"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا سوال

1973ء کے آئین کے تحت جمہوریت کی تلاش میں ہونے والے9انتخابات کے ذریعے پانچ جمہوری جماعتیں مکمل شخصی وراثت بن گئی ہیں۔ یہ نو کی نو خالص جمہوری حکومتیں قوم کو پریشانی، مہنگائی‘ بے روزگاری‘ انصاف کی عدم فراہمی اور دہشت گردی سے نجات دلانے میں مکمل نااہل ثابت ہوئیں۔ آئین کے 32 آرٹیکلز پاکستان کے عوام کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ ان سب سے انحراف کیا گیا۔ 1973ء کا آئین صرف حاکمیت کے قوانین پر مبنی ہے جو کسی نظام کو وضع کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وزیرستان پاکستان کا حصہ ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی اسے پاکستان کا حصہ نہیں سمجھا۔ وہاں نہ پہلے آئین پاکستان کا اطلاق ہوتا تھا اور نہ اب ہو رہا ہے۔ پاکستانی کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 9سال کی کاوشوں کے بعد وحدانی طرز کی بنیاد پر 23مارچ1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین نافذ کیا۔ اس طرح8جون1962ء کوآئین نافذ کیا گیا تو قبائلی علاقے سرزمین بے آئین تھے۔ اس ملک کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا لیکن قبائلی علاقوں کے عوام کے بنیادی حقوق کی یہ آئین ضمانت نہیں دیتا۔
پاکستان میں انتخابات آئین کے آرٹیکل 63, 62, 38, 3, 2.Aکی روح کے مطابق کبھی بھی نہیں ہوئے۔ حکومتیں انتخابات کو آئین کی روح کے مطابق منعقد نہ کروا کر آئین سے انحراف کرتی رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات کے تعین کے بارے میں 1973ء کے دستور میں واضح حکمت عملی طے نہیں ہوئی۔ اسے بڑی رازداری سے تہہ در تہہ آئینی دفعات اور قوانین میں جکڑکے رکھا گیا ہے۔ اس کے تمام فیصلے الیکشن ٹربیونلز ، الیکشن اسٹیبلشمنٹ، ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، ریٹرننگ افسران، عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کسی حلقے کا انتخاب کالعدم قرار دینے، بعض پولنگ اسٹیشنوں پر ازسرنو پولنگ کرانے، الیکشن عملے کا تقرر کرنے، پولنگ اسٹیشنوں کے لیے جگہ کا تعین کرنے، ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے، کاغذات ِ نامزدگی منظور یا نا منظور کرنے کے تمام مراحل، الیکشن کا رزلٹ تیار کرنے، یا کسی حلقے میں از سر نو گنتی کرانے کا فیصلہ کرنے کا از خود مجاز نہیںہے۔ اسے الیکشن کے ہر مرحلے پر ریٹرننگ افسران کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ عدلیہ کے ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کی طرف دیکھنے کے بجائے متعلقہ ہائی کورٹس کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کے دور میں الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت کی گئی جو کہ بادی النظر میں آرٹیکل 219کی خلاف ورزی ہے۔ الیکشن کمیشن کو دبائو میں رکھا اور سیکرٹری اشتیاق احمد خاں کو بلا وجہ ہراساںکیا گیا۔ اسی بناء پر انہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ 18ویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن پارلیمانی کمیٹی اور پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے نرغے میں آگیا۔ انتخابات میں دھاندلی کے شاکی سیاستدانوں اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ 18ویں ترمیم اور آئین کے آرٹیکل 213میں مزید ترامیم کر کے اور آئین کے آرٹیکل 213میں قومی مفادات میں ترمیم کر کے الیکشن کمیشن کی آئندہ انتخابات کے لئے تشکیل نو کرائیں اور اس آئینی اِدارے کو پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے اثرو رسوخ سے آزاد کروائیں۔ الیکشن کمیشن کو مالی طور پر خود مختار اور انتظامی طور پر فعال، بااثر اور آزاد بنانے کے لئے صدر پرویز مشرف نے 10مئی 2000ء کو الیکشن آرڈر2000ء کے تحت مکمل آزادی سے ہمکنار کر دیا تھا اور اس سے پہلے کسی جمہوری حکومت نے پاکستان کے الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کی سعی نہیں کی تھی۔
جمہوری دور میں18ویں ترمیم کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے ارکان‘ جنہوں نے آئندہ انتخابات میں حصہ لینا ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرتے ہیں اور ان سب کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ہمنوا اپوزیشن ارکان کو چاہیے کہ وہ زمینی حقائق کے مطابق آئین 
میں ترامیم کرائیں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 213پر نظر ثانی کرتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی کے بجائے چیف جسٹس اور چاروں صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل اعلیٰ سطح کا کمیشن بنائے جو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کرے‘ تاکہ الیکشن کمیشن حقیقی معنوں میں خود مختار، آزاد اور بااختیار ہو کر فرائض سر انجام دے سکے۔ اس طرح الیکشن کمیشن پارلیمانی سیاست کے اثر سے آزاد ہو گا اور درست سمت کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 76کے تحت انتخابات میں ریٹرننگ افسران پر مکمل کنٹرول نہیں ہوتا۔11مئی2013ء کے انتخابات سے پیشتر بھی جسٹس فخرالدین جی ابراہیم پر دبائو رکھا گیا اور ریٹرننگ افسران کی نگاہیں سابق چیف جسٹس کی طرف لگی رہیں اور ان کے خطبات سے الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ افسران متاثر ہوتے رہے۔ 
میرے خیال میں سابق چیف جسٹس کے ریٹرننگ افسران سے خطاب اور بعدازاں انہیں لکھے گئے خطوط سے الیکشن کمیشن اپنی پالیسی کو بروئے کار لانے سے قاصر رہا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لئے آئین کے آرٹیکل 224میں ترمیم ضروری ہے۔ بھارت میں یہ تجربہ 20سال بعد کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ پاکستان میں یہ کام چار پانچ سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔ اس سے الیکشن میں دھاندلی کے امکانات ختم ہو سکتے ہیں اور الیکشن میں ووٹنگ کی شرح کا تناسب مزید بڑھ جائے گا۔ 
زمینی حقائق کی روشنی میںتجویز یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن کے منصفانہ انعقاد کے حوالے سے کچھ عرصے کے لیے‘ یعنی جب تک پارلیمنٹ، میڈیا اور عدلیہ مطلوبہ پختگی کی منزل حاصل نہیں کر لیتیں اور پاکستان سکیورٹی کے مسائل سے نکل کر اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کی منزل کی طرف گامزن نہیں ہو جاتا‘ افواجِ پاکستان کو ایک رول دے دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جمہوری دور میں سیاست، عدالت اور صحافت میں سب سے مؤثر رول عسکری اِداروں کا ہی ہے‘ لیکن چونکہ براہِ راست کنٹرول ان کے پاس نہیں‘ اس لیے وہ ملک کے سیاستدانوں کی نااہلی، کرپشن اور حکومتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر نہیں بنا سکتے۔ 
یوں بہتر ہو گا کہ فوج کو حکومت میں آئینی کردار دے دیا جائے اور آئین میں ترمیم کر کے ان کا کردار نئے صوبوں کی تشکیل اور وفاق اور مرکز کے درمیان تعلقات، مذہب اور سیاست کے تعلق، عدلیہ کی تشکیل نو، میڈیا کے کردار اور اسی نوع کے دیگر بنیادی معاملات تک وسیع ہونا چاہیے اور موجودہ حالات میں سول ملٹری تعلقات کے معاملے کو حل کرنا ضروری ہے۔
موجودہ طرزِ جمہوریت کے اِس نظام میں اکثریت یعنی عوام کا نہیں بلکہ اقلیت یعنی حکمرانوں کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس نظام نے قومی اِداروں کو کھوکھلا اور پاکستان کے عوام کو مفلوج کر دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں