امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں پہ پابندی کا جو نظر ثانی شدہ بل سامنے آیا ہے اس کا انجام بھی شاید وہی ہو گا جو امسال جنوری میں لائے گئے اس کی اولین صورت کا ہوا تھا۔ موت تو اس کی یقینی ہے؛ تاہم، ایک مذہب کو یوں ہدف بنائے رکھنا‘ جیسا کہ امریکی صدر نے اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران کیا اور اب بھی کر رہے ہیں، وہ چیز ہے‘ جو امریکی آئین سے متصادم ہے۔ پچھلے دنوں سی این این پہ محمد علی جونیئر اور ان کی والدہ کا انٹرویو نشر ہوا۔ دونوں نے بتایا کہ کس طرح جمیکا سے فلوریڈا کے فورٹ لاڈرڈیل ایئرپورٹ پہنچنے پر امیگریشن حکام نے دو گھنٹوں تک ان سے پوچھ تاچھ کی۔ ان سے بار بار پوچھا گیا کہ ان کا مذہب کیا ہے اور جب انہوں نے بتایا کہ اسلام‘ تو پھر ان سے مزید سوالات بھی کئے گئے۔ برسوں پہلے ایک وقت تھا کہ جب معروف اطالوی صحافی اوریانہ فیلاسی نے پاکستان میں کئی لوگوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔ یہ لوگ اس عورت سے ملاقات کے لئے بے تاب رہتے تھے۔ اپنے اقتدار کے عروج کے زمانے میں ان خادمینِ عوام کی انانیت گو آسمان کو پہنچی ہوتی تھی، لیکن اوریانہ کے پیچھے یہ لوگ بڑا بھاگتے تھے کہ وہ ان کا انٹرویو کرکے انہیں دنیا کے سامنے پہلوانانِ اسلام کے طور پر پیش کرے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بڑے ہی پاپڑ بیلے۔ اوریانہ پہ ڈورے ڈالنے کی کوشش کی اور اس تند مزاج عورت کو جیتنے کی کوششیں بھی کرتے رہے۔ اوریانہ فیلاسی کا انتقال 2006ء میں ہوا۔ ایک وقت میں اس نے خود کو تمام سرگرمیوں سے بالکل الگ کر لیا تھا‘ اور مین ہٹن کے ایک اپارٹمنٹ میں تنِ تنہا رہنے لگی تھی؛ تاہم اپنی موت سے چند سال قبل اس نے اسلام کے خلاف اپنی خاموشی توڑ ڈالی تھی۔ اپنے لئے لفظ صحافی کا استعمال ترک کرتے ہوئے اس نے ''مصنفہ‘‘ کا لفظ اپنا لیا تھا۔ گیارہ ستمبر سن دو ہزار ایک کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پہ حملے کے بعد اوریانہ فیلاسی نے اپنی ریٹائرمنٹ ترک کرتے ہوئے ایک بار پھر مضامین اور کتب کی تصنیف کا کام شروع کیا۔ اس کی تحاریر عموماً اسلام مخالف ہوا کرتی تھیں۔ اس کی زندگی نیویارک اور فلورنس میں تقسیم ہو گئی تھی۔ اس کی کتاب The Rage and the Pride اس کی نسل پرستی، اجنبیوں سے تنفر اور باطنی جنونیت کی غماز تھی۔ مسلمانوں کے خلاف اس کی نفرت، برانگیختگی اور کراہت‘ مذہبِ اسلام سے اس کی لاعلمی ثابت کرتی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح ٹرمپ اور اس کے حامیوں کی مسلمانوں سے نفرت ان کی اسلام سے لاعلمی ثابت کرتی ہے۔ جس زمانے میں ٹی وی کی ایک ماہر میزبان کے طور پر جب اسے سراہا جاتا تھا تو اس نے ایک بار لکھا تھا کہ ''ہر تجربے پہ میں اپنی روح کے ذرّات چھوڑتی ہوں‘‘۔ اس زمانے میں اس کی شخصیت قابلِ احترام حد تک معتبر معلوم ہوتی تھی؛ تاہم The Rage and the Pride جیسی متعصبانہ کتاب لکھ کر اس نے انتہائی سطحی سوچ کا ثبوت دیا۔ اس کی اس کتاب پہ ایک تبصرے میں لکھا گیا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے‘ جیسے یہ عورت سارے کردار ہی خود نبھا رہی ہے۔ وہ ایک پیش خبریاں دینے والی معلوم ہوتی ہے اور ایک ایسی ہیروئن بھی جس کے ساتھ المناک حد تک ظلم کیا گیا ہو، ایسی جنگجو بھی جو انتقام کو عذاب بنا دینے پہ قادر ہو، اسے تسلیم نہ کرنے والوں کو آگ میں بھسم کرنا بھی اس کے لئے ممکن ہو اور اپنے جذبات کی حدت اور افعال کی شدت سے ان کے اسباب و اموال بھی برباد کر سکتی ہو۔ اگر کتاب کے مطالعے کے بعد قاری کو ہتھیار پکڑا دینا اس کے لئے ممکن ہوتا تو یقینا وہ یہ بھی کر گزرتی۔ اس کی تعصبانہ حجت بازیاں ہی اسے ایسی باتیں کہنے پہ مجبور کرتی تھیں کہ اٹلی صرف اطالویوں کا ہے۔ مسلمانوں سے وہ اس قدر نفرت کرتی تھی کہ اس کا کہنا تھا کہ فلورنس آنے والے مسلمان تارکینِ وطن اس کے وطن پہ حملہ آور ہو رہے ہیں‘ اور اس کے وطن کو پامال کر رہے ہیں۔ اس کی نظر میں یہ لوگ دہشت گرد، چور، ڈاکو، جرائم پیشہ، زنا کار، بھکاری، منشیات فروش اور متعدی امراض میں مبتلا تھے جنہوں نے اٹلی کو ایک غلیظ قصبہ بنا دیا ہے۔ یاسر عرفات تک کو اس نے نہیں بخشا تھا۔ عربوں کو من حیث القوم وہ گندا قرار دیتی تھی۔ تارکینِ وطن اور بالخصوص مسلمانوں سے اس کے تنفر کا یہ عالم تھا کہ اس نے پاکستان، البانیہ، سوڈان، تیونس، مصر، الجیریا اور نائجیریا جیسے ممالک کا نام لے کر ان ممالک سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کو حملہ آور افراد بتایا جو منشیات کے کاروبار اور قحبہ گری کی سرپرستی کرتے ہیں اور ایڈز کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے اپنی نفرت اور برانگیختگی کا اظہار کرتے ہوئے اس نے یہ تک کہا کہ شاید اسامہ بن لادن ہی تمام مسلمانوں کو ترکِ وطن کرکے مغرب میں آباد ہونے کے لئے مالی معاونت فراہم کرتا ہے۔ فیلاسی کے لئے اس کرہء ارض پہ رہائش رکھنے والا ہر مسلمان ایک خطرہ تھا۔ اس کی کتاب Interview with History سالوں تک بیسٹ سیلر رہی۔ اس نے ایک بار یہ کہا تھا کہ جن لوگوں کے اس نے انٹرویوز کئے ان میں سب سے زیادہ مہذبانہ تعلق اس کا ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ رہا‘ اور اردن کے شاہ حسین بھی ان کی نظر میں ایک بہترین بادشاہ تھے۔ اوریانہ فیلاسی نے بھٹو صاحب کا جو انٹرویو لیا‘ وہ پاکستان ٹیلی ویژن پہ بھی نشر کیا گیا تھا؛ تاہم یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس انٹرویو میں انہوں نے جو باتیں کہی تھیں‘ ان کی وجہ سے وہ کافی مصیبتوں میں پھنس گئے تھے۔ انہوں نے اندرا گاندھی کے بارے میں چند ایک ایسی باتیں فیلاسی کو بتائیں‘ جن کی وجہ سے شملہ معاہدہ تقریباً خطرے میں پڑ گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ تشویش کے مارے اٹلی میں پاکستانی سفیر بریگیڈیئر حامد نواز سے رابطہ کرکے انہیں اٹلی کے طول و عرض میں اوریانہ فیلاسی کو تلاشنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ بریگیڈیئر حامد نواز قانون و انصاف اور ماحولیاتی تبدیلی کے وفاقی وزیر زاہد حامد اور پاناما گیٹ کیس میں میاں صاحب کے وکیل شاہد حامد کے والد تھے۔ انہوں نے اوریانہ فیلاسی کو ڈھونڈ نکالا اور اس سے استدعا کی کہ اس انٹرویو سے وہ جملے حذف کر دیے جائیں لیکن فیلاسی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اوریانہ فیلاسی کا ہی ایک کلون ہے۔ اسے یقین ہے کہ ان چھ مسلمان ممالک کے لوگوں کو امریکہ سے باہر رکھنا امریکہ کو بہت ہی محفوظ بنا دے گا؛ تاہم ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ کی لیک شدہ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے کافی شواہد موجود نہیں کہ ان چھ سات ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد امریکہ کے لئے خطرہ ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملکی پس منظر امریکہ میں دہشت گردی کے خطرات کا اشارہ نہیں ہو سکتا۔ جنابِ ٹرمپ نے اپنی پابندی میں جن چھ ممالک کے نام درج کئے ہیں ان سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد شاذ ہی 2011ء کے بعد شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے وقت سے امریکہ میںکسی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث رہا ہے۔ تین صفحات پہ مشتمل اس رپورٹ میں لکھا تھا کہ حکومت نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں سے متاثر جن بیاسی افراد کی نشاندہی کی ہے ان میں نصف سے زائد پیدائشی امریکی تھے، جو امریکہ میں ہی پلے بڑھے اور یہیں ان میں انتہا پسندی پیدا ہوئی۔ باقی افراد کا تعلق چھبیس دیگر ممالک سے تھا جن میں صومالیہ، بنگلہ دیش، کیوبا، ایتھوپیا، عراق اور ازبکستان بھی شامل ہیں۔ ان میں صرف عراق اور صومالیہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پابندیوں والی فہرست میں شامل ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق امریکہ میں دہشت گردانہ کارروائی کرنے والے کا کوئی نہ کوئی تعلق عموماً پاکستان یا افغانستان سے ہوتا ہے۔ پچھلے سال اورلینڈو فلوریڈا کے ایک نائٹ کلب میں انچاس افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والا عمر متین افغانی نژاد امریکی تھا۔ انتیس برس اس کی عمر تھی اور خود کو وہ مجاہد کہا کرتا تھا۔ داعش کے لئے اپنی وفاداری کا اظہار بھی اس نے متعدد بار کیا تھا۔