دنیا میں جو بھی آیا ہے اس کو ایک دن دنیا سے ضرور جانا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآنِ مجیدکے متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الرحمن کی آیات 26 تا 27 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہر چیز جو زمین پر ہے‘ فنا ہو جانے والی ہے۔ اور باقی رہے گی ذات تیرے رب کی‘ جو عظمت و انعام والا ہے‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ قصص کی آیت نمبر 88 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس (رب) کی ذات کے۔ اسی کے لیے ہے فرمانروائی اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 185 میں ارشاد فرمایا: ''ہر جان کو چکھنا ہے مزا موت کا اور پس دیے جائیں گے تم کو پورے اجر‘ تمہارے( اعمال کے) بروز قیامت‘ پس جو بچا لیا گیا آگ سے اور داخل کر دیا گیا جنت میں تو بے شک کامیاب ہو گیا وہ‘ اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر محض سامان دھو کے کا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے اس بات کو جانچناکچھ مشکل نہیں کہ جو بھی دنیا میں آیا ہے اس کو فنا کا جام پینا پڑے گا۔ لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا دنیا سے رخصت ہونا یقینا دنیا والوں کے لیے نقصان کا سبب ہوتا ہے اور ان کے جانے سے بہت بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ باعمل علماء کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ علمائے حق اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کرتے‘ اس کے دین کی نشر و اشاعت میں مصروف رہتے اور عوام الناس کو نفع بخش علم فراہم کرتے ہیں۔ علماء کی رحلت یقینا کسی بھی معاشرے کے لیے بہت بڑا المیہ ہے۔
ہفتے کا روز اپنے دامن میں انتہائی دکھ بھری خبر کو لے کر آیا کہ عالم باعمل اور خطیب بے بدل مولانا مفتی مبشر احمد ربانی ایک طویل بیماری کے بعد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ مولانا مبشر ربانی ایک جید عالم دین تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کیا ہوا تھا اور بیک وقت قلم اور زبان کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی نشر و اشاعت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ لوگ ہمہ وقت آپ کی تقاریر اور تحاریر سے مستفید ہوتے تھے۔ سائلین کی بڑی تعداد آپ کے پاس آ کر سوال کرتی اور آپ ان سوالوں کا کتاب و سنت کی روشنی میں بھرپور انداز سے جواب دیا کرتے تھے‘ جس کے سبب عوام الناس کو کتاب و سنت کے حوالے سے مفید معلومات حاصل ہوتی رہتیں۔ مفتی مبشر ربانی صاحب نے جہاں اپنی زندگی میں سینکڑوں تقاریر‘ خطبات اور دروسِ قرآن ارشاد فرمائے‘ وہیں آپ نے بہت سی کتابیں بھی لکھیں۔ آپ کی کتابیں دلائل سے آراستہ اور پیراستہ اور پڑھنے والوں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتی تھیں۔ مجھے جامعہ پنجاب میں پی ایچ ڈی کے کورس ورک کے دوران اس بات کا اندازہ ہوا کہ یونیورسٹی کے قابل اساتذہ بھی آپ کی کتابوں سے بڑے احسن انداز سے استفادہ کرتے ہیں۔
مولانا مفتی مبشر ربانی صاحب جہاں ایک باعمل اور پُراثرعالم تھے‘ وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بھی نوازا تھا۔ آپ اپنے چاہنے والوں اور معتقدین کے ساتھ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے اور اپنے ہم عصر علماء کے اکرام اور احترام میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ آپ کے اخلاق کی وجہ سے لوگ دور دراز سے آپ سے ملاقات کرنے آپ کے پاس آیا کرتے تھے۔ مجھے بھی کئی مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضری کا موقع میسر آیا۔ میں جب بھی کبھی آپ کو ملنے جاتا‘ انتہائی پیار اور محبت کے ساتھ آپ میرا استقبال کرتے۔ کئی مرتبہ مجھے مرکز الحسن میں خطاب کی دعوت بھی دی۔ میں اپنی بساط اور استعداد کے مطابق آپ کی موجود گی میں عوام الناس کے ساتھ خطاب کرتا اور آپ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرماتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو مہمان نوازی کے اعلیٰ اوصاف سے بھی نوازا تھا۔ آپ اپنے مرکز میں تشریف لانے والے لوگوں کی بھرپور طریقے سے ضیافت فرمایا کرتے تھے۔ جب آپ گفتگو کرتے تو آپ کی گفتگو میں نرمی‘ شگفتگی اور محبت کا پہلو نمایاں ہوتا تھا۔ آپ کے ان اعلیٰ اوصاف کو دیکھ کر انسان آپ کی عظمت کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
ہر انسان کی زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ انسان کی زندگی میں کبھی آسانیاں ہوتی ہیں تو کبھی تنگیاں۔ کبھی خوشیاں ہوتی ہیں تو کبھی تلخیاں۔ مولانا مبشر ربانی لگ بھگ ساڑھے چار سال سے بیمار تھے اور فالج کے حملے نے آپ کے وجود کو بری طرح متاثر کیا تھا لیکن اس کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو جو دلآویز شخصیت عطا کی تھی اس کی دلکشی میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ آپ اس ابتلا کی حالت میں بھی ہمیشہ مسکراہٹ اور شگفتگی کے ساتھ لوگوں سے پیش آتے اور جب بھی کبھی آپ کی طبیعت دریافت کی جاتی‘ آپ ہمیشہ اطمینان اور اچھی کیفیت کا اظہار کرتے اور اپنی بیماری کے بارے میں کبھی کسی تلخی یا شکوے و شکایت کا اسلوب اختیار نہ کرتے۔ آپ کے اس رویے کی وجہ سے انسان آپ کی شخصیت کا مزید معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر‘ نرمی اور استقامت کے عظیم اوصاف سے نوازا تھا‘ جو کسی بھی عالم کی شخصیت کو مزید اجاگر کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
ہفتے کے روز مجھے اطلاع ملی کہ مولانا مبشر ربانی شدید بیمار ہیں‘ جب مجھے اس بات کی اطلاع ملی تو مجھ پر رقت کی کیفیت طاری ہو گئی اور دل کی گہرائیوں سے آپ کی سلامتی اور عافیت کے لیے دعا نکلی لیکن جب پیغامِ اجل آ جاتا ہے تو اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والے امر کو ٹالنا انسانوں کے بس کی بات نہیں رہتی۔ مولانا مبشر ربانی کو ہسپتال منتقل کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن آپ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کے انتقال کی خبر آپ کے چاہنے والوں کے لیے ایک بہت بڑے صدمے کا سبب تھی اور ہر شخص نے اس بات کو محسوس کیا کہ ایک عظیم انسان اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا ہے۔
علماء نے آپ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ مولانا کی نمازِ جنازہ اتوار کے روز لاہور میں سبزہ زار میں‘ آپ کے مرکز اور اس سے متصل پارک میں ادا کی گئی۔ نمازِ جنازہ عصر حاضر کے مشہور اور جید عالم دین مولانا مسعود عالم صاحب نے پڑھائی۔ جنازے میں علماء‘ طلبہ اور آپ سے محبت کرنے والے افراد نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔ جنازے کے دوران ہر شخص پر رقت طاری تھی اور وہ دل کی گہرائیوں سے آپ کے لیے دعاگو تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے‘ آپ کو غریقِ رحمت کرے اور آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔
مولانا اس اعتبار سے خوش نصیب انسان ثابت ہوئے کہ آپ نے اپنے ورثا میں دو عالم فاضل بیٹے چھوڑے‘ جو آپ کی زندگی ہی میں آپ کے معاون تھے اور دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی اس بات کی امید و توقع ہے کہ وہ مولانا کے مشن کو جاری و ساری رکھیں گے اور کتاب و سنت کی دعوت کو دنیا کے ہر مقام پر پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ مولانا کے جنازے میں جس والہانہ انداز سے عوام نے شرکت کی اور جس طرح آپ کے لیے گڑگڑا کر دعائیں مانگیں‘ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یقینا باعمل علماء کے بچھڑ جانے کا غم ہر شخص اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مولانا کے حسنات کو قبول فرمائے‘ ان کی سئیات سے درگزر فرمائے اور ان کے لیے آخرت کی منزلوں کو آسان بنائے۔ مولانا نے جس طرح دین کی نشر واشاعت کا فریضہ انجام دیا‘ جس انداز میں زندگی گزاری اور جس طریقے سے آپ کتاب و سنت کی خدمت کے لیے وقف رہے‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مل کر اس مشن کو جاری و ساری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین!