ڈونلڈ ٹرمپ نے عدلیہ کے سامنے منہ کی کھائی ہے اور اس بات پہ عقلِ سلیم رکھنے والے وہ سبھی امریکی بڑا جشن منا رہے ہیں،جنہیں خدشہ تھا کہ جنابِ ٹرمپ اپنے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے امریکی آئین کا جنازہ نکال دیں گے۔ ایسے ہی ایک آرڈر کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ نے سات مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد اور پناہ گزینوں کے امریکہ میں داخلے پہ پابندی عائد کی تھی۔ پچھلے ہفتے ایک جج نے اس پابندی کو عارضی طور پر معطل کر دیا تھا؛ چنانچہ ٹرمپ ٹیم نے اس معاملے میں اپیل دائر کر دی جس کی سماعت کرتے ہوئے تین رکنی بینچ نے متفقہ طور پر مذکورہ پابندی کو غیر آئینی ٹھہرا دیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں بطورِ خاص مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا تھا۔ پورے امریکہ میں اس پہ بڑا جشن برپا ہے۔ دوسری طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ججوں کے فیصلے بالکل نہیں بھاتے؛ چنانچہ وہ ان پہ بڑی تنقید بلکہ ذاتی نوعیت کے حملے کر رہے ہیں۔ وہ بڑی بے باکی سے توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں‘ اس کے باوجود امریکہ میں عدلیہ اس قدر بے بس ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بے ہودہ گوئیوں پہ ان پہ کوئی گرفت نہیں کی جا سکتی۔ امریکی صدر ہونے کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی استثنیٰ حاصل ہے؛ چنانچہ بے چارے ججوں نے تو خاموشی ہی اختیار کی ہوئی ہے‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی بے لگام زبان مستقل مغلظات اگل رہی ہے۔ ان کی یہ باتیں اب بڑی بچگانہ معلوم ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں خود ان کے اپنے مقرر کردہ جج نیل گورسچ نے بھی ججوں پہ ان کی تنقید کو مایوس کن اور حوصلہ شکن ٹھہرایا ہے۔ جس جج نے ان کی پابندی والے حکم نامے کو معطل کیا تھا اسے انہوں نے اپنی ٹویٹ میں ''نام نہاد جج‘‘ پکارا، اور بعد
میں یہ بھی کہا کہ اگر مستقبل میں امریکہ میں کوئی بھی دہشت گردانہ کارروائی ہوئی تو اس کی ذمہ داری اسی جج بلکہ پورے عدالتی نظام پہ عائد ہوگی۔ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ جیتے ہیں، امریکی سفید فام طاقت کا سرچشمہ بن گئے ہیں۔ ماضی میں اقتدار کی اعلیٰ ترین سطحوں پہ رنگ داروں کی کثرت نظر آتی رہی تھی۔ سات سال قبل صدر اوباما نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ایک پچپن سالہ پورٹوریکن خاتون سونیا سوٹومیئر کا تقرر کیا تھا۔ اس سے اس نظریے کی تصدیق ہوئی تھی کہ رنگ، نسل اور صنف سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا، اصل چیز روح اور کردار کی عظمت ہے‘ جو باقی رہتی ہے۔ 2010ء کے گرما میں گریجویشن کرنے والے طلبہ سے صدر اوباما نے جو خطاب کیا تھا، اس کا بھی مرکزی موضوع یہی تھا۔ Yes, you can! صدر اوباما کا مشہورِ زمانہ کلمہ ہے۔ جسٹس سونیا سوٹومیئر کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی طالب علمی کا دور اور اس کے بعد پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر حصہ اس احساس کے ساتھ گزارا ہے کہ وہ اپنی اردگرد کی دنیا کا حصہ نہیں ہیں۔ بقول ان کے‘ وہ ہمیشہ یہی جانچتی رہتی تھیں کہ آیا وہ دوسروں کے برابر ہیں؟ ان کی کامیابی کا سفر ایک مثال ہے کہ کس طرح انسان معاشرتی اجنبیت کا شکار ہونے اور اپنی شناخت و حیثیت کے حوالے سے شبہات رکھنے کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہے۔ آٹھ سال کی عمر میں انہیں ٹائپ ون ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ اس قسم کی ذیابیطس میں انسان کا لبلبہ بدن میں اس قدر محدود مقدار میں انسولین پیدا
کرتا ہے کہ بدن خون میں موجود گلوکوز کو بطورِ توانائی استعمال نہیں کر سکتا۔ ان کے والد کی تعلیم معمولی سی تھی اور وہ ایک فیکٹری میں ادنیٰ درجے کے ملازم تھے۔ بیالیس برس کی عمر میں ان کے والد کی موت ہو گئی تھی۔ ان کی والدہ نرس تھیں۔ نیویارک کے غریب ترین علاقے میں انہوں نے پرورش پائی۔صدر اوباما نے جب سونیا سوٹومیئر کو نامزد کیا تو اس تقریب میں شرکت کے لئے ان کی معمر والدہ بطورِ خاص واشنگٹن تشریف لائی تھیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ بچپن میں سونیا ہر روز سکول سے پانچ بجے گھر پہنچتی تھیں اور ان کے آنے کے بعد ان کا گھر ان کے دوستوں سے بھر جاتا تھا کیونکہ وہ انہیں باہر جانے نہیں دیتی تھیں۔ وہ اور ان کے دوست رات دیر تک بیٹھے باتیں اور کام کرتے رہتے۔ کبھی کبھی نو بھی بج جاتے۔ بچپن میں سونیا ٹی وی پہ پیری میسن کے پروگراموںکی شوقین ہوا کرتی تھی۔ پڑھائی میں وہ بے حد اچھی تھی۔ پرنسٹن یونیورسٹی سے وہ امتیازی نمبروں کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئی تھی اور بعد میں ییل یونیورسٹی سے بھی انہوں نے تعلیم پائی، جہاں وہ ییل لاء جرنل کی مدیرہ بھی رہیں۔ سونیا سوٹومیئر کی کامیابی کی داستان میں بنیادی کردار ان کی والدہ کی اس طاقت نے ادا کیا‘ جس کا اظہار انہوں نے اپنی زندگی کے ان مشکل ادوار میں کیا تھا۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے بچوں کو تعلیم کی اہمیت بتائی اور انہیں ایمانداری کی تعلیم دی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا کہنا ان سے ہمیشہ یہی تھاکہ اگر انہیں بیوت الخلا کی صفائی کا کام ملے، تو اس کام میں بھی انہیں سب سے آگے ہونا چاہئے۔ اس تقریب میں سونیا سوٹومیئر کے دائیں بائیں امریکی صدر اور نائب صدر بھی کھڑے تھے۔ سونیا سوٹومیئر نے اپنے خطاب میں حاضرین کو بتایا تھا کہ ان کی والدہ نے اپنی پوری زندگی ان کے اور ان کے بھائی کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ والد کے انتقال کے بعد وہ بچوں کی پرورش کے لئے دو دو نوکریاں کرتی رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا ''میں اکثر کہہ چکی ہوں کہ میں جو کچھ بھی ہوں اپنی ماں کی وجہ سے ہوں، اور جیسی وہ ہیں، میں اس کا نصف بھی نہیں‘‘۔ ڈر اور خوف سے خود صدر اوباما کو بھی پالا پڑتا رہا تھا۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ انہیں بھی ایک مستقل خوف اور یہ احساس رہتا تھا کہ وہ اجنبی ہیں، اور انہیں لگتا تھا کہ اگر وہ بعض باتوں کو چھپا کر، بعض کو نظر انداز کرکے صرف دکھاوے کے طور پر خود کو وہ ظاہر نہ کرتے جو وہ نہیں تھے‘ تو شاید پھر وہ ہمیشہ اردگرد کے ان لوگوں کے لئے اجنبی ہی رہیں گے‘ جو ہمیشہ سب کو تجزیاتی نگاہ سے دیکھتے رہتے ہیں۔ سونیا سوٹومیئر کا تعارف کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا تھا ''مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنے کا تجربہ حاصل کیجئے، دشواریوں اور قسمت کے لکھے کا سامنا کرکے یہ تجربہ بھی حاصل کیجئے اور بغیر تھکے، مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں اور ان تمام رکاوٹوں اور مشکلات کو پار کر جائیں۔ یہی تجربا ت انسان میں عوامی زندگی کے حقائق کا ادراک اور عام لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا احساس پید ا کرتے ہیں، اور یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جو ہمیں ان منصفیں میں چاہئیں جنہیں ہم اپنی سپریم کورٹ میں دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ صدر اوباما کو سونیا سوٹومیئر کی دانشورانہ قامت اور عوامی رنگ نے متاثر کیا تھا۔ وہ ہیں بھی بڑی بہادر خاتون۔ 2006ء میں امریکی سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج جسٹس ساندرا ڈے او کونر نے اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت یہ بیان دیا تھا کہ ایک عقل مند بوڑھا مرد اور ایک عقل مند بوڑھی عورت مقدمات کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک جیسے نتائج پر پہنچیں گے۔ سونیا سوٹومیئر نے ان کی بات رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جسٹس ساندرا سے اتفاق نہیں کرتی ہیں کیونکہ ایک عقل مندی کا کوئی بھی آفاقی معیار مقرر نہیں، اور دوسرے مجھے امید یہ ہے کہ ایک عقل مند لاطینی عورت اگر اپنے پاس تجربات کا ایک ذخیرہ رکھتی ہے تو ایک ایسے سفید فام مرد کے مقابل جس نے اس جیسی زندگی نہیں گزاری، اس کے فیصلے یقینا بہتر ہوں گے۔ ان کی اس بات پہ سفید فام مرد اور خاص طور پر وہ جو بش انتظامیہ کی باقیات میں شامل ہیں، خاصے سیخ پا ہوئے تھے۔ ان سب نے ٹی وی پہ آ آ کر سونیا سوٹومیئر کو نسل پرست اور غصے کے مسائل میں مبتلا ٹھہرایا۔ جن وکلا کو ان کے سامنے دلائل دینے کا تجربہ تھا، وہ بھی انہیں غصیلا اور بدمزاج بتا رہے تھے۔ بہرحال، اب ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی دیکھ لیجئے کہ عدلیہ کے ہاتھوں اپنی پہلی شکست کھانے کے بعد ان کے غصے کے مسائل کیا کیا گُل کھلا رہے ہیں!