"SBA" (space) message & send to 7575

پیکا ایکٹ ‘پریس اور آزادیٔ اظہار کے لیے قاتل ٹیکہ …(1)

لو جی! آگئی جے‘ اک نئی پابندی لا گئی جے‘ حکومت چھا گئی جے‘ بولن دی آزادی کھا گئی جے۔ میڈیا دا گلا دبا گئی جے۔
میری یادداشت کے مطابق پہلی بار وفاقی پارلیمنٹ کے عین سامنے اسلام آباد کی سیاسی پولیس نے میڈیا پرسنز‘ پریس کلب عہدیداروں‘ صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں کے رہنمائوں پر دھاوا بولا۔ اُن سے ہاتھا پائی کی‘ دھکے مارے‘ اسلام آباد کی پولیس پُرامن‘ خالی ہاتھ یہ ایونٹ کَور کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے اُن کے پیچھے دوڑتی رہی‘ جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے اردگرد ریزر وائر کی حفاظتی تار سے کچھ صحافیوں کو زخم آئے۔ آزادیٔ صحافت پر یہ حملہ عین اُسی جگہ ہوا جہاں 26 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے پُرامن نوجوانوں پر گھپ اندھیرے میں بے رحمانہ طاقت کا اندھا دھند استعمال ہوا تھا۔ ایک بھرپور احتجاج کے ذریعے کئی سالوں بعد‘ پچھلے 24 گھنٹے میں خیبر سے کراچی تک‘ پورے پاکستان کے صحافی بیک آواز پیکا ایکٹ کا قاتل ٹیکہ مسترد کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اخباری تنظیمیں‘ پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (PBA)‘ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (CPNE) اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS) نے بھی میڈیا پر اس سرجیکل سڑائیک کو سرے سے مسترد کر دیا ہے۔
مگر ذرا ٹھہریے! پہلے دستورِ پاکستان کی طرف چلتے ہیں۔ جہاں متحدہ پاکستان میں ون مین ون ووٹ کے جمہوری اصول تلے اوّلین فیئر‘ فری‘ ٹرانسپیرنٹ الیکشن سے جو پارلیمنٹ منتخب ہوئی اُس کی مغربی شاخ یعنی موجودہ پاکستان میں 12اپریل 1973ء کے روز پاکستان کے شہریوں کو 'سب دی ماں‘ ریاست نے آرٹیکل نمبر 19 کے ذریعے کچھ آزادیاں بطور گارنٹی دی تھیں‘ ان میں سے پہلی آزادی کے لیے غیر مبہم الفاظ استعمال کیے گئے:
Every citizen shall have the right to freedom of speech and expression.........
یعنی ہر شہری کو آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ تحریر وتقریر کا دستوری حق حاصل ہو گا۔ پاکستان کے 25کروڑ لوگوں کی اس دستوری گارنٹی میں fundamental right کے الفاظ بڑے سیدھے سادے ہیں۔ ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ریاست یا اُس کا کوئی ادارہ یا کوئی ملازم شہریوں کو نہ اپنی مرضی سے لکھنے کو روک سکے گا نہ بول کر آزادانہ رائے دینے سے اور نہ ہی شہریوں کی جانب سے کسی اور ذریعے سے اپنی رائے کی آزادی کا حق استعمال کرنے کا راستہ روکے گا۔ آئین کے اسی آرٹیکل نمبر 19 میں Freedom of Press کے لیے علیحدہ سے شق تخلیق کی گئی کیونکہ شہریوں کے آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ رائے کے بعد آئین کے اگلے الفاظ میں لفظ and یوں استعمال کیا گیا:
And there shall be freedom of the press
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں میڈیاکی آزادی آئین سازوں کو کس قدر عزیز تھی۔ 1974ء سے لے کر آج تک دستورِ پاکستان میں 26 ترامیم داخل کی جا چکی ہیں۔ یہ الگ بات ہے‘ میجر جنرل اسکندر مرزا‘ جنرل ایوب خان‘ جنرل آغا یحییٰ خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کے غیر قانونی‘ ماورائے آئین اقدامات اور مارشل لائوں کو اسی آئین میں تحفظ بھی دیا گیا‘ جس کا بہانہ بنا کر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ان سارے ماورائے دستور اور آئین شکن اقدامات کو عدل کا چوغہ ڈال کر ہمیشہ چھپایا ہے۔ پھر ان مارشل لائوں کے پالے ہوئے بالکے -60 1950ء کے عشرے سے 2025ء تک کبھی مُلا ملٹری الائنس‘ کبھی قومی مفاد اور کبھی قومی اتحاد کی شکل میں مسندِ اقتدار پر بار بار لا بٹھائے گئے۔ عوام ووٹ کہیں اور ڈالتے رہے لیکن نتیجہ ہارے ہوئے جواریوں کے حق میں نکالا گیا۔ جس کی انتہا دنیاکو فروری 2024ء میں دیکھنے کو ملی۔ چونکہ آزادیٔ صحافت پر بہیمانہ حملے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ رجیم ملک کے عوام‘ آزاد میڈیا یا قومی صحافت کے سامنے سرے سے جوابدہ ہے ہی نہیں لہٰذا اس غیر نمائندہ نظام نے اپنے پالتو ڈھولچی رکھ لیے ہیں۔ آپ صرف ایک رپورٹ شدہ حقیقت سے موجودہ نظام کی ذہنیت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں جس کے مطابق قوم کے پیسے اور سرکاری خزانے پر پلنے والے واحد ٹی وی ادارے میں ایک سو کے قریب ایسے لوگ بھاری تنخواہوں اور مراعات پر بھرتی کیے گئے جن کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے طے شدہ اصولوں کے تحت نہ بھرتی کا کوئی اشتہار جاری ہوا اور نہ ہی مقابلے کا کوئی امتحان منعقد ہوا‘ بلکہ پچھلے دروازے سے جتنا بڑا خوشامدی آیا‘ اتنی بڑی تنخواہ کے اصول کے تحت خود فروش جمع کر لیے گئے۔ اسی ذہنیت نے آزادیٔ صحافت کو جان سے مارنے کے لیے پیکا کا قاتل ٹیکہ ایجاد کیا ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی سے بلڈوز کر کے سینیٹ سے ڈبل ڈوس کیا جانے والا پیکا کا قاتل ٹیکہ ترمیمی بِل میرے سامنے ہے۔ آئیے اس کے کچھ زہریلے حصے دیکھ لیں:
پیکا کا پہلا زہریلا ٹیکہ: سال 2016ء میں نواز شریف حکومت کے بنائے ہوئے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ میں پھر سے عہدِ شریف میں ایک ترمیم مجریہ 2025ء کی دفعہ دو کی ذیلی دفعہA(III) میں لفظ aspersion یعنی نقصان رساں تنقید کو ان لفظوں میں جرم بنا دیا گیا: Means spreading false and harmful information
ساری دنیا کے قوانین میں صرف Fake News کو قابلِ گرفت سمجھا جاتا ہے‘ یہاں ہر تنقید زبردستی بٹھائے گئے حکمرانوں کے لیے نقصان رساں بنتی جا رہی ہے۔ اس لیے جس صحافی نے کسی سرکاری‘ درباری عہدیدار یا ادارے کی کارکردگی کے بارے میں آزادانہ رائے دی وہ پیکا قانون کے مطابق مجرم ٹھہرا۔
پیکا کا دوسرا زہریلا ٹیکہ: تازہ پیکا قانون کے باب نمبر 1A میں ایک اتھارٹی بن گئی ہے جس کا واحد کام ایسے رپورٹروں کی خبریں‘ جنہیں اُس کے خیال میں نقصان رساں تنقید یا فیک نیوز سمجھا جائے گا‘ اُن پر جرمانے کرنا ہے۔ یہ جرمانے صحافیوں کے ساتھ ساتھ متعلقہ میڈیا اداروں پر بھی کیے جائیں گے۔ پیکا ایکٹ کے Chapter 1C سیکشن 2V کے تحت اینٹی صحافت‘ خصوصی ٹریبونل یعنی متوازی عدالتی نظام بنایا گیا ہے جس میں وفاقی حکومت اپنی مرضی کے بندے جج بٹھائے گی۔ سیکشن 26A کا عنوان ظاہر کرتا ہے‘ پیکا کا زہریلا ٹیکہ کس کے لیے تیار ہوا؟ اس سیکشن کا ٹائٹل یہ ہے:
Punishment for false and fake information
وفاقی حکومت کے ٹریبونل کے خیال میں جو خبر یا نشریہ غلط یا فیک سمجھا جائے اُس پر صحافیوں‘ رپورٹروں اور صحافتی اداروں کے ارکان کو قید اور جرمانے کی سزادی جا ئے گی۔ کتنی قید اور کتنا جرمانہ یا دونوں؟ ...(جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں