"SBA" (space) message & send to 7575

غزہ میں حماس نے تاریخ کا دھارا کیسے موڑا؟ … (1)

یہ کہانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 480-530سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ اُس زمانے کے یونانی گوریلے‘ جن میں سپارٹن (Spartan) کی اکثریت تھی‘ پرشین کنگ Xerxes The First اور دنیا کی سب سے بڑی فوج سے ٹکرائے تھے۔ سپارٹا غزہ کی طرح ایک کوسٹل اور پہاڑی مگر انتہائی خوبصورت علاقہ تھا۔ یونان تک پہنچنے سے پہلے پرشین کنگ کی افواج مشرق و مغرب میں جہاں سے بھی گزر رہی تھیں ان تمام ملکوں کی بادشاہتیں‘ حکومتیں اور شہر ملیا میٹ ہوتے چلے گئے۔ آج کے زمانے میں Xerxes The First کا کوئی نام و نشان ہے نہ ذکرِ خیر‘ لیکن بادشاہ کے برعکس سپارٹا کے سر پھرے جانثاروں کی لازوال بہادری کی وجہ سے تاریخ کی کتابوں‘ ادبی کہانیوں میں اور بین الاقوامی فلموں کے ذریعے آج بھی سپارٹن بہادروں کو مسلسل خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔
پھر وقت کا دھارا آگے کو بڑھتا ہے۔ عیسوی کیلنڈر کے 624ویں سال‘ مارچ کے مہینے کی 13 تاریخ نے سارے کرۂ ارضی کی تاریخ کا دھارا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس روز چشمِ فلک نے دیکھا کہ 313 بے سر و سامان جانثار جزیرۂ عرب کی سب سے بڑی فوج کا راستہ روکنے کے لیے محسنِ انسانیت حضرت محمدﷺ کی قیادت باسعادت میں وادیٔ یثرب سے باہر نکل کر 152.2کلومیٹر کے فاصلے پر‘ بدر کے مقام پر پہنچ کر خیمہ زن ہو گئے۔ میدانِ بدر کا نام لکھتے ہوئے میں روح کی گہرائیوں سمیت ادب کی سرشاری سے جھک جاتا ہوں۔ میں فروری 2020ء میں دیارِ رسولﷺ سے حرمِ نبوی کے ڈپٹی امام شیخ عادل کی ہمراہی میں شہدائے بدرکی ابدی آرام گاہ اور غزوۂ بدر کے درمیان واقع مزرعہ میں پہنچا تھا۔ جہاں ہمارے مختصر قافلے نے کھجوروں کے اس باغ میں بیٹھنے کے لیے چٹائیاں بچھائیں جہاں لشکرِ رسولﷺ نے میدانِ بدر میں مشرکینِ مکہ کے پہنچنے سے پہلے سٹرٹیجک جنگی پالیسی ترتیب دینے کے لیے اپنے بے سرو سامان جانثاروں سے مشاورت فرمائی۔ غزوۂ بدر میں تاریخ ساز فتح سے ریاستِ مدینہ کے لیے مزید تاریخی فتوحات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں عرب گھڑ سواروں نے مشرقی رومن ایمپائر اور فارس کی ایک ہزار سالہ پرانی پادشاہی کو خاک میں مِلا کر رکھ دیا۔
اسی تاریخ کا ایک تازہ تسلسل غزہ میں حماس کے جری اور بہادر مجاہدوں نے پھر اقوامِ عالم کو موجودہ صدی کے سال 2023ء میں ری پلے کر کے دکھا دیا۔ قارئینِ وکالت نامہ! کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ غزہ کے باسیوں اور حماس کو شیوخ و شاہ کے خرچے پر پیٹ پوجا‘ اچھی بودو باش‘ صاف ستھرے پارک اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے مغربی ملکوں کے ویزوں جیسی سہولتوں کو ترجیح دینی چاہیے تھی۔ ان کے نزدیک اسرائیل جیسی بڑی طاقت پر حملہ کرنا غزہ میں حماس کی لیڈر شپ کا اپنے اوپر خودکش حملہ تھا۔ آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سوچ اپنے ہاں آئی کہاں سے۔ اس تازہ تاریخ کا معجزہ امریکہ بہادر کے چارلی وِلسن نے برپا کیا۔ بڑے بڑے نام دار لوگوں نے افغانستان کے سوشلسٹ حکمرانوں کا اقتدار گرانے کے لیے بڑے متبرک نعرے لگائے۔ جس سے عام آدمی کے بچے روس کے خلاف امریکہ کی پراکسی جنگ میں ایندھن کے طور پر کام آئے۔ ہمارا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں بلکہ اپنی بدقسمتی کی تاریخ دہرانا ہے۔ اس لیے بتانا ضروری ہوگا کہ اس جنگ کے سارے دعویداروں کے اپنے بچے جنگ کے بجائے مغربی ملکوں کے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھنے چلے گئے۔ ان کے والدین کے اثاثے پاکستان کی سرحدوں سے باہر پرواز کر گئے۔ وہی لوگ ایک نئے لبادے میں پھر سامنے ہیں۔ نئی مایوس کن (Pessimist) سوچ کے ناکردہ کار دانش مند‘ اور پرانے بندگانِ شکم جب غزہ اور حماس کے مزاحمت کاروں کی مذمت کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل وہ مغرب کے ناجائز بچے اسرائیل کی صہیونی قیادت کا سرکاری بیانیہ آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ جان بوجھ کر یا انجانے میں‘ یہ بیانیہ باز جانے یا تاریخ لیکن یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ یہ وہی بیانیہ ہے جو 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں عرب ملکوں کی افواج کو شکست دینے کے بعد اسرائیل میں David Ben-Gurion‘ Moshe Dayan اور Golda Meir کی سوچ نے تخلیق کیا تھا۔ اس بیانیے کے تین حصے عرب ریاستوں کے منیجرز کے اعصاب پر چھائے ہوئے ہیں۔ اور ان کے اعصاب پر بھی جو اسرائیل سے غزہ‘ حماس‘ حوثی‘ لبنان اور ایران کے مقابلے کو فلسطین دشمنی قرار دینے پر اُتر آئے ہیں۔
اب آئیے مذکورہ بالا اسرائیلی بیانیے کی طرف جو صہیونی سٹیٹ کا چارٹر اور سٹیٹ پالیسی بھی ہے۔
اسرائیلی بیانیے کا پہلا حصہ ہے Impregnable State: جس کا مطلب ہے اسرائیل دنیا کی وہ واحد ریاست ہے جس کے اندر چڑیا تک بھی پر نہیں مار سکتی کیونکہ اسرائیلی ریاست کی جغرافیائی زمینی سرحدیں اونچی دیواروں سے بند ہیں۔ اسرائیل کی آبی سرحدیں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور کئی دیگر مغربی ملکوں کے بحری بیڑے‘ ایئر کرافٹ کیریئر اور ہائی پاور ڈرون طیاروں جیسے تباہ کن نیول ڈیفنس کے حصار میں محفوظ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستِ اسرائیل کی فضائیں تین قسم کے اور تین درجات کے Iron Dome کے الیکٹرانک حفاظتی پنجرے میں بند ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید سچائی ہے کہ اسرائیل دنیا میں محض چند ملین آبادی رکھنے والا واحد ایسا ملک ہے جسے آئرن ڈوم سے ایٹم بم تک‘ سب کچھ تحفے میں ملا۔
اس مرحلے پہ بہتر ہو گا کہ آئرن ڈوم دفاعی نظام کو رفائل ایڈوانس ڈیفنس سسٹمز کی پبلش کردہ معلومات کے ذریعے جان سکیں۔ رفائل کمپنی نے ہی اسرائیل کا آئرن ڈوم دفاعی نظام بنایا اور اسے نصب کیا ہے۔ یہ سسٹم باہر سے اُڑ کر آنے والے جنگی ایئر کرافٹ‘ میزائل‘ ڈرون اور راکٹ کے ریڈار سسٹم کی نشاندہی پر ہائی الرٹ میں چلا جاتا ہے۔ ریڈار سسٹم راکٹ وغیرہ کی نشاندہی کے بعد اس پر نظر رکھتا ہے۔ پھر آئرن ڈوم کا کنٹرول سسٹم تصادم کے ٹارگٹ کا اندازہ لگاتاہے جس کے بعد آنے والے ہتھیار کو روکنے کے لیے میزائل داغنا شروع کر دیتا ہے۔ 1948ء سے عالمی طاقتوں کے محاصرے میں آئے ہوئے غزہ کے عظیم مجاہدوں اور ان کے ہمدرد حوثی فائٹرز نے اربوں‘ کھربوں لگا کر بنائے گئے ڈوم کو ہینڈ میڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے غزہ اسرائیل جنگ بندی کے اعلان تک مسلسل اور بار بار شکست دی۔ غزہ میں حماس نے تاریخ کا دھارا بدلنے کا فارمولا اقبال لاہوری سے سیکھا۔
اُٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
اسرائیلی بیانیے کا پہلا حصہ اب اسرائیلی خود بھی دہرانے سے کتراتے ہیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں