اخبارات میں لکھنے والوں کو قارئین کے ایک حلقے کی جانب سے ایک سوال یا اعتراض کا ہمیشہ سامنا رہتا ہے۔ جب کسی حکومتی پالیسی یا حکومتی ادارے پر تنقید کی جائے، ان کی کمزوریوں کی نشاندہی ہو تو بعض لوگ ایک فقرہ ضرور دہراتے ہیں: '' تنقید کرنا آسان ہے، اصل بات اس کا حل تجویزکرنا ہے۔ جو تنقید کرے، وہ اس کا حل بھی بتائے‘‘۔ کالموں کا یہ سلسلہ اسی مقصد کے لیے شروع کیا ہے۔
بات بڑی سادہ سی ہے، پاکستانی ریاست اور قوم حالت جنگ میں ہے۔ کیا ہماری تیاری اور رویہ کسی جنگ میں شریک ملک جیسا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ ہمارے حکومتی اداروں، وفاقی وزرا کی کارکردگی، صوبائی حکومت، صوبائی وزرائے اعلیٰ کے ایجنڈے، ان کی ''پھرتیوں‘‘ کو دیکھ کر کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، جس میں پچاس ہزار سے زیادہ قیمتی جانیں جا چکی ہیں۔ میٹرک تک کی تعلیمی سطح رکھنے والا فرد بھی آسانی سے بتا سکتا ہے کہ پاکستان کی ہر صوبائی حکومت اپنے اپنے چکروں میں الجھی ہے، ہر ایک کا الگ ایجنڈا اور سیاست ہے۔ سندھ حکومت کی سرتوڑ کوشش ہے کہ اپنے خاص بندوںکوکرپشن کے الزامات سے بچا لیا جائے، چاہے پورے عدالتی نظام کو تباہ کرنا پڑے۔ بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ کے لیے چیف منسٹر کا ٹیگ لگوانا سب سے اہم تھا، چاہے اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے، وہ ہر حد تک جانے کو تیار تھے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے اپنے دھان پان جسم میں پنجابی ولن کی طاقت بھرتے ہوئے جوشیلی بڑھکیں مارنے سے بھی گریز نہیں کیا، مقصد صرف یہ تھا کہ انہیں صوبائی حقوق کا چیمپیٔن سمجھا جائے۔ پنجاب میں سیکڑوں ارب روپے بے مقصد پراجیکٹس میں جھونکے جا رہے ہیں، پورے صوبے سے فنڈز لا کر لاہور میں کنکریٹ، لوہے کے دیو ہیکل ستونوں پر استوار فلائی اوورز، ٹرین روٹ کا سلسلہ بنایا جارہا ہے۔ پلوں کا طویل سلسلہ بنایا جا رہا ہے۔ اورنج ٹرین پراجیکٹ، جس کے بغیر لاہوریے دس سال مزید گزار سکتے تھے، اس پر ڈیڑھ دو سو ارب روپے اڑائے جا رہے ہیں، مگر شہر میں لا اینڈ آرڈر درست کرنے کے لیے پانچ دس ارب بھی نہیں۔
یہی حال مرکز کا ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ کے پاس نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے پیسے نہیں، نیکٹا کو فعال نہیں بنایا گیا کہ بجٹ نہیں، جبکہ سیکڑوںارب روپے سیاسی رشوت نما پراجیکٹس کے لیے مختص ہیں۔کیا اسی طرح جنگ لڑی جاتی ہے؟ جواب ایک بار پھر نفی میں ہے۔ بھائی لوگو! اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ہے تو سربلند زندہ قوموں کی طرح کھڑے ہوکر نئی حکمت عملی بنانی ہوگی، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے پوری قوت اور وسائل کھپانے ہوںگے، تب ہی کچھ ہوسکے گا۔
سب سے پہلے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح کو زیادہ وسیع اور بامعنی بناتے ہوئے اسے''لاقانونیت کے خلاف جنگ‘‘(War Against Lawlessness) قرار دینا ہوگا۔ دہشت گردی ایک مخصوص مدت کا ایشو ہے، تاہم اگر ہم اپنے ریاستی ڈھانچے کو لاقانونیت کے خلاف مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے میںکامیاب ہوگئے تو ہمارا پورا معاشرہ پرامن ہوجائے گا اور ہم منظم وغیر منظم دونوں اقسام کی دہشت گردی کا خاتمہ کر دیںگے۔ اس وقت ہمیں تین چار سطحوں پر لڑائی درپیش ہے۔ سب سے خطرناک تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی وغیرہ کی دہشت گردی اور ان کے حملے ہیں۔ اس پر الگ زیادہ تفصیل سے بات ہوگی، لیکن یہ یاد دلاتے چلیں کہ بلوچستان میں پروانڈین بلوچ شدت پسندوںکی دہشت گردی ایک الگ قسم کا خطرہ ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذرکی بی ایل ایف، حیربیار مری کی بی ایل اے، اس کے بھائی مہران بلوچ کی یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور براہمداغ بگٹی کی بی آر اے کی صورت میں چار نمایاں عسکریت پسند تنظیمیںفعال ہیں، فورسز کو وہ نشانہ بناتے اور نہتے غریب مزدوروں کو قطاروں میں کھڑا کر کے گولیوں کا نشانہ بنا کر دہشت پھیلاتے ہیں۔ پچھلے پانچ چھ برسوں میں ڈیڑھ ہزار سے زیادہ عام افراد بے دردی سے قتل کیے جا چکے ہیں۔ جو لوگ مزدوروںکو کیمپوں سے نکال کر اور مسافروں کو بسوں سے اتارکر شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد گولیوں سے بھون ڈالتے ہیں وہ ''ناراض عناصر‘‘ نہیں بلکہ سنگدل وحشی درندے ہیں۔ ان میں اور ظالم پاکستانی طالبان میں کوئی فرق نہیں، عمل دونوںکا خارجیوں والا ہے۔ ایک مذہبی شدت پسندی اور تکفیری بنیاد پر قتل کر رہا ہے تو دوسرا لسانی، نسلی بنیاد پر قتل وغارت کو روا سمجھتا ہے۔ دونوں کا علاج یہی ہے کہ ان کی گردن ماردی جائے۔ ریاست ان کا نیٹ ورک توڑے اور مکمل صفایا کرڈالے۔ دونوں کے سہولت کاروں، انہیں فکری سپورٹ فراہم کرنے والوں، ان کی قتل وغارت کی تاویل کرنے والے لکھاریوں، نام نہاد دانشوروں کو بھی پکڑاجائے۔ مذاکرات صرف پرامن، دستوری جدوجہد کرنے والوں سے ہو سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان عناصر کو واپسی کا راستہ دیا جا سکتا ہے جو دہشت گردوں سے اپنے راستے الگ کر کے امن کی طرف آجائیں اور ریاست کا ساتھ دیں۔
کراچی میں سیاسی جماعتوں کے بھتہ لینے، قتل وغارت کرنے والے مسلح ونگ اور لیاری گینگ وارکی صورت میں دہشت گرد گروہ الگ نوعیت کا مسئلہ ہیں۔ ان کا ہر حال میں خاتمہ کرنا ہوگا۔ رینجرز نے خاصی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور ٹارگٹ کلرزکا خاتمہ ابھی نہیں ہوا۔ ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کا سیاسی وجود باقی رہنا چاہیے مگر ان کے مسلح ونگ ہر حال میں ختم کر دیے جائیں۔ مختلف حکومتی اداروں میں ناجائز بھرتی کر کے جو طاقتور لابیاں بنائی گئی ہیں، انہیں بھی دیکھنا ہوگا، مگر یہ کام سلیقے سے کیا جائے، کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ کراچی میں سٹریٹ کرائم بھی خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے، اسے بھی دہشت گردی کے ضمن میں لینا اور اسی انداز میں ٹریٹ کرنا چاہیے۔ جتنی دہشت اور خوف وہراس ان چھوٹے سٹریٹ کریمنلز نے پھیلایا ہے، وہ عسکری ونگز اور گینگ وارز سے کم نہیں۔
ملک میں جاری دہشت گردی کی چوتھی سطح مختلف شہروں اور قصبات، دیہات میں موجود طاقتور مافیاز، قبضہ گروپوں، بلڈرز مافیا، سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والے ڈیرے داروں اور بدمعاشوں کی ہے۔ ان سب نے پنجاب اور سندھ کے معاشرے کو خاص طور سے پریشان اور ہراساں کر رکھا ہے۔ لاقانونیت پھیلانے والے، ریاستی قوت اور ملکی قوانین کا مذاق اڑانے والے یہ لوگ بھی ایک طرح کے دہشت گرد ہیں۔ ان کے خلاف ریاستی قوت کو پوری طرح سے بروئے کار آنا چاہیے۔ ایک سطر میں ملکی پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایسا کرنے والے کا ''ہاتھ توڑ دیا جائے گا‘‘۔ ریاستی ادارے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں اگر اپنا کام کسی دبائو اور ترغیب وخوف کے بغیر کریں تو نہایت آسانی سے چند مہینوں کے اندر بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرح کا انقلاب برپا ہوسکتا ہے، جو ہر آدمی کونظر آئے اور دل خود گواہی دے کہ واقعی حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف یا یوں کہیے کہ لاقانونیت کے خلاف جنگ میں سب سے پہلی، مضبوط اور پائیدار دفاعی لائن پولیس ہے۔ پولیس کے محکمے کو پرانے انداز میں فعال، منظم اور مضبوط بنانا ہوگا۔ ملک میں کئی سو ارب کے ترقیاتی پروگرام جاری ہیں۔ ہمارے خیال میں حالت جنگ میں مصروف ممالک ایسی عیاشی افورڈ نہیں کر سکتے۔ لوگوں کی جان ومال کا تحفظ، دہشت گردوں اورکریمنلز کے لاتعداد گروپوںکا خاتمہ کرنے کے لیے ہمیں بڑے پیمانے پر فنڈز مختص کرنا ہوںگے۔ لاہورکے شہری بڑی آسانی سے اورنج ٹرین کے بغیر گزار ا کر سکتے ہیں، یہ ڈیڑھ دو سو ارب روپے اگر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر شفاف طریقے سے خرچ کر دیے جائیں تو صرف چھ ماہ کے اندر ملک میں مثالی امن قائم ہوسکتا ہے۔ پولیس کی جڑیں گہری اور عوام میں ہوتی ہیں۔ ہر محلے کے اندر تھانہ ہے، روایتی طور پر ایس ایچ او کی ذمہ داری ہے کہ پورے محلے، ہر گلی پر اس کی نظر ہو، اس کا اپنا مخبری کا نظام ہو جو اسے پل پل کی خبر دے ۔کون محلے میں نیا گھر لے رہا ہے، کتنے کرایہ دار آ گئے ہیں، کون سے چھوڑ گئے ہیں، یہ سب معلومات پولیس کو حاصل رہتی ہیں۔ اس نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ سپیشل برانچ کو نفری اور جدید آلات دیے جائیں۔ سفید پوش مخبروںکے ذریعے معاشرے کے مختلف طبقات پر نظر رکھی جاتی تھی، یہ کام آج کچھ مشکل ضرور ہوگیا، مگر اسے کیا جا سکتا ہے۔ نئی کائونٹر ٹیررازم فورس پر بھاری رقوم خرچ کرنے کے بجائے پولیس سسٹم ٹھیک ہوجائے تو فورسز کے حصے کا بہت سا کام ابتدائی مرحلے میں نمٹایا جا سکے گا۔ علاقے اور لوگوں پرنظر رکھنے کے لیے پولیسنگ ہر حال میں بہتر کرنا ہوگی۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیا شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسی ہونی چاہیے، اس پر اگلی نشست میں بات ہوگی۔