غزہ میں حماس نے تاریخ کا دھارا بدلنے کے لیے پچھلے ڈیڑھ سال میں عین اُسی طرح اپنے سینے ٹینکوں کے لیے پیش کیے جیسے 1965ء کی محض 17 روزہ لڑائی میں چونڈہ میں ہمارے جوانوں نے بھارت کی ٹینک یلغار کو روکنے کے لیے‘ جان دینے کو ترجیح دی۔ اگر بھارتی ٹینک چونڈہ میں سینے پر نہ روکے جاتے تو 1965ء کے بعد اس خطے کا یہ جغرافیائی نقشہ برقرار نہ رہتا۔ پوٹھوہاری زبان کا مقولہ ہے: پڑوسی کے مرنے سے آپ کو جنت نہیں مل سکتی۔ منو بھائی جن کی ابتدائی تعلیم وپرورش پوٹھوہار میں ہوئی‘ اُنہوں نے جینے کے اس مجاہدانہ ڈھنگ کو پنجابی کے ان لفظوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امرکر دیا:
کیہ ہویا اے؟ کُجھ نئیں ہویا
کیہ ہووے گا؟ کجھ نئیں ہونڑاں
جو تُوں چاہنا ایں‘ او نئیں ہونڑاں
ہو نئیں جاندا‘ کرنا پیندا اے
عشق سمندر تَرنا پیندا اے
سُکھ لئی دکھ وی جَرنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون دے لئی مرنا پیندا اے
واپس چلتے ہیں اسرائیلی بیانیے کی طرف۔
اسرائیلی بیانیے کا دوسراحصہ ہے Unbeatable State: جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تب غزہ کے آگ‘ بارود اور خون میں ڈوبے ہوئے علاقوں راملہ سٹی اور خان یونس کیمپ میں اسرائیل کی قید سے 200 فلسطینی قیدی‘ 4 اسرائیلی جنگی قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہو کر پہنچے ہیں۔ یہ قیدی غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے باوردی نوجوانوں نے اسرائیلی حکام کے حوالے کرنے کے لیے Red Cross کی گاڑیوں میں بٹھائے۔ اس موقع پر فلسطین کی آزادی کے حق میں غزہ کے اجڑے ہوئے ہزاروں باسیوں نے فلک شگاف نعرے لگائے‘ بلکہ ساتھ ساتھ مزاحمت جاری رکھنے کے لیے علامتی طور پر ہوائی فائرنگ بھی جاری رہی۔
حماس کی طرف سے طویل جنگ لڑنے کے لیے بنائی گئی سٹرٹیجی کے تازہ مظاہر دیکھ کر اسرائیل میں لوگ شدید صدمے سے دوچار ہوئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ غزہ پر حملے کے آغاز میں اسرائیلی حکومت اور فوج نے غزہ پر جہازوں کے ذریعے وارننگ کے پمفلٹ اور اشتہار گرائے جس میںفلسطینی شہریوں کو 15 دن کے اندر اندر غزہ خالی کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ حالیہ حماس اسرائیل جنگ 7 اکتوبر 2023ء کو شروع ہوئی تھی۔ تب سے اب تک دو‘ دو ہزار پائونڈ وزنی ہزاروں میٹرک ٹن بم غزہ کی سویلین آبادی‘ بچوں کے سکولوں‘ زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسپتالوں اور اقوامِ متحدہ کے ریلیف دفاتر اور امدادی مراکز پہ گرائے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود غزہ میں جنگ بندی کے ساتھ ہی مجاہدین نے جدید اور نئے ماڈل کی گاڑیوں کا پبلک مظاہرہ کیا اور بڑی بڑی بلڈوزر مشینیں بھی ظاہر ہونا شروع ہوئیں‘ جن کے بارے میں اسرائیل کو پتا نہ چل سکا کہ یہ مشینیں کہاں پارک کی گئی ہیں۔ اس تناظر میں اسرائیلی مین سٹریم اور سوشل میڈیا بڑی شدومد سے یہ سوال اُٹھا رہا ہے کہ سال 2025ء ماڈل کی نئی نویلی گاڑیاں غزہ کی پٹی میں کہاں سے آن پہنچی ہیں؟ اسرائیلی اس بات پر نکتہ چین ہیں کہ حکومت کا دعویٰ تھا ہم نے پچھلے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک غزہ کی پٹی کو زمینی‘ بحری اور فضائی محاصرے میں لے رکھا ہے۔ کچھ اسرائیلی پریس رپورٹس کے مطابق‘ پرائم منسٹر نیتن یاہو کی اپوزیشن یہ سوال بھی اُٹھا رہی ہے‘ اسرائیلی حکومت نے غزہ پر جنگ مسلط کرتے وقت وعدہ کیا تھا‘ یہ لڑائی بڑی آسان اور انتہائی مختصر ہو گی لیکن نہ نیتن یاہو غزہ کی جنگ کو مختصر کرنے میں کامیاب ہوا نہ ہی یہ جنگ اسرائیل کے لیے آسان ثابت ہو سکی ہے۔ اسرائیلی فوج کے کچھ سابق اعلیٰ افسر اسرائیلی میڈیا میں یہ بات کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے جنگ کے آغاز سے ہی بڑی بلڈوزر مشینوں کو تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کا عندیہ دیا تھا۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگ بندی کے ابتدائی گھنٹوں میں درجنوں مشینوں کا نمودار ہونا اس بات کاکھلا اشارہ دیتا ہے کہ زمین کے نیچے ایک نہیں‘ تین غزہ موجودہ ہیں۔ کیونکہ ایک بڑی بلڈوزر مشین کو کسی سرنگ میں چھپایا نہیں جا سکتا۔ اسرائیل کے اندر جاری اس طرح کے غیر معمولی مباحث سے ثابت ہو گیا کہ اسرائیل کے لوگ اب اپنی فوج اور ریاست کو ناقابلِ تسخیر ہرگز نہیں سمجھتے۔ غزہ جنگ کے دوسری جانب یہ بھی ثابت ہوا ہے‘ غزہ میں حماس اور مڈل ایسٹ میں حماس کے حامی اور قبلہ اوّل کی آزادی کے کاز کے لیے لڑنے والے ناقابلِ فتح ہیں۔
اسرائیلی بیانیے کا تیسراحصہ ہے Unconditional Public Support: غزہ میں لڑنے والے حماس کے مجاہدوں نے اسرائیل کا عشروں پرانا یہ بھرم بھی توڑ ڈالا کہ اُسے عالمی اداروں‘ مغرب کی Inteligencia اور بین الاقوامی رائے عامہ کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔ اس میدان میں حماس کی فتح اور اسرائیل کی شکست کے چند ثبوتوں میں سے پہلا ثبوت‘ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی طرف سے تاریخ میں پہلی بار اسرائیلی وزیراعظم کی گرفتاری کے لیے وارنٹ گرفتاری کا جاری ہونا ہے۔ ICC نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ نیتن یاہو غزہ کی فلسطینی سویلین آبادی کے خلاف جنگی جرائم کا ملزم ہے اس لیے اُسے حراست میں لے کر عالمی عدالتِ انصاف میں پیش کیا جائے تاکہ اُ س کے خلاف Genocide کا مقدمہ چلایا جا سکے۔ دوسرا ثبوت‘ سارے مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں غزہ کی حمایت میں پہلی بار سٹوڈنٹس کے احتجاجی کیمپ کا لگنا ہے۔ پھر تمام بڑے مغربی ملکوں کے شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں ملین مارچ کے ذریعے ''پرو غزہ‘‘ مظاہروں میں مغربی شہریوں کا بار بار باہر نکلنا۔ UNO اور دوحہ گروپ کے ملکوں کی طرف سے حماس کی اتھارٹی کو تسلیم کر کے اسرائیل اور غزہ میں برابری کی سطح پر دونوں جانب کے جنگی قیدیوں کا معاہدہ کروانا۔ اس مرحلے پر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ حماس کے لیے اسرائیل دنیا بھر میں Terrorist گروپ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اُسی گروپ کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے بینر تلے اسرائیلی حکومت کا معاہدہ اس بات کا اعلان ہے کہ غزہ کے مجاہدوں‘ غازیوں‘ شہدا‘ عورتوں‘ بچوں‘ صحافیوں اور بزرگوں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جا سکتیں۔
قدیم عرب کہاوت ہے: ایک نسل کی جہالت‘ دوسری نسل کی روایت پھر تیسری نسل کا عقیدہ بن جاتی ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا: اگر جہالت نہ ہوتی تو پجاری بھوکے مرتے اور ظالم زوال پذیر ہوکر فنا ہو جاتے۔ (ختم)