حکومت میں کلنک کا ٹیکہ تھا‘ آج شہباز حکومت نے ماتھے کا ٹیکا سمجھ کر سجا لیا۔ شغلِ ستم یہ ہوا‘ اسی شہبازی دور میں پاکستان کی تیسری بڑی فیک نیوز سامنے آئی ہے‘ جینٹری بیچ (Gentry Beach) سکینڈل۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بڑی فیک نیوز 1960ء کے عشرے میں زُہرہ فونا نامی انڈونیشین خاتون کے دورے سے برآمد ہوئی۔ زہرہ فونا کو سرکاری پروٹوکول دیا گیا۔ خبر چلوائی گئی کہ زُہرہ فونا کے بطن میں ایسا بھاگوان بچہ ہے جو شکمِ مادر سے گفتگو کر رہا ہے۔ دوسری فیک نیوز راولپنڈی کے ایک سکول ٹیچر‘ تلہ گنگ کے صحافی‘ لاہور سے ہفت روزہ چھاپنے والے پریس کے مالک‘ امریکہ میں مفرور پاکستانی سفیر نے مل کر بنائی تھی۔ بینظیر بھٹو کا چہرہ اور کسی مغربی ماڈل کا جسم لگا کر برہنہ تصویریں اسلامی جمہوریہ میں پھیلانے کے لیے ہوائی جہاز چارٹر کیے گئے۔ تازہ فیک نیوز یہ چلائی گئی کہ یو ایس حکومت نے ارب پتی انویسٹروں کا گروپ پاکستان بھیجا۔ میڈیا پر اس طرح کی پبلسٹی ہوئی: پاکستان پر امریکہ مہربان‘ کھربوں ڈالرز کے دروازے کھول دیے۔ اس کے نتیجے میں اسلام آباد میں یو ایس ایمبیسی کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا: امریکی حکومت کا کوئی سرکاری وفد پاکستان نہیں آیا۔
مسٹر جینٹری بیچ جسے ارب پتی بنا کر پیش کیا گیا اور اُس نے شہباز حکومت کی عوام دوستی کے گُن گائے‘ اس کا اصل کام یوٹیلیٹی ٹرک کرائے پر دینا ہے۔ فیک نیوز کے لیے مشہور ایک میڈیا گروپ نے اُسے ارب پتی بنایا تو تحقیقاتی رپورٹر اُس کا اصل چہرہ سامنے لے آئے‘ جس کے مطابق امریکہ کی ''756 Billionaire in USD‘‘ لست میں جینٹری بیچ کا نام تک شامل نہیں۔ اُس کی کمپنی ہائی گرائونڈ ہولڈنگز کا گوگل پر ریویو صفر ہے۔ یہ کمپنی امریکہ کی ٹاپ ایک ہزار کمپنیوں میں بھی موجود نہیں۔ جینٹری کے یوٹیوب سبسکرائبرز 11 ہیں‘ اپلوڈڈ وڈیوز 12‘ جن کو صرف 997 لوگوں نے دیکھا ہے۔
صحافت میں کثافت پھیلانے والے اتالیق کہتے ہیں: سوشل میڈیاکو مار ڈالو۔ پیکا کا زہریلا ٹیکہ لگانے دو۔ ایف آئی سے سے کہنا یہ تھا کہ زُہرا فونا اور بینظیر بھٹو کے کیس چھوڑ دو‘ نئے سال کی سب سے بڑی فیک نیوز جینٹری بیچ پر تو پیکا کا قانون لگا کر دکھائو۔ (ختم)