ہر آنے والا دن مودی اور بھارت کیلئے سبکی کا باعث
تجزیہ:سلمان غنی ہر آنے والا دن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے بھارت کیلئے سبکی کا باعث بن رہا ہے ،آئے دن عالمی میڈیا میں ایسی رپورٹس سامنے آتی ہیں کہ پاک بھارت کشیدگی کے عمل میں بھارت کو ملنے والی ذلت و رسوائی کیوں ہوئی اور اس کا ذمہ دار کون تھا ، خصوصاً رافیل طیارے گرنے کا نقصان کیونکر ہوا۔
پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہونے والی شکست بھارت جیسی بڑی طاقت کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا باعث بنی، اب امریکی جریدہ بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں جی سیون کے اجلاس میں وزیراعظم نریندر مودی کی ہنگامی بنیادوں پر وطن واپسی کی بڑی وجہ ان پر اس خوف کو قرار دیا کہ مودی سمجھتے تھے کہ صدر ٹرمپ ان کی ملاقات فیلڈ مارشل آرمی چیف عاصم منیر سے کرائیں گے ۔ رپورٹ میں صدر ٹرمپ اور وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان 35 منٹس کی ٹیلی فون کال کا ذکر ہے جس کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ اس میں گفتگو خوشگوار نہ تھی،اس کے بعد ہی وائٹ ہاؤس کے لہجے میں تبدیلی آئی اور تناؤ اس وقت سے شروع ہے جب سے صدر ٹرمپ بار بار پاک بھارت کی جنگ کی بندش کا کریڈٹ لیتے نظر آتے ہیں ، پاکستان نے ان کی اس کوشش پر تحسین کا اظہار کرتے ہوئے انہیں نوبل انعام کے لئے مستحق قرار دیا جبکہ بھارت نے اس عمل پر معنی خیز خاموشی اختیار کئے رکھی اور اس پر بھارت میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ اگر صدر ٹرمپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں تو نریندر مودی کہہ دیں کہ صدر ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں صدر ٹرمپ بھارتی معیشت کے درپے نظر آ تے ہیں،انہوں نے بھارتی معیشت کومردہ قرار دیا اور بھارت پرٹیرف 50فیصد کر دیا۔ لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ اورنریندر مودی کے بگڑتے تعلقات کی اصل وجہ کیا ہے اور آخر کیوں وزیراعظم نریندر مودی پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کے سامنا کرنے کا خوف سوار تھا اور کیا بھارت صدر ٹرمپ اور امریکاکے خلاف کسی ردعمل کا اظہار کر سکتا ہے ، کیا امریکا اپنے علاقائی اتحادی سے ہاتھ اٹھا لے گا،بلاشبہ امریکااور بھارت کے تعلقات مثالی تھے اور اس کی بڑی کوشش رہی کہ وہ چین کے مقابلہ میں بھارت کو خطے کی بڑی طاقت بنائے اور چین کو سبق سکھائے ۔ چین نے بھارت کی عسکری قوت میں اضافہ کے لئے اس کی طاقت کو ٹیکنالوجی کے ہم آہنگ کیا اور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن کنٹری بنانے کے باوجود اس نے اپنی علاقائی ترجیح بھارت کو ہی رکھا اور بھارت بھی امریکا کی عالمی سرپرستی کو علاقائی محاذ پر اپنے رعب ودبدبے کیلئے استعمال کرتا نظر آیا، لیکن بعد ازاں امریکا پہلی مرتبہ بھارتی عزائم سے اس وقت خبردار ہوا جب کینیڈا، امریکاسمیت مختلف ممالک میں بھارتی خفیہ ایجنسی‘را’ نے سکھ لیڈر شپ کی ٹارگٹ کلنگ شروع کی۔
پہلگام واقعہ کی بنا پر بھارت کی کوشش تو تھی کہ پاکستان کو سبق سکھائے اور دنیا کو دکھائے مگر جب پاکستانی فوج اور فضائیہ نے بھارتی افواج کو دن دہاڑے چاروں شانے چت کیا اور رافیل طیاروں کے غرور کو بھی زمین پر رگڑا تو یہ امریکا تھا جس نے اپنے علاقائی اتحادی کو لگنے والی پھینٹی پر پیش رفت کی اور فریقین کو جنگ بندی پر آمادہ کر لیا ، مگر نریندر مودی ان امریکی کاوشوں کو سراہنے کی بجائے الٹا اپنی فتح کی بات کرتے ہوئے دوطرفہ رابطوں کی بات کرتے نظر آئے اور یہ عمل تھا جس نے صدر ٹرمپ کو پریشان کیا،جب انہوں نے دوطرفہ مذاکرات پر پیش رفت کی بات کی تو اس کو بھی وزیراعظم نریندر مودی نے پذیرائی نہ بخشی ، پھر صدر ٹرمپ نے اپنے علاقائی اتحادی کو گھورنا شروع کیا اور اب نریندر مودی کو اندرونی و بیرونی محاذ پر ایک پریشان کن صورتحال درپیش ہے اوروہ روس اور چین کی طرف دیکھتے نظر آ رہے ہیں ،شنگھائی کانفرنس میں چین جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، روس سے اچھی توقعات کی امید ہے ۔چین تو بھارت بارے اپنے موقف میں لچک نہیں دے گا اس لئے کہ اس کا سٹرٹیجک پارٹنر پاکستان ہے اور بھارت کی ذلت و رسوائی اور جگ ہنسائی میں بالواسطہ کردار خود چین کا بھی ہے ، البتہ روس اس کیفیت میں اسے کاندھا فراہم کر سکے گا کہ نریندر مودی یہاں سر لگا کر رو لیں تو اس حوالہ سے حتمی جواز کیا ہوگا، اس کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ خود روسی تیل خریدنے کا جرم ہی فی الحال بھارت کا بڑا جرم بنا ہوا ہے ۔