کیاسرحد پار سے برسائے جانے والی یاوہ گوئیوں کے تیر وں سے آپ عاجز آچکے ہیں؟ بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکرکی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعما ل کی دھمکیاں اور بھارتی سرکار کی جانب سے ان ہتھیاروں کے اول استعمال سے گریز کرنے جیسے مبہم بیانات آپ کا جی متلا رہے ہیں؟تیسرے درجے کے ''سیاست کار‘‘ پانامہ لیکس کے حوالے سے شب و روز جو ہنگامہ مچا رہے ہیں کیا اس سے بھی آپ تھک گئے ہیں؟غیر ملکیوں کا دہشت گردی کے خدشات کے سبب پاکستان کو چھوڑ نا بھی آپ کو پریشان کررہا ہے؟ کیاڈونالڈ ٹرمپ کی مسلمانوں پہ مرکوز پابندیاں آپ کو بھی غصہ دلا رہی ہیں؟اگر ایسا ہے تو فکر نہ کریں، آپ تنہا نہیں۔آنجہانی ڈاکٹر وائن ڈائرجب تک زندہ رہے انہیں بھی امریکی سیاستدانوں اور ان کی بے ہودہ گوئیوں سے ایسی ہی شکایات تھیں۔انہیں فادر آف موٹیویشن کہا جاتا ہے اور سیلف ایمپاورمنٹ کے شعبے میں وہ بڑی شہرت کے حامل ہیں۔وہ سیاستدانوں کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ لوگ ہمارے لیڈر نہیں، ''میں تو کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جواس سوچ کے ساتھ رات سوتا ہو کہ ہمارے لیڈران واشنگٹن میں حکمران ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی عوام کوئی بھیڑ بکریاں نہیں کہ جنہیں راستہ دکھانے کے لئے کسی رہنما کی ضرورت ہو۔ ''ہم اپنی رہنمائی خود کر سکتے ہیں بلکہ ہرروز کرتے ہیں۔‘‘اسے ایک معجزہ ہی سمجھنا چاہئے کہ ہم پاکستانی بھی ستر سال سے بغیر کسی رہنما کے گزارا چلا رہے ہیں۔ بھٹو کے عشق میں مبتلا پیپلیوں کے ایک جتھے اور کرائے کی
ریلیوں میں شریفوں کے لئے نعرے لگانے والے جعلی لیگیوں کے سوا کیا کوئی ایک بھی عقلِ سلیم رکھنے والا پاکستانی ایسا ہے جو بے نظیر، زرداری، یا پھر شریفوں میں سے کسی کو ایک اپنا باجواز لیڈر تسلیم کرتا ہو؟ یہ ٹھیک ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں جماعتیں ہی تین تین بار منتخب ہوتی رہی ہیں لیکن کیا ہم جانتے نہیں کہ ایسا کیونکر ممکن ہواہے؟ مشرف کی حکومت کے دوران بھارتی جریدے ایشین ایج کے مدیرِ اعلیٰ ایم جے اکبر نے اپنے ایک مضمون 'Both cause and effect'میں پاکستانی سیاست کے خدوخال پہ بحث کرنے کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ '' اگر پاکستان میں مشرف حکومت عوام کی نمائندگی نہیں کرتی توآخر اور کس کی نمائندگی کرتی ہے؟ ذرا سوچئے!‘‘ اس میں نجانے سوچنے کی کیا بات ہے؟ ایم جے اکبر صاحب کا وہ مضمون تو ایک عمومی بھارتی سوچ کا غماز تھا۔انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم نگار جم ہوگ لینڈ کا حوالہ بھی دیا تھاجن کا کہنا تھا کہ '' مالی امداد کا یہ کھیل جنرل مشرف سے بہتر اور کوئی نہیں کھیلتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے غیر متوازن تعاون کی امریکہ کو بہت بھاری اخلاقی و مالی قیمت چکانی پڑی ہے۔ اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واشنگٹن والوں کی غیر مشروط فیاضی کی بدولت پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے کہ وہ دہشت گردی جیسے معاملے میں بھی امریکہ کے ساتھ ایک کھلواڑ رچا لیں۔ان کی یہ جسارت تو ذرا ملاحظہ کریں!‘‘ سچ یہ ہے کہ پاکستان کیلئے امریکی حمایت بھارت سے کبھی ہضم ہوتی ہی نہیں۔ کئی عشروںسے جمہوری و فوجی حکومتیں اس ملک کا جو حا ل کرتی رہی ہیں اس سب کے باوجود یہاں زندگی کا چکر یوں ہی رہا ہے۔ ہندوستانیوں کو اور کیا چاہئے؟ ہمارا خون؟
ڈاکٹر وائن ڈائر نے لیڈروں کی یہ بات بھی رد کی ہے کہ وہ ملک میں کوئی قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں۔بقول ان کے شہری حقوق کے حصول کی جدوجہد میںعوام کی قیادت کسی بھی سیاستدان نے نہیں کی تھی۔ڈاکٹر ڈائر پوچھتے ہیں کہ کیا تحریک ِاحیائے علوم کے قائدین سیاستدان یا سرکاری عہدیداران تھے؟ نہیں! اس تحریک کے لیڈران بھی وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے فن، اپنی تحریروں ، اپنی موسیقی اور سرکاری عہدیداران کے دیرینہ نظریات کو للکارتے ہوئے لوگوں میں نیا شعور بیدار کیا تھا۔ کیا پاکستان میں کوئی ایک لیڈر بھی ایسا ہے جس نے اپنے پیش رو کے پختہ و دیرینہ نظریات کو عملاً للکارا ہو؟ ہر آنے والا سب اچھا کر دینے کے بڑے بڑے وعدے تو بلند بانگ کرتا ہے لیکن آخر میں وہ بھی ڈھیر ہو جاتا ہے۔کیا کبھی بھی کسی سیاستدان نے عوام کے لئے ملازمتوں کے مواقع تخلیق کئے ہیں؟ بالکل بھی نہیں!ان کی تخلیق کردہ ملازمتیں صرف ان کے اعزا و اقربا کے لئے ہوتی ہیں۔باقی عوام کو پیٹ بھرنے کے لئے اپنی ہی محنت و صلاحیتوںپہ بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ سرکار صرف نوٹ چھاپتی ہے، ضوابط مرتب کرتی ہے، قوانین کی منظوری دیتی ہے ، ملازمتوں کی تخلیق کا کام عوام ہی سرانجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ کمیٹیوں میں بیٹھ کر ذاتی اہمیت کے مینارے بلند کرکے نہیں بلکہ محنت کر کے اور صلاحیتوں کے استعمال کے ذریعے پیسہ کماتے ہیں۔جب انتخابات کا وقت آتا ہے تویہ سیاستدان لوگ عوامی بالادستی کے لئے اپنی حمایت کے اظہار کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان نعروں میں
بذاتِ خود یہی سوچ مضمر ہوتی ہے کہ گویا عوام خود کوئی طاقت نہیں رکھتے اور صرف سرمایہ دار طبقہ ہی با اختیار ہے۔ڈاکٹر وائن ڈائر چپ رہ کر تکالیف سہنے والی خاموش اکثریت کے بڑ ے حامی ہیں۔ وہ انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ '' آپ لوگ طاقت ور ہیں، خدا کے ساتھ آپ کا ایک تعلق ہے۔ آپ جس کام کا مصمّم ارادہ کر لیں،اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا آپ کے لئے ممکن ہے۔‘‘ انہوں نے مشہور مصور مائیکل اینجلو کا یہ قول بھی نقل کیاہے کہ '' ہم میں سے اکثر کے لئے سب سے زیادہ خطرناک یہ بات نہیں کہ ہمارا مقصد اپنی بلندی کے سبب ہمارے لئے ناقابلِ حصول ہو جائے، بلکہ خطرناک ترین بات یہ ہے کہ ہمارے مقاصد اپنی پستی کے سبب سہل الحصول ہوں۔‘‘ہم امید رکھتے ہیں کہ سن دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں پاکستانی ووٹروں کو ہمت ملے اور وہ انہی پرانے چہروں کو منتخب کرنے کی بجائے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ کا فیصلہ کریں۔ ڈاکٹر وائن ڈائر کی پُر حکمت باتوں سے چند ایک مشوروں کی ایک فہرست ہم ذیل میں دے رہے ہیں جو ایک خوشحال زندگی گزارنے اور اگلے انتخابات میں درست جماعت کے انتخاب میں یکساں طور پر مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
-1آپ کا ذہن ایسا ہونا چاہئے کہ کسی بھی چیزکی قبولیت کے لئے یہ کھلا رہے لیکن وابستگی میں مبتلا نہ ہوتا ہو۔
-2 مسائل کی تحلیل اسی ذہن کے ساتھ نہیں ہو سکتی جس کے تحت ان کی تخلیق ہوئی ہو۔
-3اپنے اصولوں اور اپنی اقدار کی قدر کیجئے۔
-4 حکمت اسی میں ہے کہ ان تمام لوگوں سے کنارہ کر لیا جائے جو ریاستی نظم و نسق کو کمزور کرتے ہیں۔