ہمارا معاشرہ عرصہ دراز سے قتل و غارت گری کی زد میں ہے۔آرمی پبلک سکول میں ہونے والے سانحے پر پوری قوم تاحال بے چینی اور کرب کا شکار ہے۔ اس کے بعد بھی دہشت گردی کے بہت سے المناک واقعات رونما ہوتے رہے۔ کبھی پبلک مقامات پر معصوم انسانوں کا خون بہایا گیا تو کبھی مساجد اور مدارس پر حملہ کیا گیا ۔ اسی طرح اقلیتوں کو بھی کئی مرتبہ تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ تشدد اور قتل وغارت کو روکنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرنا اور اس کے نفسیاتی محرکات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ جب تک نفسیاتی محرکات کا سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیا جائے گا اس وقت تک تشدد کی بیخ کنی نہیں ہو سکتی۔
تشدد کا پہلا سبب حد سے بڑھا ہوا تعصب ہے جو کسی انسان کو دوسرے انسان کی زندگی لینے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ مخالفت کے اسباب مذہبی ہوں یا سیاسی، بہر صورت انسان کو دوسرے انسانوں کو زندہ رہنے کا حق ضرور دینا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ کئی مرتبہ کسی گروہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص یا بعض افراد کا ظلم اخلاق اور مذہب کی حدود سے تجاوز کر جاتا ہے ، لیکن ایسی صورت میں بھی مد مقابل لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کرنا چاہیے اور ظلم و ستم سے نجات حاصل کرنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے تاکہ ایک ناانصافی کا بدلہ دوسری ناانصافی سے نہ لیا جائے۔
تشدد کا دوسرا بڑا سبب لالچ اور حد سے بڑھی ہوئی خواہشات ہوتی ہیں۔ جب انسان راتوں رات امیر بننا چاہے تو اس کے لیے ہر جائز وناجائز راستہ اختیار کرتا ہے اور اس حوالے سے کئی مرتبہ دوسرے انسانوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اچھی کوٹھی ، اچھی گاڑی اور وافر سرمائے کی خواہش حد اعتدال سے تجاوز کرجاتی ہے تو انسان کی آنکھوں پر ہوس کی پٹی بندھ جاتی ہے، وہ ہوائے نفس کا اسیر بن جاتا ہے، اس کے لیے حلال وحرام کے درمیان تفریق کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ایسا شخص تشدد اور نفرت کے سوداگروں کے لیے خام مال کا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ تھوڑا سا بھی سرمایہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی انسان کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتا ۔ وہ شعوری یا لا شعوری طور پر ملک و ملت کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اپنے ہی ہم وطن اور ہم مذہب لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کر بیٹھتا ہے۔
تشدد کا تیسرا بڑا سبب ریاستی قوانین سے بے خوفی ہے۔ جب کسی انسان یا گروہ کے ذہن میں یہ بات اتر جائے کہ بوقت ضرورت قوانین کوہاتھ میں لیا جاسکتا ہے یا یہ تاثر عام ہو جائے کہ قوانین کا نفاذ معاشرے میںہمہ جہت نہیں ہے تو ایسی صورت میں معاشرے میں لاقانونیت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ طاقتور افراد کے ہاتھوں قتل ہونے والے یا ظلم کا نشانہ بننے والے افراد کی داد رسی نہیں ہو سکی۔ اس قسم کے واقعات مستقبل میں لاقانونیت کی بنیاد بن جاتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ قوانین کے ہمہ گیر نفاذ پر بہت زیادہ توجہ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب بنو مخزوم کی فاطمہ نامی بااثر عورت نے چوری کی تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ آپ ﷺ نے سابقہ اقوام کی تباہی کے ایک بڑے سبب کو بھی بیان فرمایا تھا کہ جب ان میں سے چھوٹے لوگ جرائم کا ارتکاب کرتے تو ان کو سزا دی جاتی اورجب بڑے لوگ ظلم کرتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا۔ تشدد کا ایک اور اہم سبب معاشی ناہمواریاں بھی ہیں ۔انسانوں کی بنیادی ضروریات کا انتظام کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جب عوام کی بڑی تعداد سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اخلاقیات اور مذہب کی تمام پابندیوں کو پامال کر دیتا ہے ۔ بہت سے یورپی ممالک میں سماجی تحفظ اور انصاف کا ایک ایسا نظام موجود ہے‘ جس کے تحت کسی بھی انسان کو روٹی ، کپڑا ، مکان اور علاج ومعالجے کی سہولیات کے حصول کے لیے تکلیف اور تردّد کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ چنانچہ لوگ چھیناجھپٹی، لوٹ مار اور تشدد کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ جب معاشی ناہمواری اور محرومی حد سے بڑھ جاتی ہے تو انسان اپنے حقوق کے حصول کے لیے منفی راستوں کو اختیار کر لیتا ہے۔ معاشی طور پر محرومیوں کا شکار انسان پرتشدد سرگرمیوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور اگر اس کو کوئی اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہے تو وہ فی الفور آمادہ و تیار ہو جاتا ہے ۔
تشدد کا ایک اہم سبب میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ روّیہ بھی ہے۔ لڑائی جھگڑے پر مبنی مواد کوبکثرت میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسے ڈرامے اور فلمیں بنائی جاتی ہیں جن میں غنڈوں کو ہیرو کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ پر تشدد مناظر دیکھنے والے نوجوانوں کی نفسیات مسخ ہوجاتی ہے اور وہ جلد یا بدیر غیر معمولی کردار کے حامل ہیرو کے روپ میںنظر آنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مغربی ممالک میں کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ جہاں بگڑے ہوئے نوجوانوں نے بغیر کسی وجہ کے بڑے پیمانے پر سکول وکالج اور دیگر مقامات پر بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
تشدد کا ایک اور اہم سبب مذہب سے دوری بھی ہے۔ مذہب انسان کو صبر و تحمل اور بردباری کا درس دیتا ہے۔ مذہب سے بیزار انسان ان صفات سے عاری ہوتا ہے، وہ صبر و تحمل اور برد باری کے اجر و ثواب سے نا واقف ہونے کے سبب انتقام اور غصے سے مغلوب ہو کر تشدد پر اتر آتا ہے۔ قرآن مجید نے ہمیں بتلایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کے حسد کا نشانہ بنے اور بھائیوں نے ان کو تاریک کنویں میں اتار دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کی بے مروّتی کی وجہ سے زندگی میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ طویل عرصہ گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اقتدار عطا فرمایا اور وہ وقت بھی آیا جب بھائی آپ کے رحم وکرم پر تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اگر چاہتے تو ان سے انتقام لے سکتے تھے لیکن انہوں نے انتقام لینے کے بجائے ان سب کو معاف کر دیا ۔
اسی طرح حضرت رسول اللہﷺ کو کفار مکہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ انہوں نے آپﷺ کو ہر طرح کی اذیتیں اور تکالیف دیں، آپ ﷺکے وجود اطہر پر پتھر برسائے، آپﷺکے راستے میں کانٹے بچھائے، آپ ﷺکے گلوئے اطہرمیں چادر ڈال کر کھینچا گیا، آپ کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا، یہاں تک کہ آپ کو ہجرت پر بھی مجبور کر دیا۔ قیام مدینہ کے دوران بھی آپﷺ پر جنگیں مسلط کی گئیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب آپﷺ فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ آپﷺ کفار مکہ سے انتقام لے سکتے تھے لیکن آپﷺ نے ظلم وبربریت کا مظاہرہ کرنے والے تمام لوگوں کو معاف کر دیا۔
تشدد کا ایک اور اہم سبب معاشرے میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام بھی ہے۔ سیاسی کشمکش کی وجہ سے کئی مرتبہ رہنماؤں کے درمیان گرم وسرد بیانات کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اس دوران رہنما ایک دوسرے پر جھوٹ، فریب، دغابازی اور لوٹ مار کے الزامات بکثرت لگاتے ہیں۔ ان الزامات کی وجہ سے معاشرے میں نفرتیں جنم لیتی ہیں ۔ ماضی میں بنگالی اور غیر بنگالی تنازع نے اتنا طول پکڑا کہ ملک دو لخت ہوگیا۔ اسی طرح قومی اتحاد کی تحریک میں بھی پورا معاشرہ تشدد اور نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔
2013 ء کے انتخابات کے بعد بھی معاشرے میں سیاسی افراتفری پورے عروج پر رہی۔ درجنوں کی تعداد میں لوگ اس سیاسی افراتفری کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ تشدد کی روک تھام کے لیے کوئی بھی موثر حکمت عملی تیار کرتے ہوئے ارباب ریاست وسیاست کو ان محرکات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے جو تشدد پر منتج ہوتے ہیں۔ ان محرکات کو نظر انداز کرکے اگر کوئی پالیسی تیار کی گئی تو یہ تشدد کے دیر پا خاتمے کے لیے موثر اور کارگرنہیں ہو سکے گی۔