یک قومِ بے پروا

انگریزی کے شاعر جان کیٹس کی ایک مشہور نظم ہے جو کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ A thing of beauty is a joy forever یعنی ایک حسین اور خوبصورت شے لازوال مسرت کا سبب ہوتی ہے۔ آگے وہ کہتا ہے کہ "Its loveliness increases; it will never Pass into nothingness," یعنی اس کے حسن کی سحر آفرینی بڑھتی ہی رہتی ہے اور ملکِ عدم کو اس کی منتقلی کبھی نہیں ہو گی۔ حسن و خوبصورتی کے یہ تمام استعارے ایسے ہیں جو ہمارے ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کی دلکشی پہ بجا طور پہ اطلاق پاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام آباد میں موسمِ بہار کی دلکشی انسان کے حواسوں پہ چھا جاتی ہے‘ مگر بہار بھی ساری رنگینیاں بکھیر کر اب گزرنے ہی والی ہے۔ آج کل وہاں بدصورتی بھی ہر کونے اور نکڑ پہ منہ پھاڑ ے کھڑی نظر آتی ہے، چاہے ٹریفک کے ہجوم سے لدی سڑکیں ہوں یا پبلک پارکس، شاپنگ سینٹرز ہوں یا پھر لوگوں کے مکانات اور رہائشی عمارتیں۔ آبادی بھی اس قدر سرعت سے بڑھتی جا رہی ہے کہ اسلام آباد کے اکثر علاقے شاید جلد ہی تنگ محلہ جات کی صورت اختیار کر لیں گے۔ سیکٹر آئی ایٹ کو ہی دیکھ لیجئے۔ یہاں ترقیاتی ادارے کے دفاتر ہیں، ریٹائرڈ اور حاضر سروس سرکاری ملازمین اور ان کے علاوہ دولت مند افراد کے مکانات ہیں۔ I-8/3 اس سیکٹر کے ماتھے کا جھومر ہے۔ بڑا ہی خوبصورت وہاں ایک پارک ہے جس کے چاروں طرف مکانات ہیں۔ ویسے تو یہ نظارہ بڑا ہی قابلِ دید ہے لیکن انہی مکانات کے بالکل سامنے کوڑے کرکٹ کے بڑے بڑے پہاڑ بھی بنے ہوئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ ان مکانوں کے رہنے والے اور متعلقہ ادارے کے افسران اس گند کو ہٹوانے کی تکلیف ہی نہیں کر رہے۔ حیرانی اسی بات پہ ہوتی ہے کہ تعلیم یافتہ اور اچھے خاصے معقول لوگ کس طرح ایسی طرزِ زندگی پہ قانع ہو سکتے ہیں؟ گند کے ڈھیر پہ مہذب لوگوں کے زندگی بسر کرنے کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ اس ضمن میں تبدیلی ترقیاتی ادارے میں آنی چاہئے۔ لاکھوں کروڑوں کا اس کا خرچہ ہے۔ جب سے یہ ادارہ بنا ہے یہاں صرف کرپشن ہی کی افزائش ہو رہی ہے۔ قیمتی جائیدادوں کی فروخت اور ان پہ محصولات کی وصولی سے اسے اربوں روپے حاصل ہوتے ہیں۔ اگر یہ پیسہ عوام کو شہری سہولیات کی فراہمی پہ خرچ ہونے لگے تو ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، بے ترتیب تعمیرات، کوڑوں کے انبار اور خود شہریوں کے رحم وکرم پہ چھوڑے گئے دیکھ بھال سے محروم پارکوں کے نظارے ہمیں پھر شہر میں نظر نہیں آئیں گے۔ فاطمہ جناح پارک میں سینکڑوں خاندان کھلی فضا میں تازہ ہوا اور قدرتی حسن سے محظوظ ہونے آتے ہیں۔ کئی لوگ چہل قدمی کرکے ورزش کی کمی کو پورا کرتے ہیں؛ تاہم آہستہ آہستہ وہاں ہو یہ رہا ہے کہ چہل قدمی کے مقامات پہ کرکٹ کے شائقین کرکٹ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جب سامنے سے گیند آ رہی ہو تو ایسے میں چہل قدمی کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ ہارڈ بال اگر لگے تو انسان کو ہسپتال تک پہنچا سکتی ہے۔ چہل قدمی کرنے والے ایک صاحب نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے کئی مرتبہ ان لوگوں کو کہا ہے کہ یہاں کرکٹ نہ کھیلیں لیکن کوئی سنتا ہی نہیں۔ بقول ان کے وہ پولیس والوں تک کو بھی لے کر آئے‘ لیکن پولیس والے بھی یہی کہتے ہیں کہ جب تک متعلقہ ادارے کا آرڈر نہ ہو وہ اس ضمن میں کچھ نہیں کریں گے۔ اس ادارے کو حرکت میں لانا ناممکنات میں سے ہے۔ اس ادارے کو اور بہت سے کام ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ تقریباً نصف صدی سے اسلام آباد میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کر رہے ہیں۔ اس شہر کی اشرافیہ کی جائیداد بکوانا اور خریدوانا ایک طویل عرصے سے ان کا پیشہ ہے۔ ان کا فرضی نام امجد رکھ لیتے ہیں۔ امجد صاحب کہتے ہیں کہ جنرل ضیا کے زمانے میں بعض سرکاری اداروں کو کہا گیا تھا کہ وہ اپنے لئے فنڈز کا بندوبست خود کر لیا کریں کیونکہ سرکار کے پاس ان کے اخراجات پورے کرنے کے لئے وسائل نہیں تھے۔ اس وقت سے یہ ادارہ ایک کاروباری ادارہ بن گیا۔ پلاٹوں کی نیلامی کے ذریعے یہ ادارہ فنڈز جمع کرتا ہے اسی لئے جائیدادوں کی قیمت بھی بڑھتی جاتی ہے؛ تاہم سویلین حکومتوں کے دور میں کرپشن انتہا کو پہنچ گئی۔
