ریاست گمشدہ کیسز میں ملوث ہو توعدالتیں کچھ نہیں کرسکتیں ،سپریم کورٹ کاہر جج بنیادی حقو ق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار:جسٹس اطہرمن اللہ
اسلام آباد (دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ریاست گمشدہ کیسز میں ملوث ہوتو عدالتیں کچھ نہیں کرسکتیں ،سپریم کورٹ کا ہرجج بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہے ۔
اسلام آباد میں ڈیفنس ہیومن رائٹس کے زیر اہتمام ڈاکومنٹری سکریننگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی بچیاں، خواتین سڑکوں پر رُل رہی ہیں، ہمیں شرم آنی چاہیے ، سچ بولنا بہت مشکل ، جو سچ بولتا ہے اس سے سب سے زیادہ نفرت کی جاتی ہے ، ملک کو آزاد ججز کی ضرورت ، سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں بالکل بدل جاتی ہیں، اگر جمہوریت، آئین، آزاد عدلیہ نہ ہو تو نئی نسل کیساتھ انصاف نہ ہوگا انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگی کے کیس سب سے زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے ، اگر ریاست خود ان معاملات میں ملوث ہو تو عدالتوں کیلئے فیصلے کرنا مزید دشوار ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ 2023 میں انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس کو جبری گمشدگیوں کے بارے میں خط لکھا لیکن کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں نے مسنگ پرسنز کیس کا جب پہلا فیصلہ دیا جس کے اثرات 4 سال تک مثبت رہے ، اپنے افسر کو کہا کہ میں اپنے علاقے میں مسنگ پرسنز کیس کو برداشت نہیں کرسکتا، مسنگ پرسن کے متاثرہ شخص نے واپس آکر بیان دیا کہ شمالی علاقہ جات کی سیر کرنے گیا ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کا پہلا ہدف شفاف اور باصلاحیت ججز کی تعیناتی تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ پر عوام کا اعتماد تھا اور ملک بھر سے لوگ وہاں رجوع کرتے تھے ۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ہر جج بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ہے اور بطور جج وہ خود بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرسکے ۔ انہوں نے کہا کہ جس سماج میں بلوچستان کی بچیاں اور خواتین اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر بیٹھی ہوں، وہ ہمارے لئے باعثِ شرم ہے ۔ آمنہ مسعود جنجوعہ اور ماہرنگ بلوچ جیسی قیادت میں عورتیں صرف اپنی رائے کا اظہار کررہی ہیں۔ پاکستان کو آزاد عدلیہ اور آزاد ججز کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے ساتھ انصاف ہوسکے ۔ اگر جمہوریت، آئین اور عدلیہ آزاد نہ ہوں تو ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ سچ کیا ہے ، لیکن ہم سچ کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ جب تک سچ بولا نہیں جائے گا حالات بہتر نہیں ہوں گے ۔ حکومت میں رہنے والے 77 سال سے سچ نہیں بول پائے ، سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں آکر بالکل بدل جاتی ہیں۔ وکلاء تحریک نے جمہوریت اور آئین کی بحالی میں تاریخی کردار ادا کیا اور عوام کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کیا۔