نیا جال لائے پرانے شکاری

وزیراعظم نوازشریف کے خصوصی دورئہ امریکہ کے دوران‘ بعض فیصلہ کن اور بنیادی باتیں زیر غور آئیں گی۔ صدر اوباما نے دوسرے ملکوں سے اپنی افواج نکال لینے کا جو اعلان کیا تھا ‘اس پر نہ تو پوری طرح عمل ہو سکا اور نہ ہی برآمد ہونے والے نتائج‘ امریکی مفادات سے ہم آہنگ ہیں۔ اوباما نے عراق سے اپنی فوجیں ضرور نکالیں لیکن وہاں بھی امریکہ نے علامتی موجودگی برقرار رکھی۔ داعش‘ نے عراق اور شام کے کچھ رقبے کاٹ کر اپنا قبضہ جمالیا‘ جہاں تیل کے کنویں موجود ہیں۔ داعش دہشت گردوں کے اخراجات انہی کنوئوں کی آمدنی سے پورے کرتی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی چاہیں تو داعش کو تیل کی آمدنی سے محروم کر سکتے ہیں مگر وہ ایسا نہیں کر رہے۔ظاہر ہے وہ شرق اوسط کے خطے میں بدامنی کو فروغ دے کر جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ عراق پر فوج کشی کے اصل منصوبے کا حصہ ہیں۔یوں لگتا ہے کہ سابق صدر بش کی نسبت ‘ اوباماشرق اوسط کے بارے میں زیادہ تباہ کاری کر رہے ہیں۔عراق پر امریکہ کا فوجی قبضہ‘ اس ملک کی سرزمین تک محدود تھا لیکن صدراوباما کے عزائم‘ بش کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع علاقوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اوباما نے وسیع تر کھیل کے لئے بساط بچھا ئی ہے۔ باقی ماندہ نتائج امریکہ کی آئندہ حکومتیں حاصل کریں گی۔
شرق اوسط میںامریکی پالیسی کا محور اسرائیل ہے۔ہر امریکی حکومت نے‘ اپنے اپنے عرصۂ اقتدار کے دوران‘ اسرائیل کے دفاع کو بنیادی حیثیت دی ہے۔1956ء میں فرانس اور برطانیہ نے براہ راست فوج کشی کر کے‘ مصر کی قوم پرست فوج کی کمر توڑ دی تھی۔عرب دنیا کی سب سے طاقتور فوج اور قوم پرست سیاسی جماعتیں ‘جو اسرائیل کے لئے حقیقی خطرہ تھیں‘ ان کا وجود ختم کر دیا گیا۔شاہ ایران جو امریکہ کا اتحادی حکمران تھا‘انقلاب نے اس کی ساری فوجی طاقت‘ منتشر کر کے ایران کو نا قابل تسخیر بنا دیا۔پاسدارانِ انقلاب دفاعی اعتبار سے شاہ کی پٹھو فوج کے برعکس ‘ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ اسرائیل ‘ ایران کی انقلابی حکومت سے بے حد خوف زدہ ہے۔اسرائیل بھی واویلا کر رہا ہے کہ ایران‘ ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ چکا تھا اور امن معاہدے کے بعد بھی ‘وہ ایٹم بم بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ صدر اوباما نے کانگریس کو اطمینان دلایا ہے کہ ایران ایٹمی اسلحہ تیار نہیں کر سکے گا۔ خطے میں ایران کی انقلابی حکومت کے تمام مخالفین اب خانہ جنگی میں مبتلا ہیں۔ شام آنے والے کئی عشروں کے لئے کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔لبیا میں ایک طویل خانہ جنگی شروع ہے۔ یمن کی خانہ جنگی طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔بحرین اب پولیس سٹیٹ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ وہاں عوام اور سعودی عرب کی حمایت یافتہ فوج کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔عراق اور شام کی خانہ جنگی سے‘ نیٹو میں امریکی اتحادی ‘ترکی بھی عدم استحکام کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔ عراقی کردوں کو1970ء میں ہی داخلی خود مختاری مل گئی تھی۔ امریکہ کے فوجی قبضے کے بعد کرد‘عراقی فیڈریشن کا حصہ بھی نہیں رہے۔ ان کے علاقے میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ یہ بات اب واضح ہے کہ عراق سے آزاد ہونے والے کرد‘ اپنی قوم کے دیگر باغیوں کی بھی مدد کریں گے اور کسی نہ کسی وقت‘ چاروں ملکوں میںپھیلے کرداپنے علاقوں کو یکجا کر کے‘ کردستان قائم کرنے کا دیرینہ خواب پورا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہو جائیں گے۔سرسری سا جائزہ لے کر دیکھیں تو جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے ملے ہوئے بیشتر مسلمان ملکوں میں انتشار اور عدم استحکام پیدا ہو چکا ہے۔وسطی ایشیا کے مسلم ممالک بھی بغاوتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔افغانستان قریباً چار عشروں سے خانہ جنگی میں مبتلا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے امریکہ کی خوشامد میں افغانستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کو پاکستان میں پھیلا دیا۔مجموعی اعتبار سے عالم اسلام کا بڑا حصہ‘اس وقت انتشار‘ خانہ جنگی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ صرف ترکی اور پاکستان کے پاس منظم اور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والی فوجیں موجود ہیں۔ ان دونوں کے داخلی استحکام کو بھی خطرات لاحق ہیں۔مسلم دنیا میں پاکستان اب واحد ملک رہ گیا ہے جس سے اسرائیل کو خطرہ لاحق ہے اور وہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ اس کا سرپرست اعلیٰ امریکہ‘ پاکستان کی ایٹمی طاقت کو غیر موثر کر دے۔
وزیراعظم نوازشریف کا حالیہ دورہ امریکہ اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ ساری بڑی طاقتیں جن کا بھارت بھی ساتھی بن چکا ہے‘پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیر موثر کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اسرائیل سے زیادہ بھارت‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا مخالف ہے۔ صرف چین ہی ایک ایسا ملک ہے جو پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کا مخالف نہیں۔ دہشت گردی ایک ایسا عنصر ہے جس کی آڑ لے کر‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کسی بھی طریقے سے عالمی نگرانی کے دائرے میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس مقصد کے لئے جو کہانی یا افسانہ مرتب کیا جا رہا ہے‘ وہ ہے دہشت گردی کا خطرہ۔ امریکہ کی قیادت میں پورا مغربی بلاک اور بھارت ایک ہی تھیوری پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیرمحفوظ ہیں۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گرد بہت منظم ہیں اور وہ پاکستان کے دفاعی اداروں میں بھی رسوخ حاصل کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد مثالیں دی جاتی ہیں۔ پاک فوج کے ہیڈ کوارٹر ‘جی ایچ کیو میں دہشت گردوں کا داخلہ‘ کامرہ میں فضائیہ کے خفیہ مرکز پر دہشت گردی‘ مہران ایئر بیس پر چھاپہ مار کارروائی‘ جس میں فضائی نگرانی کے دو جدید ترین طیارے تباہ کر دیے گئے۔ کراچی ایئر پورٹ پر حملہ‘ پشاور میں آرمی پبلک سکول میں بچوں کے وحشیانہ قتل عام کا سانحہ‘ متعدد اعلیٰ فوجی افسروں (جن میں جرنیل بھی شامل ہیں) کی شہادتیں اور ایسے متعدد واقعات ہیں‘ جن کی مثالیں دے کر‘ تمام قابل ذکر ملکوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں۔ دہشت گرد کسی بھی وقت اچانک حملہ کر کے پاکستان کے ایٹمی راز ‘ میٹریل یا پرزے اٹھا کے لے جا سکتے ہیں۔اس کے بعد دنیا کا کوئی بھی ملک دہشت گردوں کے ایٹمی حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ اس تھیم کو منظم طریقے سے پھیلایا جا رہا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ‘باقی سارے بہانے استعمال کر کے دیکھے جا چکے۔ چین نے ان میں سے کسی بہانے کو تسلیم نہیں کیا لیکن چین کے اندر دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں‘ ان میں پاکستان میں تربیت حاصل کرنے والے دہشت گردوں کے حوالے بھی آتے ہیں۔ چین یہ بھی جانتا ہے کہ زنجیانگ میں جا کرقتل و غارت گری کرنے والے اکثر دہشت گرد‘ پاکستان کے علاقوں میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں اور آج بھی بعض خفیہ ٹھکانے ایسے ہیں جہاں غیر ملکی دہشت گرد ‘تربیت حاصل کرتے ہیں۔اس دلیل کو تقویت دینے کے لئے حقانی نیٹ ورک کو ایک ناقابل تردید جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لازمی طور پر یہ کوشش کی جا رہی ہو گی کہ چین کو پاکستان کے اندر تربیت پانے والے دہشت گردوں‘ کی کارروائیو ں کو‘ عالمی دہشت گردی سے منسلک کر کے د کھایا جائے۔بھارت نے تو اپنی خارجہ پالیسی کا محور ہی دہشت گردی کو بنا رکھا ہے۔ اس کی وزارت خارجہ ہر وقت کسی نہ کسی واقعے کو بنیاد بنا کر‘ دہشت گردی کا سلسلہ پاکستان سے جوڑتی ہے۔امریکہ‘برطانیہ ‘ فرانس اور سپین وغیرہ‘ دہشت گردی کا ہدف بنتے رہے ہیں۔ روس کو شکایت ہے کہ چیچنیا کے باغیوں نے پاکستان جاکر پناہ اور تربیت حاصل کی۔
وزیراعظم نوازشریف کا دورئہ امریکہ‘ درحقیقت اسی مقصد کے پیش نظر رکھا گیا ہے۔دورے کے دوران ‘ہمارے وزیراعظم کو یہی باور کرانے کی کوشش کی جائے گی کہ ہمارے ایٹمی اثاثے ‘ دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس لئے اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک ٹیم‘ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے سکیورٹی سسٹم سے آگاہی حاصل کرے اور پاکستان سے یہ بات منوائی جائے کہ ہماری حکومت ‘عالمی برادری کی مدد سے اپنے ایٹمی اثاثوں کی فول پروف سکیورٹی کے لئے تیار ہو جائے۔حقانی نیٹ ورک کو بطور مثال پیش کیا جائے گا کہ پاکستان کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کو ختم کرنے کے دعوئوں کے باوجود‘ آج بھی یہ نیٹ ورک سرگرم عمل ہے۔بہتر یہی ہے کہ دہشت گردوں کی طرف سے کسی غفلت یا بے پروائی کی گنجائش نہ چھوڑی جائے۔ امریکہ کے بارے میں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ ہمارا اتحادی ہونے کے باوجود ‘ کبھی ہمارا دوست نہیں رہا ۔ وہ‘ افغانستان میں اپنی فوجیوں کی ہلاکتوں میں بھی پاکستان کو بری الذمہ نہیں سمجھتا۔ہمارے بعض ذمہ دار لوگ‘ کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو یکساں انداز میں دیکھتے ہیں۔حقیقت اس سے مختلف ہے۔ فلسطین کی تاریخ اور جغرافیے کی کشمیر سے کوئی مناسبت نہیں۔ یہ دونوں تنازعے مختلف تاریخی اور جغرافیائی پس منظر رکھتے ہیں۔ ہمیں تنازعہ کشمیر کو اپنے سیاق و سباق میں دیکھنا چاہئے۔اگر یو این کی سرپرستی میں پاک بھارت مذاکرات کا اہتما م کر کے‘منصفانہ حل ڈھونڈا جا سکے تو ہمیں یہ مسئلہ طے کر لینا چاہئے۔ فلسطینیوں کی حمایت ہم پھر بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں