احتجاج کے باوجود تحریک انصاف کو کہیں ریلیف نظرنہیں آرہا
(تجزیہ: سلمان غنی) پی ٹی آئی کی مشکلات ختم نہیں ہو پا رہیں، نو مئی کے واقعات پر فیصلوں کا سلسلہ جاری ہے ،انسداد دھشت گردی کی عدالت نے راحت بیکری کے باہر گاڑیاں چلانے کے جرم میں شاہ محمودقریشی کوبری جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، اعجاز چودھری، عمر سرفراز چیمہ کو دس دس سال ، عالیہ حمزہ ،صنم جاوید کو پانچ پانچ سال کی قید کی سزا سنادی اور اب تفصیلی فیصلہ میں تمام مجرموں کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم بھی دیا۔
لہذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ سزائوں کا یہ عمل خود پی ٹی آئی کی سیاست اور انکے احتجاج پر کتنا اثر انداز ہو گا اور کیا سزائوں کے اس عمل میں مستقبل میں ریلیف مل سکے گا۔جہاں تک سزائوں کے اس عمل کے پی ٹی آئی کی سیاست پر اثرات کا تعلق ہے تو اس سے پارٹی میں ایک تشویش اور پریشانی کی لہر پائی جاتی ہے اور کہیں سے ریلیف کا امکان نظر نہیں آ رہا ۔البتہ خود پی ٹی آئی کے اندر تشویش پائی جا رہی ہے ۔اسکی وجہ یہ کہ ایک تو احتجاجی فضا نہیں بن رہی اور دوسرا حکومت پر دبائو نہیں آ رہا اور تیسرا یہ کہ کوئی سیاسی راستہ نہیں نکل رہا۔ سیاسی قوتوں سے مذاکرات نہ کرنے پر سیاسی قوتیں بھی اس حوالہ سے سافٹ کارنر ظاہر نہ کرتی نظر آتی ہیں اور خود پارٹی کے اندر بد دلی اور مایوسی اس لئے بھی ہے کہ انہیں نہ تو بانی پی ٹی آئی کی رہائی نظر آ رہی ہے اور مستقبل قریب میں اقتدار میں آنے کے امکانات تو بالکل بھی نہیں، البتہ اراکین اسمبلی یا ٹکٹ ہولڈر اگر سرگرم ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ بینک موجود ہے لہذا اچھا وقت آنے پر اسے کیش کروایا جا سکے گا ۔
سزائوں کے عمل سے بظاہر تاثر تو پریشان کن ہے لیکن سزایافتہ افراد یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اب کم از کم ہم اعلٰی عدالتوں سے ریلیف کیلئے تو رجوع کر سکتے ہیں اور اس حوالہ سے انہیں ابھی توقعات ہیں۔ یہ دیکھناہو گا کہ دو سال کی قید کاٹنے کے باوجود شاہ محمود قریشی سے پرو اسٹیبلشمنٹ ہونے کی چھاپ ختم نہیں ہوپا رہی اور وہ خود بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے باہر آنے سے اندر رہنا بہتر ہو گااور اگر ان کی رہائی ممکن بھی بن پاتی ہے تو ان پر خود لیڈرشپ کا دبائو ہو گا۔ البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرانہیں لیڈر شپ کی تائید ملتی ہے تو وہ ڈائیلاگ کا راستہ کھول سکتے ہیں ۔ مگر بڑا سوال یہ ہو گا کہ کیا انہیں لیڈر شپ اعتماد سونپے گی ۔اس حوالہ سے خود جماعت کے اندر بھی تحفظات ہیں اور انکے پارٹی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اس کے اثرات ہماری سیاست کے لئے اچھے نہیں ہونگے ۔
ایک سینئر رہنما کے مطابق خان صاحب کو شاید حالات کا ادراک نہیں اور بار بار کے احتجاج اور خصوصاً قومی ایام پر احتجاج سے ہماری طاقت متاثر ہو رہی ہے ، مضبوط نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ احتجاجی آپشن موثر اور نتیجہ خیز بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔ جہاں تک ان سزائوں کے عمل کے قومی سیاست پر اثرات کا تعلق ہے تو سیاسی قوتیں اس عمل پر خوش تو نہیں مگر اس کا اظہار بھی نہیں کر پا رہیں۔ البتہ یہ تاثر عام ہے کہ سزائوں کا یہ عمل پی ٹی آئی کو ہی نہیں سیاست اور سسٹم کو بھی کمزور کر رہا ہے اور سیاسی قوتوں میں تنائو بڑھ رہا ہے ۔ سیاسی اختلافات اب دشمنیوں میں بدل رہے ہیں جو سیاست اور جمہوریت کے لئے اچھا نہیں۔ جہاں تک ان سزائوں بارے لیڈر شپ پر اثرات کی بات ہے تو بانی پی ٹی آئی کی جانب سے سزائوں کے اس عمل پر بھی کسی لچک کا مظاہرہ نہ کرنا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ خود تو ضد کا شکار ہیں مگر وہ پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