2008ء میں جب پی پی پی کی حکومت آئی تو اس نے متعلقہ ادارے کو ایک پلاٹ شاپنگ مال کے لئے نیلام کر دینے کو کہا۔ یہ پلاٹ ایک ڈسپنسری کے لئے مختص کیا گیا تھا‘ مگر آج وہاں ایک شاپنگ مال تعمیر ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سودے میں بارسوخ لوگوں کی جیبیں بطورِ کمیشن لاکھوں کروڑوں روپوں سے بھر گئی تھیں۔ آئے دن شہر میں نت نئے شاپنگ مالز اور میگا مالز نمودار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر
کی تعمیر غیر قانونی ہے لیکن کام ان پہ پھر بھی زور و شور سے جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ادارے کے حکام سو رہے ہیں؟ منصوبہ کاروں کو یہ خیال بھی نہیں کہ جب ان عمارتوں کی تعمیر مکمل ہو گی تو پارکنگ کے لئے بھی پھر جگہ چاہئے ہو گی؛ تاہم معلوم یہ ہوتا ہے کہ جیسے پارکنگ کی جگہ کا انتظام اور سڑکوں پہ ٹریفک کا ہجوم جیسے اس ادارے کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ کرپشن کا پہیہ چلانے کے لئے یہ لوگ تو جیسے بس نوٹ ہی چھاپ رہے ہیں۔ ان کے لئے آسان بس یہی تھا کہ انہوں نے گیس بجلی اور پانی والوں کو کہہ دیا ہے کہ غیر قانونی عمارتوں میں یہ سہولیات فراہم نہیں ہونی چاہئیں۔ اب کہیں جا کر اس ادارے کی طرف سے حکومت سے کہا گیا ہے کہ یہ تعمیرات روکنے میں اس کی مدد کی جائے۔سڑکوں کے پھیلے ہوئے وسیع جال نے ڈرائیونگ میں بے شک بڑی سہولت مہیا کر د ی ہے لیکن بڑی بڑی شاہراہوں پہ یوں لگتا ہے کہ جیسے جنونی ڈرائیوروں کا ہجوم ہو جوایک طرف تو آپ کے راستے کا حق تسلیم نہیں کرتے اور دوسری طرف اچانک ہی لین تبدیل کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کو سخت کوفت ہوتی ہے۔ نجانے کیپٹل پولیس بھی کہاں روپوش ہو گئی ہے۔ ہمیں تو کہا گیا تھا کہ یہ لوگ سڑکوں پہ ٹریفک کو منظم رکھیں گے مگر سڑکوں، دوراہوں پہ تو کہیں بھی کوئی پولیس والا نظر نہیں آتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ جن کے اعصاب آہنی ہیں صرف وہی ڈرائیونگ کر پاتے ہیں، باقی کمزور گوڈے گٹے والے بڑبڑاتے رہ جاتے ہیں اور امید ہی کرتے ہیں کہ صحیح سالم گھر پہنچ جائیں گے۔ ویک اینڈ پہ لڑکے اپنی ہارلے ڈیوڈ سن بائیکس لے کر سڑکوں پہ آ
جاتے ہیں۔ اس کے انجن کی چنگھاڑ رات گئے تک لوگوں کو جگائے رکھتی ہے۔ نجانے پولیس اس کا بھی کچھ کیوں نہیں کرتی؟ کیا کوئی ایسا قانون نہیں جو ان لڑکوں کو یوں لوگوں کا سکون خراب کرنے سے روک سکے؟ امجد صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے دارالحکومت میں سبھی کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ اہلکاروں کی غلط کاریوں نے شہر کے حسن کو مسخ کر دیا ہے اور لاقانونیت کی وجہ سے جس کے جی میں جو آئے کرتا پھر رہا ہے۔ ایک صاحب ایک بڑے پارلر کی پارکنگ میں کھڑے اپنی بیوی کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک جوان لڑکی پارلر سے باہر آئی تو داڑھی والے چند مردوں نے اسے گھیر لیا اور اسے برا بھلا کہنے لگے کیونکہ اس نے بغیر آستینوں کی قمیص پہن رکھی تھی۔ وہ لڑکی خوف کے مارے بھاگ کر اس آدمی کے پاس آئی اور اس کی کار میں اس نے پناہ لی۔اس آدمی نے پھر ان لوگوں کو خوب سنائی اور انہیں کہا کہ انہیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ہم نے اخبار میں وکیلوں کے ایک گروہ کے بارے میں بھی پڑھا کہ کس طرح انہوں نے ایک جج کے سامنے ایک پولیس والے کی پٹائی شروع کر دی تھی۔یہ لوگ اس پولیس والے سے اس بات کا انتقام لے رہے تھے کہ اس نے فیصل مسجد کے قریب ان کے ایک ساتھی کی موٹر بائیک کو رجسٹریشن کے کاغذات فراہم نہ کرنے پہ قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کی موٹر بائیک اگلے ہی دن اسے واپس مل گئی تھی لیکن اس نے ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں درخواست جمع کرا دی کہ پولیس والے نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی ہے اور گالیاں دی ہیں۔ جب پولیس والے نے صفائی دیتے ہوئے واقعہ بیان کرنا شرو ع کیا تو وکیل کے ساتھی اسے پیٹنے لگ گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں