آج کی دنیا میں جہاں بھی رہیں‘ ایک کھلی کتاب ہے‘ ایسی کہ ناخواندہ بھی اسے پڑھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی سکرین جنگلوں‘ کھیتوں‘ پہاڑوں یا گھر کی چار دیواری میں کھول کر پڑھیں تو سب کچھ نظر آرہا ہے۔ اب خبریں لائی نہیں جاتیں‘ خود آجاتی ہیں‘ اور ایسی تیز رفتاری سے اور اکثر بلااجازت کہ ہم نہ دیکھنا یا نہ سننا چاہیں‘ وہ ہمیں گھیرے رکھتی ہیں۔ اس تبدیل شدہ اور فاسٹ فوڈ کی طرح ہر دم دستیاب ابلاغ نے عام آدمی کے علم اور شعور میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ عام لوگ ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں جن کی تقدیر ہمارے ہاتھ میں اب نہیں رہی‘ اپنی بیچارگیوں کا موازنہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ایسی مہارت سے کرتے ہیں کہ تقابلی سیاست کے منجھے ہوئے اساتذہ بھی نہ کرسکیں۔ ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہوں یا خلیج کی وہ ریاستیں جن کے باشندوں کو میں نے بچپن میں ہر سال ہمارے دیہات میں گشت کرکے خیرات لیتے دیکھا ہے‘ اب ان کی معیشت‘ ترقی‘ طرزِ زندگی‘ سرمائے اور اثرورسوخ سے کون واقف نہیں۔ ''دبئی چلو‘‘ کئی عشروں سے جنوبی ایشیا کے غریب اور زیر یں متوسط طبقے کے لیے معاشی مستقبل بہتر بنانے کا استعارہ بن چکا ہے۔ خطے کے کم از کم دوممالک ایسے ہیں جن کا نام لینا بھی شاید ہمارے حکمرانوں کو گوارہ نہیں‘ دیکھتے ہی دیکھتے اس تیزی سے آگے نکلے ہیں کہ ہم اب مقابلوں کی باتیں کریں تو اپنے ہی لوگ ہنسنا شروع کردیتے ہیں۔ دنیا کی ترقی‘ خوشحالی اور کروڑوں افراد کا تعلیم‘ صحت اور فلاحی پالیسیوں کی بدولت خطِ غربت سے اُوپر اُٹھ کر اپنا مقام بنانا سب پر واضح ہے‘ اب اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ ہم جتنی مرضی آنکھیں بند رکھیں‘ یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ہمارا تو پیشہ ہی ایسا ہے کہ تاریخ اور دورِ حاضر میں دنیا میں رونما ہونے والے انقلابوں اور ان کے محرکات اور سماج‘ سیاست اور عالمی طاقت کے توازن پر اثرات کو سمجھنا ناگزیر ہے۔
ایک نہیں کئی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی وجوہات ہیں جنہوں نے قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے‘ اسی طرح ہمارے اور کچھ دیگر ممالک کے زوال کے اسباب ایک نہیں بہت زیادہ ہیں۔ جو بات تاریخی طور پر ثابت ہوچکی ہے‘ اورمسلمہ ہے‘ وہ سیاسی طاقت کے حصول کا طریق ِکار‘ اس کا استعمال‘ حدودوقیود اور جواب دہی کے بارے میں اصول طے کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جو معاشروں میں استحکام‘ تسلسل اور ترقی کے امکانات پیدا کرتے ہیں۔ یہ اصول ہم ملکوں کے دستور اور اس کے مطابق سیاسی کلچر کی تشکیل اور آئینی اور اخلاقیات کی صورت دیکھتے ہیں۔ جدید ریاستوں کی بنیاد یہی اصول ہیں۔ یہاں مقصد کوئی سیاسی مقالہ لکھنا نہیں‘ صرف اتنی گزارش ہے کہ اقتدار کا حصول کسی بھی ریاست میں متنازع رہے تو استحکام‘ قومی ہم آہنگی اور ترقی دیوانوں کا خواب بن جاتی ہے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہ ہمارے ہاں ہے اور نہ ہمارے جیسے دیگر ممالک میں کہ اصول طے ہونے کے باوجود طاقتورلوگ انہیں ردی کی ٹوکری میں ڈال کر بار بار اعلان کرتے رہے ہیں کہ ہمیں ترقی اور استحکام کے لیے کچھ اور طریقے استعمال کرنا ہوں گے۔ سیاسی اخلاقیات کا دیوالیہ پن دیکھیں کہ طے شدہ اصولوں سے انحراف کو ہمارے موروثی سیاسی خاندانوں نے وقت کی ضرورت تسلیم کیا ہے۔ وہ کئی قدم آگے بڑھ کرہر اول دستوں میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ اس کھیل میں صرف دوبڑے سیاسی خاندان نہیں سینکڑوں ہیں جو بار بار وفاداریوں کی قسمیں کھا کر اقتدار میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ سیاسی اخلاقیات کی بات کرنا اب ہمارے ملک میں عجیب سی بات لگتی ہے۔ عام دانشور سے لے کر سیاسی کارکنوں اور سیاسی عہدوں پر براجمان خواتین وحضرات ایسی بے تکی باتیں کرتے نہیں تھکتے کہ ''سیاست کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔‘‘ مطلب یہ ہوا کہ آپ سیاست کے نام پر جو کچھ کرنا چاہیں‘ کرگزریں۔ ہمارے جیسے ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے تو اسی لیے ہم آگے نہیں بڑھ سکے۔ سیاسی اخلاقیات کی بنیاد آئین‘ قانون اور متفقہ سیاسی روایات پر استوار ہوتی ہے۔ ان کے بغیر کوئی سیاسی نظام نہیں چل سکتا‘ البتہ ڈھکوسلے‘ دھاندلیاں‘ جھوٹ اور جبر کی حکومتیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں۔ دُورجانے کی کیا ضرورت ہے‘ کچھ اپنے اندر جھانک کر دیکھ لیں۔ سیاسی طاقت کی جائزیت سے انحراف سے جو حکومتیں ہماری تاریخ میں بنیں‘ وہ ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے جو کچھ چھوڑ گئی ہیں‘ وہ وہی کچھ ہے جسے دیکھ کر ہم پڑوسی ممالک اور دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھتے ہیں اور خود کو کتنا بے بس پاتے ہیں۔
کچھ اور دیوانہ پن کی بات بھی ہوجائے کہ نگران حکومت‘ جس کا قانونی دورانیہ 90 دن اور بنیادی حیثیت ایک غیر جانبدار عبوری حکومت کی ہوتی ہے اور مقصد صرف انتخابات کا انعقاد‘ کے دور میں ضرورت سے زیادہ گندم درآمد کر لی گئی اور اس کی مد میں سینکڑوں ارب روپے کا قوم کا خسارہ ہوا اور اتنا ہی ہمارے کاشتکاروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ مستفید کون ہوا؟بظاہر نگران حکومت کے کلیدی کل پرزے‘ بڑے بڑے سرکاری افسران اور ایسے سودوں میں ملوث منافع خور مافیا۔ ابھی تک کسی کا بال بیکا نہیں ہوا۔ ظلم تو یہ ہے کہ کسی کانام بھی نہیں لے سکتے جبکہ سب کو معلوم ہے کہ کون کون اس قومی ڈاکے کا ذمہ دار ہے۔ آئینی جائزیت سے بار بار انحراف ہمارے ملکوں میں ایسی ہی سیاسی اخلاقیات کو رواج دیتا ہے۔ ہماری قومی زندگی کاکون سا شعبہ ہے جو اخلاقی دیوالیہ پن اور انحطاط کا شکار نہیں۔ دکھ سے کہتا ہوں کہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ بھی اب ایسی ہی پیشہ ورانہ دھاندلیوں کا شکار ہے۔ اوپر سے سب کے لیے کھلی چھٹی اور آزادی۔اس طرح تو ریاست اور حکومت کے سبھی اداروں سے لے کرعام لوگوں تک اخلاقیات کا معیار یہی ہوگاکہ مجھے کیوں پوچھتے ہو‘ دوسروں کی پہلے خبر لو۔
زوال ریاست کا ہے۔ یہ کہتے اور لکھتے ہوئے دل کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کچھ دانشور عالمی کانفرنسوں میں ہمارے زوال کی بات کرتے تو خون کھول اُٹھتاتھا اور ہم سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے اور دفاع کرتے تھے۔ آج ہم ان کی صف میں خود کو پاتے ہیں کہ اگر اب بھی آواز نہ اٹھائی تو خدا جانے ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ کچھ اشارے کرنے سے بھی گریز ہے‘مگر مجبور ی بھی ہے۔ سوویت یونین کو کسی نے نہیں توڑا تھا۔ وہ ایک سپر پاور اور دنیا کی بڑی فوج اور ایٹمی اسلحہ سے لیس تھا۔ اس کی سلطنت میں تمام وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ تھا‘ اوریوکرین بھی‘جس کے ساتھ وہ دوسال سے حالتِ جنگ میں ہے۔ کسی نے باہر سے کوئی حملہ نہیں کیا تھا۔ کوئی امریکی سازش بھی ابھی تک نہیں پکڑی گئی‘ سوائے سرد جنگ کے دوران پروپیگنڈے کے۔ وہ نظام جس نے ایک زرعی‘ جاگیردارانہ معاشرے کو عالمی طاقت بنایا تھا‘ اپنی جائزیت‘ افادیت اور اخلاقی حیثیت کھو چکا تھا۔ صرف طاقت ہی رہ گئی تھی‘ وہ کئی بار استعمال ہوچکی تھی۔ اور وہ بھی گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا نہ دے سکی۔ اس سے بڑی بربریت اور ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ دہائیوں سے سکینڈلوں پر سکینڈل اور ہر نوع کی دھاندلیوں پر دھاندلیاں ہوئی ہوں اور ان میں ملوث لوگ معتبر بھی ہوں‘ اقتدار میں بار بار آئیں اور سچ اور جھوٹ کے معیار بھی وہی قائم کریں۔ زوال کی کہانی کا یہ صرف ایک ورق ہے۔