ٓ’’آئی ایم ملالہ‘‘اور اس کے مصنفین

ملالہ یوسف زئی کی کتاب پر ہمارے ہاںدھواں دھار بحث شروع ہوچکی۔ اس کی ا بتدا بعض تند وتیز کالموں سے ہوئی اور پھر چینلز کے ٹاک شوز میں مباحث شروع ہوگئے۔ یہ کتاب اب خاصے لوگوں تک پہنچ چکی ، اس میں شامل مواد پر ایک سے زائد آرا ہوسکتی ہیں،مگر سوشل میڈیا پر ملالہ کے حق اور اس کی مخالفت میں موجود بلاگز اور کمنٹس وغیرہ دیکھنے سے مجھے یوں لگتا ہے کہ ملالہ کی شخصیت کی طرح اس کی کتاب بھی متنازع ہوچکی۔ ہمارے خیال میں ملالہ کی کتاب پر پوری غیرجانبداری اور علمی دیانت کے ساتھ بات ہونی چاہیے۔اس کے عیوب کے ساتھ محاسن پر بھی۔ یہ آسان نہیں۔ ہمارے منقسم معاشرے میں کسی ایک سائیڈ پر انتہائی پوزیشن لینا جرأت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ متوازن یا اعتدال کی راہ اپنانا کمزوری بن چکا ہے۔ ’’ آئی ایم ملالہ ‘‘کو پڑھتے ہوئے سب سے زیادہ احساس یہ ہوتا ہے کہ اس میں ملالہ یوسف زئی کی شخصیت کے بجائے سوات کے رہائشی ایک پشتون قوم پرست ٹیچر اور سکول کے مالک ضیاء الدین یوسف زئی کی شخصیت زیادہ نمایاں ہو کر ابھری ہے۔’’آئی ایم ملالہ‘‘ کے ابتدائی ابواب ہمیں ضیاء الدین یوسف زئی نامی شخص کی شخصیت کے مختلف گوشوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لڑکپن میں ضیاء الدین ایک طالب تھا،اس میں مذہبی جذبات نمایاں تھے ۔بعد میں وہ پشتون قوم پرستوں کے حلقے کے قریب ہوگیا۔ ایسا حلقہ جوسابقہ نیپ اور موجودہ اے این پی کے سے سیاسی نظریات کا حامل ہے۔ پشتون قوم پرستی، لبرل ازم اور کسی حد تک سیکولر نظریات کا حامل ۔جو مذہبی عناصر کو پسند نہیں کرتا، انہیں ملا کے نام سے پکارتا اور ان کے خلاف ایک خاص قسم کا رویہ رکھتا ہے۔ سوات کے ایک مخصوص حلقے کی طرح وہ بھی والیان سوات کا مداح اور یہ سمجھتا ہے کہ سوات کے پاکستان کے ساتھ ادغام سے سواتیوں کو کچھ نہیں ملا۔ ایک لبرل سیکولر شخص مذہبی معاملات کو جس طرح دیکھتا اور مختلف عوامل پر جو نقطہ نظر رکھتا ہے، اسلامائزیشن، طالبانائزیشن، توہین رسالت قانون ، اور اس طرح کے بعض دیگر معاملات پر ضیاء الدین یوسف زئی کی آرا بعینہ اسی طرح کی ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہ ضیا ء الدین یوسف زئی ملالہ یوسف زئی کے والد ہیں۔ ملالہ کی شخصیت پر ان کا اثر غیرمعمولی ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ملالہ نے زندگی اور پاکستانی سماج کے کم وبیش ہر معاملے میں وہی رائے اپنائی ہے، جو اس کے والد کی ہے۔ ملالہ کا ’’اختلافی نوٹ‘‘ کہیں نظر نہیں آتا۔ کم از کم اس کی کتاب پڑھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آئی ایم ملالہ کے شریک مصنفین میں کرسٹینا لیمب کے ساتھ ضیاء الدین یوسف زئی صاحب بھی (ظاہر کئے بنا)شامل ہیں۔ یہ ایک لحاظ سے غلط اور علمی بددیانتی کے مترادف ہے۔ ملالہ یوسف زئی کی اس بائیوگرافی کو اس کی اپنی شخصیت کا عکاس ہونا چاہیے تھا۔ اس کتاب کے بعض حصوں میں اس طرز کے بڑے عمدہ ٹکڑے بھی موجود ہیں۔ جہاں جہاں ملالہ نے اپنے ایکسپریشن کو بیان کیا،وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اپنے گھر، گائوں ، پہاڑوں کا نقشہ کھینچنے سے لے کر اپنے والدین کی کردار نگاری، وہ چھوٹے چھوٹے معصوم واقعات جوبچوں سے سرزد ہوتے ہیں۔ جب ایک سہیلی نے اس کا کھلونا چوری کیا تو اس نے جواباً اس کے بعض کھلونے چوری کر کے اپنے باکس میں چھپا لئے، ایک دن ماں کو پتہ چل گیا۔ وہ منظر دل کو چھو لینے والا ہے، جب معصوم بچی بہتے آنسوئوں کے ساتھ اپنی ماں کو کہتی ہے کہ ابا کو نہ بتا نا کہ انہیں تکلیف ہوگی۔ افسوس کہ اس کتاب کو غیر ضروری طور پر… ناقابل فہم طور پر، سنجیدہ سیاسی ، معاشرتی اور مذہبی معاملات میں الجھا دیا گیا۔ ملالہ ایک ذہین بچی ہے، ہم اسے اگر مزید رعایت دیتے ہوئے غیر معمولی ذہین بھی تصور کر لیں ،تب بھی اس کتاب کے کئی حصے ، بیسیوں صفحات اس کے مشاہدے، مطالعے اور سوچ سے تعلق نہیں رکھتے۔ اس میں کرسٹینا لیمب کا نقش بھی گہرا ہے۔ کرسٹینا اچھا لکھنے والی ہے، اس نے مغربی مصنفین کے مخصوص ڈرامائی انداز میں پہلا باب لکھا، قارئین کی دلچسپی پیدا کی اور پھر فلیش بیک میں جاتے ہوئے ملالہ کی کہانی بیان کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ ملالہ کی داستان کو خواہ مخواہ ادھر ادھر گھما پھرا دیا۔کتاب کے بہت سے ایکسپریشن ملالہ کے بجائے کرسٹینا لیمب کے قلم کی پیداوار لگتے ہیں۔زلزلے کی تباہی بیان کرتے ہوئے لکھا گیا کہ متاثرہ علاقہ امریکی ریاست کنکٹی کٹ کے برابر ہوگا۔ یہ اظہار ظاہر ہے ملالہ کا نہیں۔ تاہم انہیں چونکہ ملالہ ، ان کے والد، والد کے دوستوں اورملالہ کے مینٹور اور گرو بی بی سی کے عبدالحی کاکڑ کی منظوری حاصل ہے، جس کا اعتراف ملالہ نے آخری صفحات میں کیا، اس لئے اس کی ذمہ داری صرف کرسٹینالیمب پر نہیں عائد کی جا سکتی۔ چند ایک مقامات پر قاری کو الجھن ہونے کے ساتھ ساتھ کرب کا اظہا ر ہوتا ہے۔ ہمارے پاکستانی سماج میں عام پڑھا لکھا شخص بھی حضور ﷺ کا نام لکھتے ہوئے ﷺیا انگریزی میں PBUHکا مخفف استعمال کرتا ہے۔ اس کتاب میں کہیں ایسی زحمت نہیں کی گئی۔اسی طرح پاکستانی بچے ہوں یابڑے لاشعوری طور پر قائداعظم کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ملالہ کی کتاب میں ہر جگہ جناح کا لفظ لکھا گیاہے، میر ا خیال ہے کہ ملالہ اگر خود لکھتی تو لاشعوری طور پر قائداعظم ہی لکھتی۔ ہر چیپٹر کے شروع میںپشتو اشعار یا ٹپہ درج کیا گیا، جس کا انگریزی ترجمہ بھی ساتھ دیا گیا۔ اس میںکوئی حرج نہیں ،مگر یہ ایسے پشتون قوم پرست لکھاری کے لئے تو درست ہوگاجس کی پشتو ادب پر گہری نظر ہو،سکول کی طالبہ ملالہ کی کتاب میں ایسا کرنا غیر منطقی اور بے جوڑ ہے۔ سب سے حیران کن رویہ ہر ایسے ایشو میں ٹانگ اڑانا رہا، جس کی مغرب میں اہمیت ہو۔ سلمان رشدی مردود کی کتاب ملالہ کی پیدائش سے نو سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم سماج اور خود مغرب میں بھی اس کتاب کو مسترد کیا گیا۔بد بخت رشدی نے کروڑوںاربوں مسلمانوں کا دل دکھایا۔آج کل تو ویسے بھی رشدی کی کتاب آئوٹ آف ڈیٹ اور غیرمتعلق ہوچکی، اس پر تبصرہ کرنے، ایسی شیطانی کتاب کو اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں جواز فراہم کرنے کی کوئی تُک نہیں تھی۔ جس نے بھی یہ پیرا گراف شامل کرایا، اس نے ہم سب کے ساتھ اور خود ملالہ کے ساتھ زیادتی کی۔ یہ سلسلہ آگے بھی بڑھتا ہے۔ پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے بارے میں ناپسندیدہ ریمارکس سے لے کرایک جگہ پر ملالہ کی زبانی یہ کہلوانا کہ آج کل کے حالات سے تو ہم متحدہ ہندوستان میں رہتے تو زیادہ بہتر نہ ہوتا، پھر توہین رسالت کے مقدمے میں سزا یافتہ آسیہ بی بی کیس کا تذکرہ، اسامہ بن لادن پر امریکی حملے کے حوالے سے فورسز ، ایجنسیز کے خلاف تبصروں تک ہر موضوع زیر بحث لایا گیا۔ اگر کسی موضوع کو چھوڑا گیا تو وہ ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والا کھلا ظلم اور ڈرون حملوں کے ذریعے ہونے والی ہلاکتیں ہیں۔ مغرب میں درد دل رکھنے والے ڈرون پر دستاویز فلمیں بنا رہے ہیں، ان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ پشتون قوم پرستی پر نازاں ملالہ جو خود کو سواتی اور پشتون پہلے اور پاکستانی بعد میں قرار دیتی ہے، اس نے ڈرون سے مرنے والے پشتونوں سے اظہار ہمدردی کی زحمت ہی نہیں کی، شائد اس لئے کہ امریکی اور برطانوی حکومتوں اور وہاں کی طاقتور لابیوں کو یہ گوارا نہیں۔ اس کتاب کے بعض حصے خوبصورت ہیں، مگر مجموعی طور پر یہ مغربی قارئین کے لئے لکھی گئی۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ شائد ملالہ اور اس کے خاندان نے یہ محسوس کر لیا کہ ان کے لئے اب سوات یا پاکستان میں رہناممکن نہیں،ا س لئے انہوں نے مغرب میں اپنا مستقبل بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ یہ اس لحاظ سے افسوسناک ہے کہ ملالہ کے حامی صرف لبرل اور سیکولر نہیں بلکہ اعتدال پسند پاکستانیوں کو بھی ملالہ کے روپ میں ایک اہم علامت نظر آئی تھی۔ اثر لکھنوی نے اردو کے مشہور رومانوی شاعر اسرارلحق مجاز کے بارے میں کہا تھا، ’’اردو شاعری میں مجاز کے روپ میں ایک کیٹس پیدا ہواتھا، افسوس کہ ترقی پسندوں کے بھیڑیے اسے اٹھا کر لے گئے۔‘‘ افسوس کے ساتھ یہی بات ملالہ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی کے لئے پاکستان میں سماجی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کرنے کی گنجائش تھی، اس کے اپنے بہی خواہوں نے وہ ختم کر دی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں