اقبالؒ کو خدا حافظ

جس نابغے نے یوم اقبالؒ کو پاکستان میں بند کر کے ‘ ہمارے قومی وجود پر ضرب لگائی ہے ‘ اسے بھارت کی کسی ہندو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ضرور ملنا چاہیے۔ پاکستان پر یقین رکھنے والا کوئی مفکر یا دانشور‘ہر سال منائی جانے والی یوم اقبالؒ کی تقریبات اوریادگاری چھٹی کو ختم نہ کرتا۔ اقبالؒ محض ایک شخص یا شاعر کا نام نہیں‘ فکر اور نظریے کا نام ہے۔ وہ فکر اور نظریہ جس نے برصغیر کی تاریخی حقیقت کو دریافت ہی نہیں‘ثابت بھی کیا اوردونوں قوموں کے وجود کی حقیقت کے نظریاتی اور جغرافیائی وجود کا اعتراف بھی کرا لیا۔قائداعظم محمد علی جناحؒ یقیناً بانی پاکستان ہیں لیکن قوم پرست محمد علی جناح‘ؒ جو برصغیر کی تحریک آزادی کی صف اول میں ایک نمایاں لیڈر تھے‘ انہیں نہ صرف اقبال ؒ نے دریافت کیا بلکہ مسلمانوں کا متفقہ لیڈر بنا کر‘تحریک پاکستان میں جان بھی ڈال دی ۔ اگرپاکستان کو معرض وجود میںلانے والے حقائق کا مطالعہ کیا جائے‘ تب پتہ چلتا ہے کہ اقبال ؒاور پاکستان کا رشتہ کیا ہے؟ دو قومی نظریہ‘ اقبالؒ کی تخلیق ہے۔عملی طور پر یہ دو قومیں یعنی ہندو اور مسلمان‘ہزار سال سے زیادہ طویل تاریخ رکھتی ہیں۔ ہم جو اسباق باربار دہراتے اور نئی نسلوں کو پڑھاتے ہیں‘ اس کی نشاندہی کرنے والے علامہ اقبالؒ ہیں اور اسے سیاسی و جغرافیائی حقیقت میں بدلنے والے عظیم قائد‘ محمد علی جناحؒ ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی سیاسی زندگی ایک سیکولر سیاست دان کی حیثیت میں شروع کی تھی۔ وہ آل انڈیا کانگریس کی قیادت کا حصہ تھے۔ان کے ذہن کے کسی گوشے میں مسلمان قوم کا خیال ضرور موجود تھا مگر وہ عملی سیاست میں اس کا اظہارنہیں کرتے تھے۔ یہ اقبالؒ ہی تھے جنہوں نے محمد علی جناحؒ کی ذات میں چھپے ہوئے مسلمان لیڈر کو شناخت کیا اور پھراسے عملی زندگی میں اپنی قوم کی قیادت کا اعزاز قبول کرنے پر آمادہ کر لیا۔قائداعظمؒ کانگریس کی سیکولر سیاست میں اپنے لئے کوئی مستقبل نہیں دیکھ رہے تھے اور وہ مایوس ہو کر برطانیہ چلے گئے ۔ یہ اقبالؒ ہی تھے جنہوں نے محمد علی جناحؒ کومسلسل خط و کتابت کے ذریعے مسلم قوم کی قیادت سنبھالنے پر راضی کیا۔ اس کی تفصیل اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی باہمی خط و کتابت کا مجموعہ پڑھ کر دیکھی جا سکتی ہے۔اقبالؒ صرف جناحؒ کو مسلمانوں کی قیادت پر ہی آمادہ نہیں کر رہے تھے بلکہ خود عملی سیاست میں حصہ لے کر‘ ان کے لئے فضا بھی ہموار کر رہے تھے۔ انہوں نے برصغیر کی سرکردہ مسلمان شخصیتوں کو دو قومی نظریے کے تحت‘ اپنا علیحدہ ملک حاصل کرنے کے تصور کا قائل کیا اور پھر بطور قوم‘ اس کے مستقبل کے خدوخال بھی واضح کئے۔انہوں نے مسلمانوں کی قومی سیاست کی فضا ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ‘ فکری اور سیاسی کام بھی کئے۔ اقبالؒ اپنی زندگی کے آخری ایام میں‘محمد علی جناحؒ کو دو قومی نظریے کی حقیقت منوا چکے تھے۔ 1940ء کی قرار داد لاہور کی صورت میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے خدوخال واضح ہو کر سامنے آگئے۔اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی زندگی کودو افراد کی سوانحی تاریخ سمجھ کر نہیں دیکھنا چاہئے‘ وہ ایک ہزار سالہ پرانی حقیقت کو دریافت کر کے‘ اسے سیاسی نظریے اور جغرافیائی حقیقت میں بدلنے کے تاریخی عمل کا ایک حصہ ہیں۔ان دونوں قائدین کو پاکستان سے الگ کرنا‘اس ملک کی بنیادوں کو ہلانے کے مترادف ہے۔پاکستان کے تصور نے حقیقت کی شکل اس وقت اختیار کرنا شروع کی‘جب دو قومی نظریہ اور مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک کی جدوجہد‘ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
پاکستان حقیقت میں کیسے بدلا؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ اقبالؒ نے دوقومی نظریے کے تحت‘ علیحدہ مملکت کا جو خواب دیکھا‘ قائداعظمؒ نے اسے حقیقت میں بدل دیا۔جو لوگ پاکستان کی بنیاد سے واقف نہیں‘ وہ اپنی کم علمی کی بنا پر‘ سقوط مشرقی پاکستان کو تصور پاکستان کی ناکامی کی شکل میں دیکھتے ہیں۔پاکستان جغرافیائی اکائی کے طور پر‘ یکجا نہ رہ سکا لیکن جغرافیائی علیحدگی کے ذریعے‘ بنگلہ دیش بننے والا علاقہ‘ آج بھی مسلمان قوم کا وطن ہے۔تاریخ کا عمل کسی بھی مقام پر رکتا نہیں۔ وہ ہر لمحے جاری رہتا ہے۔جغرافیے بدلتے ہیں، قوموں کی تشکیلات کا عمل جاری رہتا ہے۔ صرف دو سوسال کے عرصے میں ‘دنیا کی مختلف قوموں کے لوگ امریکہ میں جمع ہو کر‘ ایک نئی قوم کوجنم دے چکے ہیں‘ جو آج امریکی کہلاتی ہے۔آج کا کوئی بھی امریکی‘ ماسوا چند ریڈ انڈینز کے‘ فرزندِ زمین نہیں۔ وہاں کی غالب آبادی دیگر ملکوں سے نقل مکانی کر کے‘ امریکہ گئی اور ایک نئی قوم معرض وجود میں آگئی۔ یہ تازہ مثال ہے۔ا مر و اقعہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں علیحدہ علیحدہ قبیلے موجود تھے۔ وہ اپنے اپنے جغرافیائی علاقوں میں آباد ہو کر‘ قوموں میں بدلتے گئے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ ایک ہزار سال پہلے شروع ہوا تھا۔ مختلف مسلمان فاتحین کے بعد‘ سولہویں صدی میں مغل سلطنت معرض وجود میں آئی‘ جس کے آخری ایام میںانگریز آنا شروع ہو گئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے بعد‘ مغلیہ سلطنت کا خاتمہ کر کے‘ تاج برطانیہ کی حکمرانی قائم کر دی گئی۔ وسطی ایشیا اورشرق اوسط سے‘ مسلمان فاتحین کے ساتھ ساتھ‘ دیگرمسلمان بھی بڑی تعداد میںبرصغیر میں آباد ہوتے رہے اور اس طرح غیر محسوس طور پر‘ د وقومیں ایک ساتھ بستی رہیں۔ ایک ساتھ رہنے کے باوجود‘ ان دونوں قوموں کے باہمی تضادات موجود رہے اور بیسویں صدی میں مسلمان قوم ایک سیاسی حقیقت بن کر‘ اپنا علیحدہ وطن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس ملک کا نام پاکستان ہے اور اس خیال کو جغرافیائی حقیقت میں بدلنے کے سارے عمل کی مشترکہ تشکیل و تکمیل‘دو عظیم شخصیتوں کے ہاتھوں ہوئی۔خیال علامہ اقبالؒ کا تھا۔ سیاست اور جغرافیے میں اسے قائداعظمؒ نے ڈھالا۔ انہی دونوں شخصیتوں نے مل کر‘مسلمانوں کوپاکستانی قوم کی نئی شناخت دی۔ہم اپنے ملک اور قوم کی تاریخ کو انہی دو شخصیتوں کے ذریعے شناخت کرتے ہیں اور انہی کی جدوجہد کے ذریعے‘ برصغیر میں مسلمانوں کا علیحدہ وطن یعنی پاکستان معرض وجود میں آیا۔انہی دونوں شخصیتوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی علیحدہ قومی شناخت کی حقیقت بھی منوائی ۔ جو قومیں اپنے ماضی سے علیحدہ ہونے کی کوشش کرتی ہیں‘ وہ کسی نہ کسی دن اپنے وجود سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔انسانی تاریخ میں مختلف قوموں کی تشکیل اور ان کی تحلیل کا عمل‘ ہمیشہ سے جاری ہے۔پاکستانی قوم نے برصغیر کی سرزمین پر اپنا وطن قائم کیا۔ مختلف وجوہ کی بنا پر‘ وطن تو ایک نہ رہ سکا مگر قوم موجود رہی، البتہ جغرافیائی طور پر اس قوم نے اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے‘ الگ الگ ملک بنا لئے۔
برصغیر کے اندر‘ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا۔ہم اس نئے وطن کو ایک کامیاب سیاسی نظام دینے میں ناکام رہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد‘ منطقی انجام کو پہنچ گئی تو ہماری تاریخ بھی الگ ہو گئی۔ بنگلہ دیش کے بانی‘ مولوی اے کے فضل الحق اور شیخ مجیب الرحمن ہیں۔ ہمارے بانی‘ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ ہیں۔مولوی فضل الحق اورحسین شہید سہروردی‘ بنگلہ دیش کو نہیں دیکھ سکے لیکن آج بھی ان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان سب کے ناموں سے جو مقامات منسوب ہوئے‘ وہ آج بھی جوں کے توں ہیں۔ ہم نے اپنے دونوں بانیوں کو یاد رکھنے کے لئے‘ دو دن مخصوص کر رکھے ہیں۔ اس سال علامہ اقبالؒ کی پیدائش کے حوالے سے9نومبر کو رکھی گئی قومی تعطیل کی روایت توڑ دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے سب سے پہلے‘ یوم اقبالؒ کی تعطیل منسوخ کی، جس کے فوراً بعد‘ پنجاب میں بھی یہ تعطیل منسوخ ہو گئی۔ پھر بلوچستان‘ سندھ اور آزاد کشمیر نے بھی وفاق کی تقلید کی۔ صرف عمران خان کی پارٹی ‘ جن کے پاس خیبر پختونخوا کی حکومت ہے‘ اس کی ہدایت پر اقبالؒ ڈے کی تعطیل برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے نام پر بہت سے مقامات اور ادارے موجود ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک ایک کر کے‘ ان کے نام بھی بدل دیے جائیں گے۔ اگلا وار شاید قائداعظمؒ کے نام پر ہو۔پاکستان کا تصور اور جغرافیہ دینے والوں کی یادیں بھلانے کا سلسلہ کس مقصد کے تحت شروع کیا گیا ہے؟ میں تو اس کا اندازہ نہیں کرپایا۔بے شمار نجی درسگاہوں نے یوم اقبالؒ کی تعطیل برقراررکھی ہے۔پاکستان کے بانیوں میں ایک شخصیت کو فراموش کرنے کا سلسلہ تو وفاق اور پنجاب سے شروع ہو گیا ہے۔ قائداعظمؒ کی باری کب آئے گی؟ خدا کرے‘پاکستان محفوظ رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں