اپنے فیصلوں پر عملدر آمد آج کل عدالت کیلئے سب سے مشکل کام:جسٹس اطہر من اللہ
لاہور(سیاسی نمائندہ،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ آج کل عدالت کیلئے سب سے مشکل کام اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ہے ، عدالت اگر فیصلے پر عمل درآمد نہ کراسکے تو اس کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے ۔
لاہور میں جانوروں کے حقوق سے متعلق ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غیر آئینی طریقے سے عہدے سے ہٹا کر قتل کیا گیا جس میں سپریم کورٹ بھی استعمال ہوئی،پاکستان میں طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کیاجاتا رہا ہے ، جنرل ضیا الحق کا دور سب سے خوفناک تھا، اس دور میں ٹارچر سیلز بنائے گئے ، لوگوں کو مہینوں عقوبت خانوں میں رکھا جاتا تھا۔ پاکستان میں انسان محفوظ نہیں تو جانوروں کی بات کیوں کی جائے ، ججوں پر بات کی جاتی ہے قانون تو ایک ہے لیکن ججمنٹ کیوں مختلف ہوتی ہے ، قانون ایک ہوتا ہے لیکن کیس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ۔ان کاکہناتھاکہ جانوروں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ان کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔صرف انسانوں کی زندگی نہیں ہر جان رکھنے والی چیز کی زندگی اہم ہے ۔جنرل ضیاالحق نے سری لنکا کی حکومت سے درخواست کی تھی کہ اس کی بیٹی ایک ہاتھی کا بچہ رکھنا چاہتی ہے ، ہاتھی بھی ہمارے انسانوں کی طرح بہت اموشنل ہوتے ہے ، 3 سالہ ہاتھی کا بچہ سری لنکا سے پاکستان آیا اور ایک بیک یارڈ میں رکھا گیا وہ بچہ بڑا ہوتا گیا اور تب ضیا الحق نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد میں چڑیا گھر بنایا جائے اور اسے وہاں رکھا جائے ۔
جب میں اس بارے سوچ رہا تھا تو اسی وقت میں جبری گمشدگی کے کیسز بھی دیکھ رہا تھا، بطور جج اس درد کو سمجھتا ہوں کسی کا عزیز جبری گمشدہ کر دیا جائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کیسز کی سنوائی ہوئی، جبری گمشدگی کے حوالے سے فیصلہ دیا، بنیادی حقوق کے بارے میں بہت سے فیصلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ملیں گے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے جو جانوروں کے حقوق کیلئے فیصلہ ہوا وہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ تھا اور کسی کورٹ میں اینیمل رائٹس پٹیشنز کبھی نہیں آئیں۔ان کا کہناتھاکہ ہمیں سکول کے دور میں حقیقت سے برعکس پڑھایا جاتا رہا، شیر کے رہن سہن کے بارے میں جو پڑھایا گیا وہ حقیقی زندگی سے بالکل برعکس تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے بنی گالا کی خوبصورتی کو داغدار کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹاؤن پلانر نے اسے جانوروں کے قیام کی بہترین جگہ قرار دیا تھا مگر اشرافیہ نے وہاں رہائش گاہیں قائم کرکے قدرتی خوبصورتی کو نقصان پہنچایا۔