یادوں کا ایک دریچہ

آج لاہور میں پاکستان سُپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کا فائنل کھیلا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں کرکٹ کے شائقین بڑے جوش و جذبے کے ساتھ یہ میچ دیکھنے والے ہیں۔ امید یہی ہے کہ آج سٹیڈیم میں تِل دھرنے کو جگہ باقی نہیں ہو گی کیونکہ اس میچ کے تمام ٹکٹ پہلے ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو چکے ہیں۔ پاکستانیوں کے پسندیدہ کھیلوں میں کرکٹ آج بھی سرِ فہرست ہے۔ ہمیں پاکستان کی تاریخ ساز فتح کے حوالے سے کرکٹ کا جو میچ یاد ہے وہ 1954ء میں انگلستان میں کھیلا گیا تھا۔ ہمارے والد اس زمانے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے منیجر ہوا کرتے تھے۔ ہم سب بہن بھائی بھی اس سفر میں ٹیم کے ساتھ تھے۔ اس تریسٹھ برس پرانی فتح کی کہانی آج ہم اپنے قارئین کو سنانا چاہیں گے۔ اس وقت ہماری عمر پورے سات برس بھی نہیں تھی۔ بیس روز کا ایک طویل سمندری سفر طے کرنے کے بعد ہماری ٹیم انگلستان پہنچی تھی۔ ہمارے لئے وہ سارا عرصہ کسی نئی دنیا کے دریافت کے سفر سے کم ہرگز نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کے کردار کی بہتر ین جانچ سفر میں ہی ہو سکتی ہے۔ وہ بیس روز ہمارے لئے گویا کسی خزانے کی کھوج کی مانند تھے، جس کے دوران ہمیں کئی ایک ایسے افراد کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جو بعد کے برسوں میں اپنی عظمت کے لئے پہچانے گئے۔ کراچی کی بندرگاہ سے ہماری ٹیم دھوم دھام کے ساتھ بے شمار دعائوں میں رخصت کی گئی تھی۔ موتیے اور گلاب کی پتیاں ان پہ نچھاور کی گئی تھیں جن کی خوشبو دُور تک ہمارے 
ساتھ رہی۔ برطانوی میڈیا ہماری ٹیم کو Babes of the cricket یعنی کرکٹ کے نوآموز ٹھہرا رہی تھی۔ Rabbits کا نام ہماری ٹیم کے ساتھ نتھی کر دیا گیا تھا۔ سی ایل آر جیمز نامی ویسٹ انڈین مفکر کرکٹ کو سفید فاموں کا کھیل بتاتے تھے۔ ہماری ٹیم انہی سفید فاموں کو ان کے کھیل میں ہرانے کے لئے تیاری کی غرض سے جہاز کے عشرے پہ ہی چھپ چھپ کے مشقیں کیا کرتی تھی۔ فرنگیوں کی ٹیم میں فرینک ٹائی سن اور ڈینس کومپٹن جیسے نام شامل تھے۔ ہمارے والد بھی ٹیم کے ساتھ بیٹنگ اور بالنگ کرتے تھے اور ہم تینوں بہن بھائی بیٹھ کر نظارہ کر رہے ہوتے۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے بھی ٹیم کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ ہمارے والد کو انہوں نے ہی ٹیم کا منیجر مقرر کیا تھا اور مسعود صلاح الدین ان کے اسسٹنٹ منیجر مقرر کئے گئے ستھے۔ مسعود صلاح الدین پاکستان ریلوے میں کام کرتے تھے۔ ٹیم کے منیجر کے طور پر ہمارے والد اور اسسٹنٹ منیجر مسعود صلاح الدین مل جل کر کام کیا کرتے تھے۔ ان دونوں کا تقرر میرٹ کی بنیاد پہ کیا گیا تھا۔ دونوں ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل چکے تھے اور دونوں ہی اچھے منتظم تھے۔ کرکٹ کی دنیا سے باہر کے لوگوں کو انتظامی عہدوں پہ تعینات کرنے کا اس زمانے میں رواج نہیں تھا۔ نوجوان اور پُرکشش شخصیت کے مالک اے ایچ کاردار ٹیم کے کپتان تھے۔ ان کے مزاج میں قدرے انا پرستی جھلکتی تھی وہ بھی شاید اس لئے کہ وہ آکسفورڈ سے فارغ التحصیل تھے۔ نائب کپتان فضل محمود خواتین میں بڑے مقبول ہوا کرتے تھے۔ کم از کم اس سفر کے دوران تو ہمیں یہی معلوم ہو رہا تھا۔ ان کی 
بلوریں آنکھیں تھیں اور پیشانی پہ بالوں کی لٹیں پڑی ہوتی تھیں، گریبان کھلا ہوتا تھا اور آستینیں بڑے فنکارانہ انداز میں انہوں نے اوپر چڑھائی ہوتی تھیں، کھیل کا میدان ہو یا پھر خواتین کی مجلس، ہماری یادداشت میں ہر جگہ مین آف دی میچ فضل محمود ہی ہوا کرتے تھے۔ وہ ایک بہت اچھے انسان اور ایک عظیم کھلاڑی تھے، سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک بے مثال لیڈر بھی تھے۔ ٹیم سپرٹ کی طرف ان کا بے حد دھیان ہوا کرتا تھا اور اپنے تمام ساتھیوں کا احترام کرتے تھے۔ 
وکٹ کیپر امتیاز کا زیادہ وقت ایم زیڈ غزالی، خان محمد اور شجاع کی صحبت میں گزرتا تھا۔ وقار حسن اور خالد حسن کم عمر تھے اور ایک طرف ہی رہا کرتے تھے۔ حنیف محمد اور وزیر محمد دونوں بھائی بڑے پرہیزگار تھے۔ ہمارا بحری جہاز تیز ہوائوں میں بپھری لہروں کو کاٹتا ہوا جب آگے بڑھتا تو اکثر عرشے پہ ہمیں وزیر محمد سجدے میں پڑے دکھائی دیتے۔ محمود حسین بھی ٹیم میں تھے۔ ان کی چال بڑی پُرکشش ہوا کرتی تھی۔ مارلن منرو کے انداز میں وہ چلتے تھے۔ اسی لئے ان کا نام ہی مارلن منرو پڑ گیا تھا۔ مقصود احمد بڑے خوش اخلاق اور ملنسار تھے۔ انہیں میری میکس کا نام دیا گیا تھا جو اس سیریز میں ان پہ بالکل صادق بھی آیا۔ 
ہمارا جہاز سائوتھ ہیمپٹن میں لنگر انداز ہوا تھا۔ لندن پہنچ کر ہم آکسفورڈ سٹریٹ پہ برنرز ہوٹل میں ٹھہرے۔ وہاں کے ماحو ل میں عجیب سا اکھڑ پن تھا۔ ناشتے پہ اگر ہم مزید کارن فلیکس مانگتے تو ویٹروں کو یہ بات پسند نہیں آتی تھی۔ آپ 
شاید یقین نہ کریں لیکن کھانے پہ راشننگ اس وقت تک چل رہی تھی۔ فی کس ایک انڈا ملا کرتا تھا، اس سے زیادہ نہیں! وہ جنگ گزیدہ لندن ہمیں آج بھی اچھی طرح یاد ہے۔ جرمنی کی بمباری سے عمارتیں سوختہ حال تھیں اور ان کی تعمیرِ نو کا کام جاری تھا۔ لندن اس وقت کافی الگ دکھائی دیتا تھا۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود بارش و دھند میں بھی ہمار ے ہوٹل کے بالمقابل دکانوں میں زندگی کی چہل پہل عروج پہ نظر آتی تھی۔ سینئر کھلاڑی اکثر ٹیم کے منیجر سے کپتان کی زبان درازیوں کی شکایت کیا کرتے تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حالیہ چیئرمین شہریار خان اے ایچ کاردار کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اینگلولر پرسنالٹی کے شکار تھے۔ ایک فانی انسان کے طور پر اپنے مزاج کی بعض کمزوریوں کے باوجود وہ ایک عظیم شخصیت تھے اور لائقِ صد تحسین بھی! افسوس کی بات البتہ یہ تھی کہ اس وقت انگلستان میں ہمارے ہائی کمشنر ایم اے ایچ اسفہانی اپنے میزبان ملک کے حامی معلوم ہو رہے تھے۔ ہمارے کھلاڑیوں سے بعض کیچ جب چھُوٹے تو انہوں نے کہا کہ ان کی انگلیاں تو گویا مکھن جیسی چکنی ہیں۔ اے ایچ کاردار‘ وزیر محمد کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن اوول میں وہی فرینک ٹائی سن کے سامنے جمے رہے۔ کپتان کے مشورے کو رد کرکے ٹیم منیجر اور سلیکشن کمیٹی کے اراکین نے وزیر محمد کو ٹیم میں شامل کیا تھا۔ وزیر محمد نے بہترین بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیالیس رنز بنائے جبکہ فضل محمود، خان محمد اور محمود حسین کی بالنگ نے ہماری ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔ دس ستمبر 1954ء کو ہم اپنی سرزمین واپس پہنچے اور اس کے بعد کی ساری داستان تاریخ کا حصہ بن چکی ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں