زندگی اے زندگی

پچھلے دنوں ہم عرصے بعد اپنے رشتے داروں سے ملے۔ بات چیت کے دوران ہم میں سے اکثر کی توجہ اپنی آخری آرام گاہوں کے موضوع پہ مرکوز ہو رہی تھی۔ آخر ہماری ایک کزن نے سب کو ایسی باتوں سے روکا اور یاد دلایا کہ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تک ہم سب زندگی کے بارے میں بات کیا کرتے تھے، ہم لوگ اس بارے میں سوچتے تھے کہ زندگی ہمارے لئے کیا معنی رکھتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کے بارے میں بے تکان بولتے رہتے اور بڑے فخر سے ان کی کامیابیوں اور قابلیتوں کے تذکرے کرتے تھے۔ نت نئے فیشن اور ٹی وی ڈراموں اور فلموں کے بارے میں ہماری گپ شپ لگا کرتی تھی۔ عزیزوں رشتے داروں سے جب بھی کھانے پہ ملاقات ہوتی تو ہنسی مذاق اور زندگی سے بھرپور رنگا رنگ محفلیں سج جایا کرتی تھیں؛ تاہم اس بار کہانی ذرا مختلف رہی۔ عمریں سبھی کی ڈھل رہی ہیں، اسی لئے تو جب ملاقات ہوئی تو موجودہ قومی حالت، کرپٹ اشرافیہ اور اپنی اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف کرپٹ سیاسی لیڈروںکے بارے میں رسمی باتیں کرنے کے بعد ہم سب قبروں کے موضوع پہ بات کرنے لگے۔ موضوع ناخوشگوار ہی سہی لیکن بہرحال ایک حقیقت ہے۔ ایک دن سبھی کو مرنا ہے۔ سو ہم سوچ رہے تھے کہ جب جگہ اتنی کم پڑتی جا رہی ہے تو آخر ہماری تدفین کہاں پہ ہو گی؟ آبائی قبرستان کی یاد تو اسی وقت آتی ہے جب خاندان میں کوئی چل بستا ہے اور وہاں اس کی تدفین کرنی ہو۔ باقی سارا وقت تو ہم زندہ لوگ شاذ ہی کبھی آبائی قبرستان کا ذکر کرتے ہیں۔ فاتحہ پڑھنے باقاعدہ اور بالارادہ دورے بھی وہاں کے کوئی نہیں کرتا۔ آج کل تو لوگ خاندان میں سے کسی فرد کو چن کر اسے آبائی قبرستان کی نگرانی کا کام سونپ دیتے ہیں۔ قبرستان کی صفائی ستھرائی کا انتظام بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر سب سے بڑھ کر اسے اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ راتوں رات کوئی نامعلوم قبر وہاں بننے نہ پائے۔ قبرستان کی زمین پہ اسے عقابی نظر رکھنا پڑتی ہے کیونکہ ہر سال عمر رسیدہ رشتہ داروں کی اموات کے سبب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید قبروں کے لئے جگہ کم پڑنے لگتی ہے۔ پھر جیسا کہ عموماً خاندانوں میں ہوتا ہے، دیگر معاملات کی طرح یہاں بھی اختلافات در آتے ہیں اور پھر یہ اختلافات مقدمات کی صورت اختیار کرنے لگتے ہیں اور عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ ایک قبرستان کا قانونی وارث اب کون ہے۔ جیتنے والا فریق قبرستان کا نگران بن جاتا ہے اور اس کے اختیارات بھی پھر لامحدود ہوتے ہیں۔ کسی رشتہ دار کے مرنے پہ وہی پھر فیصلہ کرتا ہے کہ اسے قبرستان میں کس مقام پہ دفنایا جائے گا۔ سو ہم لوگ آج کل اپنی اپنی قبروں کی بُکنگ کروانے کا سوچ رہے ہیں۔ ہم اس امر کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہماری قبر کی جگہ پہلے سے مختص ہو تاکہ بعد از وفات آخری آرام گاہ کی تلاش میں ہمارے جسدِ خاکی کو یہاں سے وہاں نہ پھرانا پڑے۔ مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ اگر انسان اپنے لئے قبر کی جگہ مختص کرا بھی لے تو اس بات کی کیا ضمانت ہو گی کہ کوئی اور رشتہ دار نشان ہٹا کر اس جگہ اپنا کوئی مردہ نہیں دفنائے گا؟ مطلب یہ کہ اس بات پہ بھی ایک اور خاندانی جھگڑا ہونے کے بھرپور امکانات ہو سکتے ہیں۔ چلئے، موضوع بدل لیتے ہیں اور بڑھتی عمر کی بات کرتے ہیں، لیکن ٹھہریے بڑھتی عمر کا انجام بھی تو بہرحال موت ہی ہونا ہے۔ 
ہمارے ایک دوست ہیں جن کا تعلق امریکہ سے ہے۔ موصوف خود بھی تہتر برس کے ہیں۔ اپنی ماں سے ملنے سال میں دو سے تین بار وہ پاکستان آتے ہیں۔ ان کی ماں چھیانوے برس کی ہے۔ انہو ں نے ہمیں بتایا کہ گزشتہ روز جب وہ پاکستان پہنچے تو اپنی والدہ کو دیکھ کر انہیں ایسا لگا کہ وہ گویا بوہن والڈ یا ڈاہائو کے نازی عقوبت خانوں میں باقی رہنے والوں کی کوئی یادگار ہیں ''ان کے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حالت ہی کچھ ایسی ہے۔ گوشت نام کی کوئی چیز تو ان میں بچی ہی نہیں۔ ہڈیوں پہ محض پوست ہی پوست لپٹی ہوئی ہے۔ گویا کہ زندہ حنوط شدہ ہوں۔ بڑی مشکل سے وہ بولتی ہیں؛ تاہم چہرے پہ ان کے جھریاں بالکل بھی نہیں ہیں اور مسکراتی بھی ہیں‘‘۔ ان کے دن کی تفصیلات بتاتے ہوئے ہمارے دوست نے کہا کہ ''صبح اٹھنے کے بعد دماغی طور پر وہ تقریباً ٹھیک ہی ہوتی ہیں لیکن شام ڈھلنے تک ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز میں ان کی دل چسپی ختم ہو گئی ہو۔ وہ یوں تھک جاتی ہیں جیسے کسی لمبے سفر سے آئی ہوں۔ صبح صاف ستھرا ہونے کے بعد وہ وہیل چیئر پہ بیٹھے بیٹھے ہی ناشتہ کرتی ہیں۔ ان کی بیٹی چمچے سے انہیں کھلاتی ہے۔ وہی ان کی ساری دیکھ بھال کرتی ہے۔ ناشتے کے بعد وہ باہر دالان میں پڑے بچھونے پہ دھوپ سینکنے کے لئے لیٹ جاتی ہیں۔ دوپہر کے کھانے کے وقت تک وہیں ہوتی ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد پھر سہ پہر ساڑھے چار بجے تک پھر سے وہ اسی بچھونے میں لیٹی رہتی ہیں۔ اس دوران کچھ دیر کے لئے وہ سو جاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ رات کا کھانا کھا کر سونے چلی جاتی ہیں۔ پورے دن میں ان کی گفتگو چند ایک جملوں تک محدود رہتی ہے‘‘۔ اتنا سب بتانے کے بعد ہمارے دوست کا سوال تھا ''کیا عمر کی یہ وہ طوالت ہے جو ہم سب کو چاہئے ہوتی ہے؟ کیا یہی وہ زندگی ہے جس کے گزارنے کے ہم سب خواب دیکھتے ہیں؟‘‘ مطلب ان کا یہ تھا کہ
محض نباتی طور پر زندہ رہنا تو زندہ رہنا نہیں کہلایا جا سکتا ''ایک انسان جو تکلیفیں سہہ کر دنیا میں آپ کے وجود کا سبب بنا ہو، جس نے آپ کی پرورش اور نگہداشت کی ہو، آپ کی تدریجاً ترقی دیکھی ہو، اس کو یوں لمحہ بہ لمحہ وقت کی دھول میں اٹ کر بکھرتے دیکھنا کس طرح سہا جاتا ہے؟ شاید ایک عجیب طور پر خود ہمارا مستقبل ہی ہمارے سامنے ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے۔ کوئی پسند کرے یا نہ کرے لیکن ہر انسان کا مستقبل یہی ہے‘‘۔ ہم نے اپنے دوست پوچھا کہ ایسے میں پھر ہم سب کو کیا کرنا چاہئے؟ انہوں نے جواب دیا ''ماں باپ، بہن بھائیوں، دوستوں اور بچوں کے ساتھ جتنا وقت ملے اس کی قدر کرنی چاہئے کیونکہ یہ وقت پھر کبھی واپس نہیں آئے گا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس وقت میں اپنی ماں نہیں بلکہ اس کی پرچھائی کے ساتھ ہوں جو لمحہ بہ لمحہ میری آنکھوں کے سامنے مجھ سے دُور ہوتی جا رہی ہے اور میں مجبور ہوں کہ اس سارے عمل کو قدرتی سمجھوں۔ شاید اب مجھے خود اپنی عمر کی طوالت سے خوف آنے لگا ہے، لیکن یہ ہے کہ اس وقت کم از کم میں اپنی ماں کو دیکھ تو سکتا ہوں، اس سے ہنسی مذاق کر سکتا ہوں۔ اپنے تصور میں اپنی ماں کے اچھے دنوں کی یاد تازہ رکھ کر میں اسی بات پہ خوش ہو لیتا ہوں کہ میں اس کے ساتھ ہوں۔ میرے ہونے سے اس کے چہرے پہ جو مسکراہٹ آتی ہے وہی میرے لئے کافی ہے‘‘۔
یہ باتیں قابلِ غور ہیں، ہم سب کو ان پہ سوچنا چاہئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں