امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بالآخر ان گیارہ ملین افراد کو میکسیکو بھجوانے کا فیصلہ کر لیا‘ جو امریکی میں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ ان گیارہ ملین افراد میں سے سبھی کا تعلق میکسیکو سے نہیں، اس کے باوجود نئی امریکی انتظامیہ ان میں سے ہر ایک کو اٹھوا کر اس مجوزہ دیوار کے اس پار پھینکنے جا رہی ہے۔ ایسا کرکے ڈونلڈ ٹرمپ وہ انتخابی وعدہ پورا کر رہے ہیں جو انہوں نے اپنے ان ساٹھ ملین حامیوں کے ساتھ کیا تھا‘ جو امریکہ میں غیر قانونی حیثیت میں رہائش پذیر ہر شخص کو میکسیکو بھجوانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کے ہوم لینڈ سکیورٹی کے سیکرٹری جنرل ریٹائرڈ جان کیلی نے ایک دستاویز جاری کی‘ جس میں ڈی پورٹیشن فورس کی مجوزہ کارروائیوں کی پوری تفصیل درج ہے۔ ایسی ڈی پورٹیشن مشینری کی مثال پوری امریکی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ سارا انتظام انتہائی نوعیت کا ہے اور ہیبتناک بھی ہے۔ راتوں رات ڈی پورٹیشن کے عملے کی بھرتیوں پہ ٹیکس گزاروں کے پیسے سے لاکھوں ڈالرز کا خرچہ آئے گا۔ یہ لوگ امریکہ میں غیر قانونی حیثیت میں رہنے والے کسی بھی شخص کو پکڑ کر اسے امریکہ بدر کرنے کے مجاز ہوں گے‘ چاہے وہ شخص کتنے ہی عرصے سے امریکہ میں مقیم ہو۔ ان میں اکثریت ایسے ہسپانوی نژاد لوگوں کی ہے جو کئی عشروں سے امریکہ میں رہ رہے ہیں‘ اور وہاں ایسے ایسے معمولی نوعیت کے کام کرتے ہیں جن کے کرنے کو کبھی بھی کوئی سفید فام امریکی راضی نہیں ہو گا۔ یہ لوگ مالی کا کام کرتے ہیں، گھریلو ملازمتیں کرتے ہیں، خانساماں کے طور پر خدمات بجا لاتے ہیں، لوگوں کے بچوں کی نگہداشت کرتے ہیں، کھیتوں میں کام کرتے ہیں، اور دیگر کئی قسم کی مزدوریاں کرتے ہیں۔ اپنے گھر والوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے کے لئے یہ لوگ بڑی محنت کرتے ہیں؛ تاہم، اب انہی لوگوں کو میکسیکو واپس بھجوانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ان کی اولادوں‘ جو کم عمری میں امریکہ آئیں تھیں‘ کو امریکہ میں رہنے کی اجازت ہو گی لیکن ماں باپ واپس بھیج دیے جائیں گے۔ گھروں کو توڑ نا اور خاندانوں کو یوں تقسیم کر دینا کسی بھی حکومت کی جانب سے انتہائی غیر انسانی اور ظالمانہ فعل ہے اور ٹرمپ انتظامیہ یہی سب کچھ کرنے پہ تُلی ہوئی ہے۔ اوباما انتظامیہ نے یہ تسلیم کیا تھا کہ جو لوگ ایک طویل عرصے سے امریکہ میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی اولادیں امریکی شہریت رکھتی ہیں اور اپنی کمیونٹی اور امریکہ کے ساتھ ان کے گہرے روابط استوار ہو چکے ہیں، ان کا اب یہ استحقاق بنتا ہے کہ انہیں قانونی حیثیت کے حصول کا ایک موقع دیا جائے۔ اوباما انتظامیہ کی کوشش تھی کہ ایسے لوگوں کو ملک سے نکالنے پہ توجہ مرکوز کی جائے جو خطرناک جرائم میں ملوث ہیں، جن سے قومی سلامتی کو خطرہ ہے اور جو حال ہی میں سرحد پار کرکے امریکہ میں داخل ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ ہر ناپسندیدہ شخص کو ملک سے نکال باہر کرنا چاہتی ہے۔ شروعات وہ ان لوگوں سے کرنا چاہتے ہیں کہ جن کو کسی نہ کسی مقدمے میں‘ چاہے وہ کتنا ہی پُرانا ہو یا پھر چھوٹا ہو، عدالت سے مجرم ٹھہرایا جا چکا ہے۔ احتیاط، تناسب، یہ حقیقت کہ بعض دفعہ ایسے فیصلے غیر منصفانہ بھی ہوتے ہیں، فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات کے اصول‘ کچھ بھی وہاں در خورِ اعتنا نہیں رہا۔ ہلری کلنٹن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان گیارہ ملین افراد کے لئے کوئی راستہ نکالیں گی کہ انہیں امریکہ چھوڑے بغیر امریکی شہریت حاصل ہو جائے۔ اگر ٹرمپ کی جگہ ہلری کلنٹن کا انتخاب ہوا ہوتا تو شاید اب تک وہ اس پہ کام بھی شروع کر چکی ہوتیں۔ ہر وہ امریکی اس وقت حیران و پریشان ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ان کا ملک غیر ملکی تارکینِ وطن کا خیر مقدم کرتا ہے، یا ان کا خیر مقدم یہاں ہونا چاہئے، اور یہ بھی کہ یہاں حقائق کا احترام کیا جاتا ہے، اور یہ بھی کہ ان کے ملک میں معقول قوانین ہونے چاہئیں جن کا یکساں متناسب اطلاق سبھی پہ ہوتا ہو۔
اس حالیہ اقدام پہ امریکہ کے کئی ایک کالج کیمپسوں میں تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا گیا ہے۔ پروفیسر حضرات اور طلبہ سوچ رہے ہیں کہ کس طرح اس ناانصافی کی راہ روکی جا سکتی ہے اور کیا کردار وہ اس ضمن میں ادا کر سکتے ہیں۔ نیویارک کے سابق میئر مائیکل بلومبرگ کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں اشرافیہ طبقے کی بالادستی کے خاتمے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ یہ ادارے کارکن طبقے کے لئے کھول دئیے جائیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ان اداروں میں انصاف نظر آئے تاکہ یہ حقیقت میں امریکہ کے عکاس بن سکیں۔ مائیکل بلومبرگ کی بلومبرگ فائونڈیشن نے American Talent Initiative کے نام سے اس ضمن میں ایک تحریک شروع کی ہے جس کا مقصد ان
غریب مگر لائق فائق طلبہ کی امداد کرنا ہے جو قابلیت کے باوجود ان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان کے تعلیمی خرچے کی ذمہ داری بلومبرگ نے اٹھائی ہے۔ ان طلبہ میں اکثریت تارکینِ وطن کی ہے۔ بلومبرگ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کو بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو قابلیت رکھتے ہیں، محنتی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ مائیکل بلومبرگ جب نیویارک کے میئر تھے تو انہوں نے شہر کی پولیس میں بھی مختلف النسل لوگوں کی بھرتیاں کی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ملک کی حکومت اور معاشی نظام میں ایسے لوگ شامل ہوں جو مختلف حلقوں کی سوچ سمجھتے ہیں اور ان کی ضروریات سے واقف ہوں۔کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئے لیکن پھر یہاں انہوں نے محنت کی اور اپنے بچوں کو پڑھایا تاکہ انہیں بہتر زندگی حاصل ہو سکے۔ حال ہی میں ایک ایسی ہی کہانی نیویارک ٹائمز میں بھی چھپی۔ جیفری ویلادِسپینولیل کا خیال تھا کہ جس ریاست میں اس کی رہائش ہے یعنی ایریزونا میں، وہاں سے باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھنا کافی مہنگا پڑتا ہو گا؛ تاہم ایک روز ڈاک میں اسے ایک فلائر موصول ہوا اور اس نے ایک ورکشاپ میں شرکت کی جس کے بعد اسے معلوم ہوا کہ سٹینفورڈ والے کس قدر مالی وظائف دیتے ہیں؛ چنانچہ بلومبرگ کی مالی امداد کے تحت اسے بھی کیلی فورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ جیفری ولادِسپینولیل کے والدین نے ہائی سکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں کی تھی لیکن آج ان کا
بیٹا امرا کے بچوں کے ساتھ ایک ہی تعلیمی ادارے میں پڑھ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ا گر کم آمدنی والے طبقات سے تعلق رکھنے والے مزید طلبہ بھی یہاں آ سکیں تو بہت اچھا ہو گا کیونکہ ''ہم نے ثابت کیا ہے کہ ہم یہاں کے دیگر طلبہ جیسی کارکردگی دکھا سکتے ہیں‘‘۔ سٹینفورڈ اور اوہائیو کی ریاستوں میں تنوع کی تخلیق معاشرتی اجنبیت سے نمٹنے کی سمت میں اگر پہلا اور چھوٹا سا قدم ہے لیکن اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ٹاپ کے ان دو سو ستر کالجوں میں اکیس لاکھ طلبہ تعلیم پاتے ہیں اور معاشرے کو قائدین یہیں سے میسر آتے ہیں۔ جیفری لیل کا کہنا ہے کہ جس ادارے میں وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہاں انہیں بتایا جاتا ہے کہ انہیں اپنی تعلیم کو بے حد اہمیت دینا ہو گی اور تعلیم کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پڑھ کر گھر آنے پہ انہیں اپنا آپ تھکن سے چُور محسوس ہو۔ جیفری لیل انجینئرنگ اور مینجمنٹ سائنسز کی تعلیم پا رہے ہیں اور امید ہے کہ انہیں اچھی ملازمت بھی مل جائے گی؛ تاہم اب وہ ایک خوف میں جی رہے ہیں۔ کسی بھی دن، کسی بھی وقت، ہو سکتا ہے کہ جب وہ کالج میں ہوں، ٹرمپ کی ڈی پورٹیشن فورس ان کے گھر چھاپہ مار کر ان کے والدین کو ڈی ٹینشن سینٹر اور پھر اس کے بعد میکسیکو منتقل کر سکتی ہے۔ ان کے والدین کو میکسیکو چھوڑے چالیس سال بیت چکے ہیں۔ ذرا اس نوجوان کی حالت اور اس کے احساسات کا اندازہ کیجئے۔ اس کا وطن تو امریکہ ہی ہے۔ وہ امریکہ جو تارکینِ وطن کا خیر مقدم کرتا رہا ہے۔ جہاں انصاف کا بول بالا ہوا کرتا تھا اور جہاں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوتا تھا‘ مگر آج امریکہ بدل چکا ہے۔ ٹرمپ کی حکمرانی میں یہ کوئی اجنبی ملک معلوم ہوتا ہے جو تارکینِ وطن کے لئے سرحدیں بند کر دینا چاہتا ہے۔ جلد ہی اس ملک میں نازی رنگ کی جھلک بھی دکھائی دینے لگے گی۔