تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو پکارا

متحدہ کے قائد الطاف حسین نے خوش گمانی کا ادنیٰ سا شائبہ بھی برقرار نہیں رہنے دیا۔ خود فریبی البتہ ایک مرض ہے جس میں قائد تحریک اور ان کے پیرو کار بری طرح گرفتار ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کا اب بھی اصرار ہے کہ الطاف حسین نے بھارت اور نیٹو سے مدد نہیں مانگی ؎
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
الطاف حسین کی تقریر پڑھ کر میں نے بنگلہ بندھو کی 1971ء میں کی گئی تقریروں کو بارِد گر پڑھا۔ شیخ مجیب الرحمن نے 25مارچ1971ئتک کسی تقریر میں یوں کھلے عام بھارت کو پاکستان میں مداخلت کے لیے اکسایا‘ نہ اپنے کارکنوں کو اقوام متحدہ اور نیٹو سے رجوع کر کے انہیں اپنی فوج بھیجنے پر مجبور کرنے کی تلقین کی اور نہ گریٹر پنجاب‘ گریٹر پختونستان اور گریٹر بلوچستان کا نعرہ بلند کیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے بھارت سے اپنے رابطوں کا اعتراف مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد لندن اور نئی دہلی میں کیا جبکہ ڈھاکہ کی آخری تقریر میں انہوں نے جئے پاکستان کا نعرہ لگایا ۔
الطاف حسین کی تقریر کو عمران فاروق کیس اور منی لانڈرنگ کیس میں پیش رفت اور کراچی میں ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کی گرفتاری سے جوڑنا درست ہے مگر الطاف بھائی کی اصل پریشانی اور پاکستان کے علاوہ اس کے قومی اداروں سے ناراضگی کا سبب کچھ اور ہے۔ ایک گریٹ گیم کی ناکامی پر وہ تمام پاکستان مخالف قوتیں ہیجان اور اضطراب میں مبتلا ہیں جو 2020ء میں پاکستان کی بندر بانٹ اور حصوں بخروں میں تقسیم(خاکم بدہن) کے نہ صرف خواب دیکھ رہی تھیں بلکہ اس حوالے سے تحقیقی مضامین اور پالیسی دستاویزات تیار کر کے آپس میں بانٹ چکی تھیں۔
پاکستان میں نسلی‘ لسانی ‘ علاقائی‘ صوبائی اور مسلکی و مذہبی اختلافات و تعصبات کا بیج اس مقصد کے لیے بویا گیا اور سیاست میں علاقائیت پرستی و قوم پرستی کا عنصر اسی ہدف کے حصول کے لیے شامل کیا گیا۔ ایک نفرت انگیز مہم کے ذریعے پنجابی‘ سندھی ‘ پختون ‘ بلوچ ‘ سرائیکی اور شیعہ سنی ‘ دیو بندی بریلوی اور مقلد غیر مقلد کے تنازعات کو ہوا دی گئی۔ یہ مہم اس حد تک کامیاب رہی کہ مسلمان اور پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت کرانا آسان نہ رہااور تعصبات و نفرت کے مبلغ سینہ تان کر اپنا راگ الاپنے لگے۔
1980ء اور 1990ء کے عشروں میں یہ فصل پک کر تیار ہوئی تو امریکہ و یورپ اور بھارت کے اخبارات و جرائد میں ایسے مضامین کی بھرمار ہو گئی جس میں پہلے 2010ء ‘پھر 2015ء اور آخر میں 2025ء تک برصغیر کی سرحد یں تبدیل اور اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کی پیش گوئیاں کی گئیں۔
امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کی شہ سرخی ہی یہ تھی''برصغیر کی سرحد یں 2020ء سے 2025ء تک تبدیل ہو جائیں گی‘‘۔ بااثر بھارتی اخبار آئوٹ لک نے گریٹ گیم پر ایک کور سٹوری شائع کی جبکہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ''ایشیا 2025ء‘‘ کے عنوان سے دستاویز تیار کرنے کی اطلاع فراہم کی۔ یہ دستاویز اسسٹنٹ سیکرٹری آف ڈیفنس کے لیے تیار کی گئی تھی۔
ان تمام مضامین اور دستاویزات کا خلاصہ یہ تھا کہ ''(خدانخواستہ) 2020ء تک پاکستان تمام ریاستی اداروں کے تباہ ہونے پر ناکام ریاست بن جائے گا‘ بُری حکمرانی‘ حد سے زیادہ بدعنوانی کے باعث تباہ حال سماجی و اقتصادی صورتحال اور غربت زدہ آبادی کی بے چینی کے باعث انارکی پھیلے گی جس کی وجہ سے پاکستان اپنی علاقائی سالمیت کھو سکتا ہے‘‘۔
بھارتی جریدہ آئوٹ لک نے لکھا''حکومت کو اسلام پسند جہادیوں پر کنٹرول نہیں رہے گا جو ملک پر اختیار حاصل کر لیں گے اور کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔ بھارت کے دبائو پر پاکستان ان جہادیوں کو روکنے اور کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہا تو بھارتی افواج کنٹرول لائن کو پار کر تے ہوئے آزاد کشمیر میں داخل ہو جائیں گی‘‘۔ اس کے بعد آئوٹ لک نے ایک ایسی جنگ کی پیش گوئی کی جس میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تباہ کر دیے جائیں گے اور آزاد بلوچستان ‘ آزاد پختونستان اور آزاد سندھ کا قیام ممکن ہو گا۔
امریکی جریدہ 'اٹلانٹک‘ نے پینٹاگان کے ایک مشیر برائے برصغیر پاک و ہند رابرٹ کیپلن کا تجزیاتی مضمون شائع کیا جس میں انہوں نے تحریر کیا کہ ''پاکستان کو یوگو سلاویہ کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکتا ہے‘‘۔ یہ سارا مواد پندرہ بیس سال سے زیر گردش ہے اور ایک ڈیڑھ سال پہلے تک یہ قرین قیاس نظر آتا تھا مگر آپریشن ضرب عضب‘ بھارت میں نریندر مودی کی انتہا پسند جبکہ افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی نسبتاً پاکستان دوست حکومت کے قیام کے علاوہ شرق اوسط میں بحران اور خطے میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور یہ پیش گوئیاں دم توڑنے لگی ہیں۔ یہ تبدیلی بھارت ہی نہیں پاکستان کو یوگو سلاویہ کے انجام سے دوچار دیکھنے والے ہمارے تمام دشمنوں اور مہربانوں کے لیے سوہان روح ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی کامیابی ‘پاکستان کوہر طرح کی دہشت گردی سے پاک کرنے کا عزم موجودہ فوجی اور سیاسی قیادت کا نصب العین ہے اور کم از کم اس معاملے میں پوری سیاسی و مذہبی قیادت حکومت اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ کراچی میں آپریشن کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں القاعدہ ‘ طالبان‘ جند اللہ اور بی ایل اے جیسی تنظیموں کے وابستگان کا قلع قمع ہو رہا ہے اور عقل مند فراریوں نے ہتھیار ڈالنے کا راستہ اختیار کیا ہے جبکہ بیرون ملک بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے حالات سازگار نہیں کیونکہ آرمی چیف امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک حتیٰ کہ سری لنکا ‘جنوبی افریقہ تک کو قائل کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی ان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں اور اگر وہ اس جنگ کی کامیابی چاہتے ہیں تو ان پاکستان دشمن عناصر کی سرکوبی میں ہماری مدد کریں جو باہر بیٹھ کر پاک فوج کی توجہ آپریشن ضرب عضب سے ہٹانے میں مصروف ہیں۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ آرمی چیف جب برطانیہ ‘ سری لنکا اور جنوبی افریقہ جاتے ہیں تو بھارت کی اشتعال انگیزی بڑھ جاتی ہے اور پاکستان میں بھی اس کے گماشتوں کی چیخ و پکار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کراچی کی طرح سری لنکا اور جنوبی افریقہ بھارتی''را‘‘ کے لیے اب جنت نہیں اور ناقدین الطاف حسین کی سینہ کوبی کو ان سے جوڑتے ہیں۔ ایم کیوایم نے سندھ میں بسنے والے مہاجروں کی محرومی اور حق تلفی سے جنم لیا۔ کوٹہ سسٹم کا فی الفور خاتمہ‘ بلدیاتی اداروں کا قیام اور مہاجروں سے ریاستی اداروں کی زیادتی کا ازالہ بہر صورت ہونا چاہیے۔ جن لوگوں کے آبائو اجداد نے پاکستان کی خاطر ہجرت کی اور اپنے ساتھ تہذیب و شائستگی کے علاوہ انتظامی تجربے‘ شعرو ادب اور جدت و ندرت کا سرمایہ لے کر کراچی و حیدر آباد آئے‘ ان کی موجودہ نسل کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔
مگر احساس محرومی کی آڑ میں پاکستان پر تبّرا ‘ ریاستی اداروں کو گالی گلوچ‘ قمر منصور کی گرفتاری پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط ‘ بھارت کو غیر ت دلانا اور کارکنوں کو یو این اور نیٹو فورسز سے رجوع کرنے کی ہدایت؟ یہ سیاست نہیں کچھ اور ہے۔ بائی پولر ڈیپریشن کے ایک مریض کا غیر متوازن انداز فکر اور استحکام کی جانب رواں دواں پاکستان کو ایک بار پھر عدم استحکام سے دوچار کرنے کی شعوری یا غیر شعوری سعی و تدبیر۔
الطاف حسین کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ اپنے پیروکاروں اور مداحوں کو کن مشکلات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ کم و بیش تیس سال قبل لاڑکانہ میں ایک ملاقات کے دوران الطاف حسین نے بنگلہ دیش میں بہاریوں کی ''نادانی‘‘ کا ذکر کیا تھا جو مقامی بنگالی آبادی کے ساتھ تال میل بڑھا نہ سکے۔ آج الطاف حسین مہاجروں کو سندھیوں ہی نہیں دیگر زبان و نسل کے حامل پاکستانیوں سے الگ تھلگ کرنے کی راہ پر گامزن ہیں اور ایک محب وطن کمیونٹی کو تباہی و بربادی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ‘ رابطہ کمیٹی اور پُرجوش کارکنوں میں سے کوئی بھی الطاف حسین کے ہاتھ روکنے پر قادر ہے‘ نہ زبان بندرکھنے کا مشورہ دینے کے قابل۔ خوش بخت شجاعت‘ فاروق ستار‘ واسع جلیل‘ نسرین جلیل ‘ خالد مقبول صدیقی اور امین الحق میں سے کوئی توبولے! بغاوت ہرگز نہ کرے ‘احتیاط کا مشورہ تو دے۔ کیا پاکستان اور اس کے ستم رسیدہ عوام کا ان پر اتنا بھی حق نہیں۔ کراچی میں قیام امن اور ''را‘‘ نیٹ ورک کی تباہی پر بھارت اور ہمارے دیگر دشمنوں کی بے چینی‘ غصہ اور اشتعال تو قابل فہم ہے، بھارت سے ترک وطن کر کے پاکستان سے عزت‘ شہرت اور دولت سمیٹنے والوں کو تو دشمنوں کے عزائم اور منصوبے خاک میں ملنے پر خوش ہونا چاہیے، ناکہ برہم‘ آپے سے باہر اور آمادۂ پیکار۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں