سپیکر کی تنخواہ میں اضافہ عوام اور حکمرانوں میں فاصلے بڑھا رہا

 سپیکر کی تنخواہ میں اضافہ عوام اور  حکمرانوں میں فاصلے بڑھا رہا

(تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں کئی سو گنا اضافے کی خبروں کے نوٹس نے اب تک ہونے والے اشرافیہ کے لئے مراعات اور خصوصاً وزرا، وزرا مملکت و اراکین قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں بھی بڑے پیمانے پر اضافے کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے ۔

 سیاسی محاذ پر ان چہ مگوئیوں کا سلسلہ شروع ہے کہ ایک طرف جہاں پاکستان کے کروڑوں عوام مہنگائی اور مسائل کی آگ میں جل رہے ہیں اور ان کے ریلیف کا امکان نظر نہیں آ رہا تو دوسری جانب منتخب اراکین اسمبلی اور خصوصاً چیئرمین سینیٹ و سپیکر کی تنخواہوں اور مراعات میں سینکڑوں فیصد اضافے کا عمل عوام اور حکمران اشرافیہ میں بڑے فاصلوں کا باعث بن رہا ہے ۔لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر کیونکر اراکین پارلیمنٹ اور حکومتی ذمہ داران کی تنخواہوں اور مراعات میں سینکڑوں فیصد کے اضافے کی سوجھی ۔خواجہ آصف نے بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر کی تنخواہوں اور مالی مراعات میں بے تحاشہ اضافہ مالی فحاشی کے زمرے میں آتا ہے ۔خواجہ آصف کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پھر وزیراعظم شہباز شریف کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑا اچھا ہوتا کہ اس حوالے سے خود چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی از خود کوئی وضاحت دیتے اور اتنے بڑے اضافے پر نظرثانی کی استدعا کرتے ۔ اطلاعات یہی ہیں کہ پہلے خود اراکین اسمبلی اور سپیکرز کی تنخواہوں میں اضافے میں انہوں نے کردار ادا کیا اور بعد ازاں فنانس کمیٹیوں نے اپنے اداروں کے سربراہان کی تنخواہوں اور مراعات میں بڑے اضافے کی سفارش کی اور بجٹ پیش کرنے سے ایک دن قبل سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں پانچ فیصد اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ۔

بڑا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان کے عوام کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور مہنگائی بے روزگاری اور غربت اپنی انتہا پر ہے تو اس کیفیت میں اراکین پارلیمنٹ اور حکومتی ذمہ داران نے ان سے یکجہتی کا اظہار اپنی تنخواہوں اور مراعات میں سینکڑوں فیصد اضافہ کی صورت میں کیا ۔ حکومت ، اراکین پارلیمنٹ اور مہنگائی زدہ عوام میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں اور خود عوام کو اب حکومت اور اپنی سیاسی جماعتوں اور اراکین پارلیمنٹ سے کوئی امید نظر نہیں آتی ۔پارلیمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا تعلق پارلیمنٹ سے ہے اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں تو ان کے آگے بھی سوالیہ نشان کھڑا ہوگا کہ اب وہ اس میں کیا کر پائیں گے ویسے بھی وزیراعظم شہباز شریف جس کے حوالے سے یہ تاثر عام تھا کہ وہ اپنی حکومت میں کفایت شعاری کو یقینی بناتے ہوئے عیاشیوں کے اس عمل کے آگے بند باندھیں گے لیکن عملاً دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مذکورہ تنخواہوں میں اضافہ کے عمل نے خود حکومتی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے اور لوگ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے پر چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کا مشورہ دینے والی حکومت کو یہ نظر نہیں آ رہا کہ اشرافیہ کے لئے بے دریغ ریلیف اور ملازمین کے لئے محدود ریلیف ، کیا یہ دہرا معیار نہیں ؟ ۔شہباز شریف نے چیئرمین سینیٹ اور سپیکر کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا نوٹس لیا ۔ کیا مہنگائی کے اس دور میں اتنے بڑے اضافے کا کوئی جواز تھا اور آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں