مذاکرات میں ‘‘فیصلہ سازوں’’ کی شمولیت کے اشارے نظر آ رہے
(تجزیہ: سلمان غنی) تحریک انصاف کی جانب سے مذاکراتی عمل میں ‘‘فیصلہ سازوں’’ کی شمولیت کے اشارے ہوتے نظر آ رہے ہیں ، مطلب یہ کہ وہ مذاکراتی عمل میں فیصلہ سازوں کو ایک بااختیار فریق سمجھتے ہوئے ن لیگ کو یہ باور کرایا جا رہا ہے۔
کہ مذاکراتی عمل تبھی نتیجہ خیز ہوں گے جب فیصلہ ساز مذاکراتی عمل میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر شامل ہوں اور انہیں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے سامنے اٹھائے جانے والے نکات اور تحفظات کا انداز ہ ہو کہ کس طرح صورتحال میں سے کوئی سیاسی راستہ نکالا جاسکتا ہے اور متنازعہ ایشوز پر پیش رفت ممکن بن سکتی ہے اور یہ تبھی نتیجہ خیز ہو گا جب فیصلہ ساز وں میں فریقین کے خیالات اور مطالبات سے آگاہ ہوں اور اس حوالہ سے وہ کسی بڑے فیصلے کی طرف پیش رفت کرسکیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری مطالبات دینے سے گریز پرتلے رہنے کا سوال ہے تو وہ اپنے مطالبات تحریر میں نہیں لانا چاہیں گے جن سے ان کا سیاسی کیس کمزور ہو اور اس میں ان کی لیڈر شپ کی کمزوری کا پہلو نکلتا ہو کیونکہ یہی ان کی اصل طاقت ہے جہاں تک جاری مذاکراتی عمل کے سلسلہ کا تعلق ہے تو ابھی تک مذاکراتی عمل تو شروع ہے مگر اس کے آثار سلو ہیں اور فریقین کو بھی اس حوالہ سے جلد بازی نظر نہیں آئی البتہ اس عمل کا اتنا فائدہ ضرور ہو رہا ہے کہ اب سیاسی محاذ پر پہلا سا تناؤ ٹکراؤ اور احتجاجی اور جارحانہ کیفیت طاری نہیں رہی ۔
حکومت پر پی ٹی آئی کا جو دباؤ تھا وہ اس کی جارحانہ حکمت عملی اور احتجاجی روش کا تھا اور اس حوالہ سے وہ اپنے عام آپشنز بروئے کار لا چکے تھے اور 24 نومبرکے احتجاجی مارچ کو اس کے عملی احتجاج کا آخری اقدام سمجھا جا رہا تھا جہاں تک سول نافرمانی کے ضمن میں ترسیلات زر سے روکنے کے عمل کا سوال ہے تو یہ اپیل بھی موثر نظر نہیں آ رہی اور بیرون ملک پاکستانی بھی یہ سمجھ ر ہے ہیں کہ مذاکرات پر آنے والی پی ٹی آئی اب کسی ایسے اقدام میں سنجیدہ نہیں جس سے اس کی پوزیشن اور کمزور ہو جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ پی ٹی آئی مذاکراتی عمل میں فیصلہ سازوں کی شمولیت چاہتی ہے تو یہ مطالبہ ہی حقیقت پسندانہ نہیں اور یہ ہی حکومت ایسے کسی اقدام کی اجازت دے گی ویسے بھی دیکھا جائے تو جو مذاکراتی عمل ان کی مرضی اور منشا کے بغیر ممکن ہی نہیں بن پا رہے تھے اب ایسے ہی گرین سگنل کے ذریعہ ممکن بنے اور سیاست کے رموز پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ مذاکراتی عمل دوطرفہ تحریک کے باعث نہیں بلکہ کسی تیسر ے فریق کا سگنل ہی یقینی نہیں بنا ، اس حوالہ سے زیادہ زور خود تحریک انصاف کی جانب سے تھا ۔
اگرچہ بریک تھرو کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا لیکن اس میں شاید کچھ وقت لگے ۔ حکومت ان مذاکرات کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ معاملات کو جمہوری انداز میں افہام وتفہیم کے ذریعہ طے کرنے کیلئے کوشش میں ہے ۔مذاکرات کی کامیابی کیلئے حکومت کی جانب سے دکھائی جانے والی لچک کا تمام تر انحصار تیسری پارٹی اسٹیبلشمنٹ پر ہوگا کیونکہ حکومت اس کو اعتماد میں لئے بغیر نہ تو کوئی ریلیف دینے کی پوزیشن میں ہے ، نہ ہی کوئی یقین دہانی کراسکے گی۔ ویسے بھی عملاً دیکھا جائے تو اصل فریقین حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی ہیں ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کچھ لچک کا مظاہرہ دکھانے کو تیار ہے جس کا مظاہرہ کچھ مجرموں کو معافی دینے پر کیا گیا اور یہ بات بھی واضح ہے کہ پی ٹی آئی کو کچھ ملنا نہیں تو پھر وہ مذاکرات پر کیونکر آتی ہے ۔ لہٰذا دونوں پارٹیوں میں مذاکرات نتیجہ خیز تب ہوں گے جب تیسری پارٹی لچک دکھائے گی ۔190 ملین پائونڈ کے حوالہ سے یہ فیصلہ پھر موخر ہوگیا یہ فیصلہ 18 دسمبر کو محفوظ کیا گیا تھا اور23دسمبر کی تاریخ فیصلہ کیلئے مقرر ہوئی تھی تاہم عدالت نے فیصلہ سنائے جانے کی تاریخ ملتوی کرکے 6 جنوری مقرر کردی تھی اور اگر آج بھی یہ فیصلہ نہیں سنایا جاتا تو پھر اس فیصلہ کی تاخیر کو سیاسی حلقے بے معنی بناتے نظر آتے ہیں اور اسے بھی سیاسی محاذ پر کسی ریلیف سے جوڑرہے ہیں۔