"SBA" (space) message & send to 7575

14 سال قید‘ 2 کروڑ جرمانہ‘ 21 سال نااہلی

آج کے وکالت نامے کا ٹائٹل اُس دن کی اخباری سُرخی ہے جب نواز شریف کو کرپشن کے الزام میں 14 سال قید بامشقت‘ 2 کروڑ جرمانہ‘ 21 سال نااہلی کی سزائیں سنائی گئیں۔ ہمراہی ملزم سینیٹر سیف الرحمن بری ہو گیا۔ سزا کے دوران ہی شاہی سواری آن پہنچی‘ غیر ملکی آقا حرکت میں آئے؛ چنانچہ رُول آف لاء اور آئین کی عملداری کا راگ الاپنے والا نظام منہ دیکھتا رہ گیا اور میاں صاحب کو ہوائی جہاز سمندر پار لے گیا۔
دو دن پہلے‘ ہفتے کے روز جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان کا ٹرائل تھا۔ اس موقع پر اڈیالہ جیل کے اندر عمران خان سے تفصیلی گپ شپ ہوئی۔ ملکی حالات‘ قوم کو درپیش مشکلات‘ سیاسی معاملات‘ بلوچستان اور کے پی میں بدامنی کے واقعات اور عالمی دنیا کے تازہ رجحانات گفتگوکا موضوع تھے۔ ہشاش بشاش قیدی نمبر 804 گرے رنگ کے ٹریک سوٹ اور جوگرز میں ملبوس‘ قبائلی علاقے کے پشتونوں والی گرم ٹوپی سر کے پچھلی جانب لٹکائے حوصلے کی ایسی چٹان کی طرح نظر آ رہا تھا جس سے ٹکرانے والا ہر طوفان حیران کم اور پشیمان زیادہ ہو رہا ہے۔ گزرے جمعہ کو اڈیالہ جیل سے دو بریکنگ خبریں پرائیویٹ ٹی وی چینل پر چلیں۔ پہلی خبر تھی: ''عمران خان القادر ٹرسٹ کیس سے بری‘‘۔ دوسری لائن میں کہا گیا‘ قیدی نمبر 804 کے لیے غیر متوقع فیصلہ سامنے آ گیا۔ اس خبر کے تقریباً گیارہ منٹ بعد ایک معلوم سرکاری شخصیت کے نامعلوم ٹویٹر اکائونٹ پر القادر ٹرسٹ کیس کے عدالتی فیصلے میں سے چار منتخب صفحے نکال کر اَپ لوڈ کر دیے گئے۔ ساتھ ہی عمران خان اور بشریٰ عمران خان کو دی جانے والی سزائوں کی بریکنگ نیوز چلنے لگی۔ تب تک کسی صحافی کے پاس القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی کاپی موجود نہیں تھی۔
یہ متضاد خبریں اور مشکوک فیصلہ دیکھ کر میرے ذہن میں سال 1997-98ء کا دریچہ کھل گیا۔ اُس وقت کی اپوزیشن لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف کٹر (ن) لیگی خاندان کے ایک لاہوری جج ملک قیوم ڈویژن بنچ کی سربراہی کر رہے تھے۔ شہید بی بی کا وکیلِ صفائی میں تھا جبکہ آصف علی زرداری کی طرف سے مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ اور فاروق نائیک دفاعی وکیل تھے۔ عدالتی وقفے کے بعد بنچ لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی کی عدالت میں براجمان ہوا۔ ملک قیوم کے ہاتھ میںٹائپ شدہ فیصلہ تھا جبکہ ڈویژن بنچ کے ہمراہی جج جسٹس کاظمی خالی ہاتھ ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گئے۔ ملک قیوم نے چند سیکنڈ کے اندر اندر بی بی کو سزا سنائی اور پھر برق رفتاری سے واپس چیمبر میں گھس گئے۔ حالانکہ کرمنل ٹرائل کے طے شدہ قانون ضابطہ فوجداری کی دفعہ 269 کہتی ہے:
جس ملزم کو سزا سنانی مقصود ہو‘ اُس کے سامنے جج عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر اوپن کورٹ میں پورا فیصلہ اُسے پڑھ کر سنائے گا۔ اسی دفعہ کی ذیلی شق نمبر 3 کی رُو سے سزا سنانے والے فیصلے کی کاپی سب سے پہلے فیصلہ سنانے کے بعد ملزم کے حوالے کی جائے گی مگر جہاں کینگرو کورٹ بیٹھے وہاں جالب کا کہا لاگو ہوتا ہے‘ قانونی ضابطوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی جانی مانی حقیقت ہے‘ سزا صرف قیدی کو نہیں ہوتی۔ شاعرِ عوام حبیب جالب جب مارشل لاء کے قیدی بنے تو اُنہوں نے سزا دینے والے منصف کی شکل دیکھ کر اس حقیقت کا ثبوت یوں لکھ چھوڑا تھا:
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں‘ ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا تھا ان کے چہرے پر ہمیں جو فیصلہ دیں گے
بینظیر بھٹو کے مقدمے میں کینگرو کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد BBC کو انٹرویو دیتے ہوئے میں نے جالب کا یہی شعر پڑھا‘ جو اگلے دن کے اخبارات میں ہیڈلائن بن گیا۔
اتوار کی صبح میں بیرسٹر عثمان اور بیرسٹر عبداللہ کے ہمراہ اپنے عزیز دوست حاجی نذیر کے بھائی کی وفات پر فاتحہ خوانی کے لیے شہرِ اقتدار سے جی ٹی روڈ کے لیے نکلا۔ دینہ سے پہلے ترکّی کی پہاڑیاں دیکھ کردھیان ٹلہ جوگیاں کی طرف چلا گیا جہاں محمود غزنوی نے کشمیر کے علاقے کوٹلی کے ایک معرکے میں ہزیمت اُٹھانے کے بعد روپوشی کی حالت میں جوگی کے حُلیے میں پناہ لی تھی جبکہ رانجھے نے کشت کاٹنے کے بعد ٹلے کے جوگیوں سے اپنے کان چِھدوا کر دنیا کو تَج دیا تھا۔ لیہڑی کے پل پر پہنچے تو قیدی نمبر 804 کے جنونِ علم کی خوشبو نے گھیر لیا۔ ضمیر کے اس قیدی نے خطۂ پوٹھوہار کی ویران اور کٹائو والی زمین کے سینے میں معروف صوفی بزرگ شیخ سید عبد القادر جیلانی کے نام پر القادر یونیورسٹی کا شہرِ علم بسا کر دکھا دیا۔ پُل کراس کرتے ہی جی ٹی روڈ کے بائیں جانب ایک بغلی سڑک مڑتی ہے‘ جس کی دونوں جانب چیڑ کے نوجوان پودے سلیقے سے لگائے گئے ہیں۔ یہاں سے تقریباً آٹھ‘ نو سو فٹ گہرائی میں اونچی نیچی گھاٹیوں کے عین درمیان ٹیرس سیدھے کر کے عمران خان نے اپنی نگرانی میں القادر یونیورسٹی کی تعمیر مکمل کروائی تھی۔ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم طالب علموں اور عملے نے رہنمائی کی اور ہم القادر مین آڈیٹوریم کے دروازے تک پیدل گئے‘ جہاں سے تقریباً 150 فٹ اوپر‘ لائن میں عمران خان کے ہاتھ کے لگائے ہوئے 10 پودے کھڑے ہیں‘ جن کے سائے میں یونیورسٹی کا افتتاحی پتھر نسب ہے۔ یہاں موجود طالب علموں سے گفتگو کی اور اُن کے آبائی علاقوں کی بابت دریافت کیا۔ کچھ طالب علم عصری علوم پڑھتے ہیں‘ جبکہ یونیورسٹی کا ابتدائی اور اہم ترین شعبہ سیرتِ سرورِ دوعالم حضرت محمدﷺ اور قرآنی تعلیمات پر اسلامک سٹڈیز میںBS ڈگری کی تعلیم دیتا ہے۔ القادر یونیورسٹی کا کیمپس سادگی میں خوبصورتی کا لینڈ مارک ہے۔
اب کچھ ذکر بغضِ عمران میں یونیورسٹی بنانے کا کیس‘ جس پہ دنیا بھر میں تنقید ہو رہی ہے۔ ہم 25 کروڑ پاکستانی جانتے ہیں کہ دربار کے حامی اینکرز اور ٹویٹر سٹار اب جاری ہونے والا عدالتی فیصلہ پچھلے چار ہفتوں سے مسلسل سناتے آ رہے تھے۔ ظاہر ہے عدالتی فیصلہ آنے سے پہلے فیصلہ وہ سنا سکتا ہے جس نے فیصلہ پڑھا ہو۔ جن خواتین وحضرات نے کینگرو کورٹ سے پہلے یہ فیصلہ سنایا اُن میں سے کئی ایک نے ٹویٹر اکائونٹ سے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اُنہوں نے فیصلہ پڑھا ہے اور اس دفعہ مضبوط ججمنٹ آئے گی۔ ساتھ ہی فیصلہ لکھنے کا ایک دعویدار لاء آفیسر اسلام آباد ہائیکورٹ بار میں بیٹھ کر دعویٰ کرتا رہا کہ عمران خان کے خلاف آنے والا فیصلہ اُس کا بقلم خود ہے‘ جس کے عوض فارم 47 حکومت نے اپنی طرف سے اُس کا نام اسلام آباد ہائیکورٹ میں جج شپ کے لیے بھجوایا ہے مگرجوڈیشل کمیشن نے اُسے جج نہ بنایا۔ یاد آیا کمیشن ممبران کی طرف سے نامزد کردہ 21 امیدواروں کی فہرست سوشل میڈیا پر آپ پڑھ سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں