"SBA" (space) message & send to 7575

نواز دو سے جہاز دو تک

یہ تو طے ہے کہ مطالبہ عوام سے نہیں کیا گیا‘ نہ ہی ووٹروں سے۔ دونوں بار نواز شریف کے مخاطب معلوم ہیں‘ نامعلوم نہیں۔ 2024ء کے الیکشن میں پولنگ کا وقت شام پانچ بجے ختم ہو چکا تھا۔ ضیا دور کے ماہرینِ انتخابات‘ جو تب آئی جے آئی کے ذریعے ترقی کرتے کرتے وزیر‘ مشیر بن چکے تھے‘ انہیں خیال آیا کہ اتحادی حکومت سے بچنا ہو گا تا کہ ہم نوالہ اور ہم پیالہ حلقے کھنڈ کھائیں اور وَنڈ کھائیں۔ پولنگ کی رات ایک ہی راستہ باقی بچا تھا‘ وہ تھا جاتی امرا کی بالکونی والا۔ چنانچہ (ن) لیگ کی میڈیا ٹیم نے نیچے اپنے پسندیدہ کیمرے فٹ کرائے اور راج محل میں اوپر کے فلور پر پہلے سے طے شدہ آنے والی حکومت کے وزیراعظم کو لائٹ‘ ساؤنڈ اور ایکشن کا عندیہ دیا۔ چنانچہ نواز نے‘ نوازنے والوں سے دِلدوز آواز میں اپیل کی کہ ''یاد رکھنا! مجھے دو تہائی اکثریت دینی ہے۔ اگر تم نے مجھے دو تہائی اکثریت نہ دی تو پاکستان ترقی نہیں کر سکے گا‘‘۔ اس درد مندانہ درخواست کو فوراً شرفِ قبولیت بخشنے کا حکمِ شاہی آیا جس کے نتیجے میں نواز شریف کو ایک بار پھر دو تہائی کی بھاری اکثریت سے نواز دیا گیا۔ پھر تقریر کے قاضی نے یہ بھی سچ کر دکھایا کہ نواز شریف اینڈ کمپنی کو کئی براعظموں تک پھیلی ہوئی ترقی کروا دی۔ جس ترقی کے لینڈ مارک آج بھی سعودی عرب عزیزیہ‘ متحدہ عرب امارات کے دبئی ٹاورز‘ پاناما پیپرز سے ترقی کے زینے طے کرتے کرتے مے فیئر کے شاہی محلات تک جا پہنچے۔ شاعرِ عوام حبیب جالب صاحب نے اسی طرح کی مسلسل ترقی کے فارمولے کا پوسٹ مارٹم کر رکھا ہے۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دِن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
وہی اہلِ وفاکی صورتحال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلافِ عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
قارئینِ وکالت نامہ! یہ تو بتائیں کہ آج ترقی کے عظیم سفرکی ریورس انجینئر نگ کرکے تاریخ بیان کی جائے یا اسے ریوائنڈ کرنے کے بجائے یہاں سے فارورڈ کیا جائے۔ ماضی معلوم کی اَن مٹ تاریخ 1984ء میں محلہ گوالمنڈی شہر لاہور سے شروع ہوئی۔ ترقیات کے اس سفرکو بریگیڈیئر قیوم کے دروازے تک رسائی کے لیے‘ پھر وہاں سے آگے اُس وقت کے گورنر پنجاب جنرل جیلانی کے حضور مٹھائی والی رونمائی کے لیے کہاں کہاں جانا پڑا‘ اس پر کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ تاریخ کی سب سے لمبی ضیا ڈکٹیٹرشپ کی نرسری میں پھلنے پھولنے والے گھریلو پودے سمجھتے ہیں تاریخ اندھی ہوتی ہے‘ اس لیے عمران خان جیسے شجرِ سایہ دارکو مشرف اور ٹرمپ کے طعنے دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جنرل مشرف سے عمران خان نے کون سا سیاسی منصب لیا؟ کیا جنرل مشرف نے جس شخص کو اربوں روپے کی کرپشن کے مقدمات میں پی آئی اے کے چارٹرڈ طیارے میں بٹھا کر جدہ روانہ کیا تھا‘ اس کا نام عمران خان ہے؟ کپتان ایک ایسا ثمر بار شجر ہے جس نے علم کے پیاسوں کیلئے میانوالی کے کوہستان اور پوٹھوہار کی کٹاؤ والی زمین میں ایک نہیں بلکہ پہلے NAMAL یونیورسٹی اور پھر القادر یونیورسٹی نامی دو شہرِ علم بسا دیے۔ ایشیا کی تاریخ میں پہلی بار لاہور‘ پشاور اور کراچی میں کینسر کے مریضوں کیلئے بین الاقوامی معیار کے تین ہسپتال پبلک کال پر بنا دیے۔ عمران خان‘ جسے شاملِ اقتدارکرنے کیلئے خود نواز شریف نے کیمروں کی موجودگی میں دعوت دی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں نواز دو سے جہاز دو تک جو کارنامے (ن)لیگ نے سرانجام دیے ہیں اس کی کوئی مثال پڑوسی ملکوں بھارت اور ایران تو کیا ہمارے تیسرے پڑوسی افغانستان میں بھی نہیں مل سکتی۔ وہ پبلک میں ہر الیکشن ہار جاتے ہیں لیکن گنتی کرنے میں جیتے ہوئے کو ہرا دینے کا فن جانتے ہیں۔ وہی فن جس کے سب سے بڑے کلاکار نے 1973ء کے دستور کو نافذ ہونے کے پہلے پنج سالے میں ساڑھے 11سال کیلئے معطل کر کے رکھ دیا۔ آپ ایک ایک کا نام نکالیں‘ ان کا شجرہ دیکھیں‘ کسی کے باپ‘ کسی کے دادا نے آمریتوں کی خدمت کے ذریعے سائیکلسٹ سے انڈسٹریلسٹ تک کا معجزاتی سفر طے کر رکھا ہے۔
ایسے ہی ایک مخولیہ سیاسی اداکار کو پھیکی جگتیں پھینکنے کی ڈیوٹی ملی ہے۔ سب سے بڑی جگت خدائی (Demigod) دعوے والی ہے جس میں کہا کہ عمران خان کے لیے نہ کوئی کھڑکی کھلے گی‘ نہ کوئی دروازہ اور نہ ہی کوئی راستہ۔ جن راستوں کے مسافر کار کی ڈِگی کے سفر کو باعزت راستہ سمجھیں وہ ٹھیک کہتے ہیں‘ کوئی بھی دستور پسند یا کسی بھی درجے کا حریت پسند ایسے راستوں پر تین حرف بھیجے گا۔ بقولِ شاعر:تابشِ حسن بھی تھی آتشِ دنیا بھی مگر؍شعلہ جس نے مجھے پھونکا مرے اندر سے اٹھا
٭......٭......٭
جنسِ ویرانیٔ صحرا میری دکان میں ہے
کیا خریدے گا ترے شہر کا بازار مجھے
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی زمانے میں چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے اونچی تھی۔ آج چین بھارت میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان کبھی برادر اسلامی پارٹنر تھے۔ آج سعودی عرب نے جن 14 ملکوں سے وزٹ ویزا پر آنے والوں پر پابندی عائد کی ہے ان میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی شامل ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کسی زمانے میں متحدہ عرب امارات اور ہمارے پیارا دیس یک جان و دو قالب تھے۔ آج پاکستانیوں کے لیے ماسوائے آفیشل پاسپورٹ ہولڈرز کے‘ یو اے ای کا وِزٹ ویزا حاصل کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کسی زمانے میں ایشیا کے اندر پاکستان کو سٹرٹیجک پارٹنر بنانے کے لیے سوویت یونین اور امریکہ میں باقاعدہ ریس لگی ہوئی تھی۔ آج امریکہ اور بقیہ سوویت یونین (روس) کی پاکستان کے مخالف ملک بھارت میں Semi finished goods کی سب سے بڑی پارٹنر شپ چل رہی ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ کس بات کا فخر ہے اس نظام کے ہرکاروں کو‘ قرض کے پیسے سے چلنے والے پروٹوکول موٹرکیڈ‘ برانڈڈ جوتے‘ برانڈڈ ٹائیاں‘ برانڈڈ سوٹ‘ برانڈڈ مفلر اور امپورٹڈ حُلیے بنا کر کالے انگریز بننے پر؟ جواہر لال نہرو نے ''سب سے پہلے بھارت ماتا‘‘ کا نعرہ لگایا تو زندگی بھر سفید کھدر کا کُرتا پاجامہ اور ٹوپی کے علاوہ کچھ نہ پہنا‘ وہ بیرسٹر تھے۔ دوسرے بیرسٹر محمد علی جناح‘ جب قائداعظم بنے تو سفید شلوار قمیص کے اوپر شیر وانی اور جناح کیپ کے علاوہ کچھ نہ پہنا۔ پاکستان کو لوٹنے والے قوم کی آخری امید بھی توڑ رہے ہیں۔
آخری آس بھی ٹوٹے تو بڑا لطف و کرم
ریت کے پیار سے طوفاں کے جھکولے اچھے
آگ لگ جائے جوگھر کو تو چلو جشن ہوا
اپنے معمول کی اس راکھ سے شعلے اچھے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں