وفاقی دارالحکومت میں نئے چیف کمشنر نے منصب سنبھال لیا ہے۔ ہم‘ شہر کے مکین‘ نئے والیٔ شہر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں دستور عجیب ہوتا تھا۔ شہر کے صدر دروازے سے علی الصبح داخل ہونے والے اجنبی کو حکومت سونپ دی جاتی تھی۔ بقول شاعر
میں جب ساحل پہ اُترا خلق میری منتظر تھی
کئی دن ہو گئے تھے‘ بادشہ ملتا نہیں تھا
مگر یہ داستانوں کی باتیں ہیں۔ اب وہ شہر رہے نہ اُن کے صدر دروازے! اب افسر کئی چھلنیوں سے گزر کر شہر کا والی مقرر ہوتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئے چیف کمشنر صاحب ایکTypical بیوروکریٹ کی طرح شہر کے باشندوں سے دور رہنے کی روایت پر عمل پیرا نہیں ہوں گے۔ ان کے پیشرو کو خدا خوش رکھے! اُن سے رابطہ کرنا یا ان کی توجہ حاصل کرنا جو بائیڈن سے بات کرنے سے زیادہ مشکل تھا۔ اسلام آباد کے وسطی حصے میں ایک مسئلہ آن پڑا جو ارد گرد بسنے والوں کے لیے سوہانِ روح تھا۔ بیچارے لوگ رپورٹر یا کالم نگار کو کہتے ہیں کہ‘بھئی! حکام تک ہماری بات پہنچاؤ! رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اس حصار سے جو اُس وقت کے چیف کمشنر صاحب کے گرد قائم تھا‘ گزرنا ناممکن تھا۔ سو کالم لکھا۔ کچھ نہ ہوا۔پھر کالم ان کی خدمتِ عالیہ میں ارسال کیا۔ صاحب بہادر نے ماتحتوں کے ماتحت تک سے جواب نہ دلوایا! وہ تو بھلا ہو‘ اُس وقت کے سیکرٹری داخلہ جناب اکبر درانی کا‘ کہ ریٹائرمنٹ پر جاتے جاتے مسئلہ حل کر گئے۔ اکبر درانی بھی کیا آدمی ہیں! نایاب موتی! افسری کی خو بو نہ کسی قسم کا احساسِ تفاخر! فون کا جواب دیتے‘ بات توجہ سے سنتے! شاید ایسے ہی چند مردانِ کار ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک‘ تلاطم میں گھری یہ بادبانی کشتی‘ چلے جا رہی ہے!! سچ تو یہ ہے کہ جو سرکاری افسر کسی سے ملتے ہیں نہ رابطہ کرنے والے کو جواب دیتے ہیں‘ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں! اور یہ بنیادی حقیقت تو ہم سب جانتے ہیں کہ احساسِ برتری کوئی شے نہیں ہوتی! احساسِ برتری‘ اصل میں‘ احساسِ کمتری ہی کا شاخسانہ ہے! پچاس دہائیاں پہلے ہم جب سول سروس کے گھاٹ پر اُترے تھے تو نصیحت گروں نے نصیحت کی تھی کہ دو کام کرتے رہو گے تو فائدے میں رہو گے۔ایک یہ کہ ہر ملاقاتی سے ضرور ملو‘ خواہ اس کی باری دیر ہی سے کیوں نہ آئے اور سماجی رتبہ اس کا جو بھی ہو۔ اس سے درست فیڈ بیک ملے گی! ماتحت جو فیڈ بیک دیں گے وہ تحریف شدہ ہو گی‘ خالص نہیں ہو گی! دوسرے یہ کہ‘ ڈاک ہر روز کی خود دیکھو کہ یہ بھی ایک مدد گار بیرو میٹر ہے۔ ہمارے ایک باس ڈاک دیکھتے تھے تو کوئی ریمائنڈر ہوتا تھا تو اس پر لکھتے تھے :I hate to receive reminders۔ سکینڈے نیویا کے کسی ملک کے حوالے سے پڑھ رہا تھا کہ وہاں وزیر کی ڈاک‘ سب سے پہلے‘ صحافی کھولتے اور پڑھتے ہیں!
ہر چہار جانب سے مسائل میں گھرے اسلام آباد کے نئے چیف کمشنر مثبت شہرت کے مالک ہیں۔ پہلا سرکاری دورہ انہوں نے فیصل مسجد کا کیا ہے اور اس کی تزئین و آرائش کا کام جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ فیصل مسجد یقینا اسلام آباد کا اہم لینڈ مارک ہے اور اس کی مذہبی‘ ثقافتی اور معاشرتی اہمیت مسلمہ ہے۔ مگر شہر کے سلگتے مسائل وہ ہیں جن سے عوام کو سابقہ پڑتا ہے۔ میلوڈی مارکیٹ جو شہر کا دل ہے اور سوِک سنٹر کہلاتا ہے‘ غلاظت کا ایک عبرتناک ڈھیر بنا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم غیر ملکیوں کو یہ سوِک سنٹر فخر سے دکھاتے تھے‘ اب کوشش کرتے ہیں کہ غیر ملکی مہمان کہیں وہاں چلا نہ جائے!! یہ تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے‘ کینیڈا سے ایک سکھ دوست آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یوں تو چندی گڑھ بھی نیا اورPlanned شہر ہے مگر اسلام آباد صفائی کے حوالے سے بر تر ہے! اس برتری کو ہماری نا اہلی کھا گئی! میلوڈی مارکیٹ اس وقت گندگی میں ٹاپ پر ہے۔ نالیاں عفونت بھرے پانی سے اُبل رہی ہیں اور ان کے درمیان‘ لوگ ریستورانوں کے سامنے بیٹھے کھانے کھا رہے ہیں! ہر طرف گٹر ہی گٹر ہیں! نیشنل بینک والی سائڈ پر ڈھابوں کی وجہ سے ساری جگہ تھرڈ کلاس لاری اڈہ لگتی ہے! خوانچہ فروشوں نے جگہ جگہ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائی ہوئی ہے۔ جی پی او اور فوڈ پارک سے لے کر حبیب بینک تک‘ پورا سوک سنٹر ایک بہت بڑاSlum لگتا ہے‘ کچی آبادی کا ایک بد نما محلہ! سوِک کم اور سنٹر زیادہ! گندگی کا سنٹر!
ہم عرض کریں گے کہ چیف منسٹر‘ شہر کے اس غلیظ مرکز کا دورہ‘اپنے ماتحتوں کو بتائے بغیر‘ بھیس بدل کر‘ ایک عام شہری کی حیثیت سے کریں! اگر ان کے دورے کا علم ان کے ادارے کو یا ان کے دفتر کو ہو گیا تو خرانٹ اہلکار‘ گَرگ ہائے باراں دیدہ‘ راتوں رات‘ پوری جگہ کی شکل‘ بدل دیں گے۔ مگر یہ عارضی میک اَپ‘ افسر کے دورے کے بعد دھُل جائے گا اور دوسرے دن پھر وہی مکروہ صورتِ حال ہو گی جو تھی!
چیف کمشنر صاحب اسلام آباد کے سب سے بڑے اور سب سے پرانے بازار‘ آبپارہ‘ کا دورہ بھی ضرور کریں! یہاں محشر بپا ہے۔ سارے کے سارے فٹ پاتھ‘ سو فیصد‘ تجاوزات کے جبڑوں میں جا چکے ہیں۔ دکانوں سے زیادہ ٹھیلے ہیں۔ ٹھیلوں سے زیادہ زمین پر لگے ہوئے سٹال! چلنے کی جگہ ہے نہ رُکنے کی! صفائی عنقا ہے۔ بے ترتیبی سکہ رائج الوقت ہے! خدا کرے کہ نئے حاکمِ شہر چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آ ہوں! ہم تو فقیر ہیں! دیوار کے سائے میں بیٹھے خوش ہیں اور ہر سانس کے ساتھ اُس پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے قناعت اور بے نیازی بخشی! کوئی ذاتی غرض نہیں! شہر اور شہریوں کا بھلا چاہتے ہیں! بقول میر تقی میر: فقیرانہ آئے صدا کر چلے!!
پس نوشت۔محترمہ عظمیٰ بخاری ایک منجھی ہوئی شائستہ مزاج سیاستدان ہیں۔گفتگو کرنے کا ڈھنگ جانتی ہیں۔ بحث کرتے وقت دلائل پر تکیہ کرتی ہیں۔قانون کے اونچے نیچے راستوں سے بھی آشنا ہیں! ساری باتیں درست ہیں مگر کبھی کبھی دورانِ گفتگو ایسی بات کہہ جاتی ہیں جو حقیقت کے بھی خلاف ہوتی ہے اور منطق کے بھی! چند دن ہوئے روا روی میں پانچ سو اور آٹھ سو کے سوٹ والی بات کہہ ڈالی۔ سوشل میڈیا ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ پرسوں سید عمران شفقت کی بیٹھک والے پروگرام میں انہیں اس کی تشریح کرنا پڑی اور صفائی پیش کرنا پڑی۔ پرسوں پھر انہوں نے ایسی بات کہہ دی کہ بقول استاد قمر جلالوی۔
یہ ایسی بات ہے جو درگزر نہیں ہوتی
یہ بات کہ '' (ن) لیگ کے قائد نواز شریف اس وقت پاکستان کے وزیراعظم بھی ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہیں!‘‘ درست نہیں ہے۔ اول تو انہیں قائد کہہ کر‘ اُسی سانس میں صوبے کا وزیراعلیٰ ثابت کر کے ان کی اپنی حیثیت ہی کو نیچے لا رہی ہیں! دوسرے‘ وہ وزیراعظم ہیں نہ وزیراعلیٰ! جو وزیراعلیٰ ہے وہی وزیراعلیٰ ہے اور جو وزیراعظم ہے وہی وزیراعظم ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے دفاتر سے جو احکام صادر ہوتے ہیں‘ کیا ان پر بڑے میاں صاحب کے دستخط ہوتے ہیں؟ آخر ہم شخصیت پرستی کے کنوئیں سے کب باہر نکلیں گے؟ ایسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں جنہیں سُن کر اپنے بھی زیرِ لب مسکرانے پر مجبور ہو جائیں! ملک کے لیے کوئی ناگزیر نہیں! جب آپ دوسروں کو کلٹ(Cult) کہتے ہیں تو ذرا سنبھل کر قدم رکھیے‘ کہیں خود بھی تو اسی جانب نہیں مُڑ رہے؟ و ما علینا الا البلاغ!