اب سٹیٹس کو رکھنا مشکل ہو گا

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں جو خطاب کیا‘ اس پر صرف دو طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں۔ ایک بھارت کی طرف سے حسب توقع روایتی ردعمل ‘جس میں غوروفکر اور سوچ بچار کا عنصر مفقود ہے اور دوسرے پاکستان جہاں‘ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر وزیراعظم کے خطاب کی تعریف کی۔ لیکن شاید ہی کسی مبصر نے اس پس منظر کا جائزہ لیا ہو‘ جس میں نوازشریف نے یہ تاریخی تقریر کی۔ اگر ہم حالات کا جائزہ لے کر دیکھیں‘ جو اس عہد میں نئے خطرات کی صورت سامنے آ رہے ہیں‘ توتقریر کے بھارتی مخالفین اور پاکستانی حامی‘ ان نتائج و عواقب پر توجہ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں‘ جن کا اندیشہ وزیراعظم کے پرمغز خطاب میں موجود ہے۔ وزیراعظم نے الفاظ کا استعمال کئے بغیر جو بنیادی بات کہی ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی نیا اور تخلیقی طریقہ ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔ دونوں اپنی اپنی ضد پر قائم ہیں اور کسی کی ضد میں بھی مستقبل کے لئے نیا راستہ نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ہم کب تک مقبوضہ کشمیر میں مظلوم عوام پر گولیاں چلتی ہوئی دیکھیں گے؟ اور کب تک آزاد کشمیر کو سیاسی عالم برزخ میں لٹکائے رکھیں گے؟ آزاد کشمیر کے عوام کو بھی وہ حقوق حاصل نہیں‘ جو پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں۔ وہ ہماری اسمبلیوں میں نہیں آ سکتے۔ قومی پالیسی سازی کے عمل میں حصہ نہیں لے سکتے۔ گلگت بلتستان کو ہم نے کھیل بنا رکھا ہے۔ پاکستان کی حکمران جماعت اپنی انتظامی طاقت کے بل بوتے پر مرضی کی حکومتیں بناتی ہے۔ ان بے بس حکومتوں کا نہ عوام سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی وہ عوام کے لئے کچھ کر سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں نے مظلوم کشمیریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے اپنے اپنے انداز میں محروم کر رکھا ہے۔ ہم کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ کشمیری قوم کی مو جودہ حیثیت کیا ہے؟ اس پر نہ پاکستانی حکمرانوں کی توجہ ہے اور نہ بھارتی حکمرانوں کی۔ 
اگر یہی صورتحال برقرار رکھی جا سکتی‘ تو بھی پاکستان اور بھارت اپنے اپنے عوام کے نام پر ‘ حکمران طبقوں کے مفادات کو فروغ دیتے رہنے کی پالیسی جاری نہیں رکھ سکتے۔ جو سٹیٹس کو ہم نے 70سال کے تنازعے میں قائم کیا ہے‘ وہ اپنی عمر طبعی پوری کر چکا ہے۔ جنگ‘ مقابلہ آرائی‘ دہشت گردی کے حربے ‘ ایجنسیاںبھی اب اپنا کام جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ کشمیری عوام کے حق میں ہم کسی تبدیلی کا راستہ تلاش کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ دستیاب حالات میں تبدیلی اپنی راہیں خود پیدا کر رہی ہے۔ سمجھنے والے کو بس ایک اشارہ کافی ہے۔ پاکستان میں ہم نے اپنے ہی ہم وطنوں کو ''را‘‘ کا ایجنٹ کہہ کے کچلنا شروع کر دیا ہے اور بھارت میں بھی مسلمانوں کے خلاف یہی طرزعمل اختیار کر لیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں کانپور میں ہندوئوں کے مشتعل ہجوم نے ایک مسلمان نوجوان کو پاکستانی دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا۔ گویا ابھی تک کشمیر کی جو کشمکش لائن آف کنٹرول پر دوطرفہ گولہ باری کی شکل میں جاری تھی‘ اب اسے برقرار رکھنا دونوں کے لئے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دونوں ایٹمی ملک نہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی امن سے رہ سکتے ہیں اور نہ اقوام متحدہ جنگ بندی لائن کے دونو ں طرف امن قائم کر سکتی ہے۔ لیکن 70سالوں کے تجربے سے ایک بات واضح ہو گئی کہ ہم جنگ مسلط کر کے‘ ایک دوسرے کے زیرقبضہ کشمیر کو آزاد نہیں کرا سکتے۔ 
جو نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے‘ اس میں سٹیٹس کو برقرار رکھنا بھی ممکن نہیں۔چین کی اقتصادی سلک روڈبننا شروع ہو چکی ہے۔ آنے والے دنوں میں اسے پاکستان کے زیرکنٹرول علاقے سے گزرنا ہو گا۔ بھارت سارے آزاد کشمیر پر ہمارا حق تسلیم نہیں کرتا۔ جبکہ چین نے پاکستان کے ساتھ اقصائے چین کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ جیسے ہی سلک روڈ کامنصوبہ آگے بڑھے گا‘ بھارت اپنے دعوے کے ساتھ میدان میں آ جائے گا۔ اس میں چین بھی ملوث ہو گا۔ گویا ہم تیزی کے ساتھ ایک نئے سہ طرفہ تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ تین ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل ‘جنگ کی صورتحال کی جانب بڑھ رہی ہیں اور یہ جنگ کوئی بھی نہیں لڑ سکتا۔ ایٹمی جنگ سے بچنے کے لئے پرانے ایٹمی ملکوں نے دیتانت کا راستہ ڈھونڈ کر بحرانوں کا وقت گزارا تھا اور اب تقریباً وہی بحرانی انتظامات وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہو رہے ہیں۔ مگر ہم کیا کریں گے؟ پاکستان‘ بھارت اور چین‘ آپس میں دیتانت بھی کریں گے تو اس کے خدوخال کیا ہوں گے؟ یہ سارے امکانات سامنے رکھ کر اگر وزیراعظم نوازشریف کی تقریر کو دیکھیں‘ تو امن کی طرف صرف وہی ایک راستہ لے جا سکتا ہے‘ جو وزیراعظم نوازشریف کی تقریر میں دکھایا گیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ضد کی عینکیں اتار کے دیکھیں‘ تو اس تقریر میں امن کی بشارتیں موجود ہیں۔ ایسا ہی ایک موقع ہم 1998ء میں گنوا چکے ہیں۔ لیکن سمجھدار لوگ اچھا موقع گنوانے کے بعد بھی‘ وقت آنے پر دوبارہ اس کی طرف مراجعت کر سکتے ہیں۔ وہ تھا واجپائی نوازشریف معاہدہ۔ 
یہ معاہدہ برصغیر نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے لئے مستقل امن کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اس میں یہ طے کر دیا گیا تھا کہ کشمیر پر ‘کشمیری قوم کا حق ہے۔ موجودہ صورتحال میں تبدیلی کے لئے یہ راستہ نکالا گیا کہ تقسیم شدہ ریاست جموں و کشمیر کو لائن آف کنٹرول سے آزاد کر کے‘ پوری کشمیری قوم کے لئے ایک کر دیا جائے۔25سال کے عرصے کے لئے کشمیری عوام اپنی مقامی حکومتیں خود چلائیں۔ صرف ان کے دفاع اور خارجہ امور کی نگرانی پاکستان اور بھارت دونوں کریں۔ کشمیریوں کو دونوں ملکوں میں آنے جانے کی آزادی میسر ہو۔ وہ جس ملک کا پاسپورٹ چاہیںلے کر ‘ بیرون ملک سفر کر سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں میں انہیں سفر اور تجارت کرنے کا حق دے دیا جائے۔ غرض اسی سمت میں سارے برصغیر کو امن مہیا کر کے‘ 25برس تک اپنے امور خود چلانے کا موقع دیا جائے۔ اگر نوازشریف کی تقریر کا تجزیہ کر کے دیکھا جائے‘ تو انہوں نے کچھ کہے بغیر ایک امکان کو حقیقت میں بدلنے کا راستہ دکھایا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے‘ جسے واجپائی اور نوازشریف نے مل کر تلاش کیا تھا اور دونوں ملکوں میں ہی اس کا بھرپور خیرمقدم ہوا تھا۔ 70سال 
کے عرصے میں پاکستان اور بھارت دونوں نے ایک بند راستے کو کھلتے ہوئے دیکھا اور دونوں ملکوں کے عوام میں اس کا گرمجوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ میں نے جن خطرات کی طرف اشارہ کیا ہے اگر آپ ان پر غور کر کے دیکھیں‘ تو موجودہ صورتحال کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں لازماً ایک بڑی اور ہمہ گیر تباہی کی طرف بڑھنا ہو گا۔ اس میں چین اور بھارت کے باہمی تضادات بھی سر اٹھائیں گے اور ہم جو پہلے ہی ایک سردجنگ کا ایندھن بن کر تباہی و بربادی سے دوچار ہو چکے ہیں‘ اب دو علاقائی طاقتوں کے تصادم میں خواہ مخواہ پھنس جائیں گے۔ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنا کشمیریوں کا حق ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں ‘جنہیں ہم دونوں تسلیم کرتے ہیں‘ وہ بھی ہمیں ایک ہی منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔ یعنی کشمیریوں کو استصواب رائے کا آزادانہ حق دے کر اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دیا جائے۔ 70 سال سے ہم قراردادوں پر عملدرآمد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مزید 70سال بھی لڑتے رہیں ‘ تنازعہ کشمیر حل نہیں ہو سکے گا۔ بھارت نے طاقت سے کشمیر پر قبضہ کرنے کا جو منصوبہ بنا رکھا ہے‘ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں نے اسے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے۔ ہم دونوں ہی جیت ‘ نہ ہار کی پوزیشن میں آ کھڑے ہیں۔ کشیدگی اور تنائو کی اس مستقل کیفیت میںہمیں بیک وقت دونوں جنگوں کی تیاری مسلسل جاری رکھنا پڑے گی۔ایک طرف ہم روایتی جنگوں کی تیاریوں کے بھاری اخراجات میںنئے سے نیا اضافہ کرتے جائیں گے۔ اسلحہ فروشوں کی بن آئے گی۔ پاکستان امریکہ سے مایوس ہو کے‘ روس کی طرف رخ کرے گا۔ روس پہلے ہی سے اپنے اسلحہ کی نئی مارکیٹ ڈھونڈ رہا ہے اور امریکہ‘ روسی اسلحے کی بھارتی منڈی پر قبضہ کر کے‘ اپنا اسلحہ فروخت کرنے کے منصوبے بنا چکا ہے۔ یہ غریب اور پسماندہ قوموں کے منہ کا نوالہ چھین کر اسلحے کے ڈھیر لگانے کے مترادف ہو گا۔ یعنی ہماری ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی طاقت بڑھتی جائے گی اور عوام کا پیٹ بھرنے کے وسائل کم ہوتے جائیں گے۔ نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ایک مدبرانہ تقریر کر کے‘ پاکستان اور بھارت دونوں کو امن کی راہ دکھا دی ہے اور دوسرا راستہ کس طرف جائے گا؟ اس کی نشاندہی میں نے مختلف واقعات کی طرف اشارے سے کر دی ہے۔ اب سٹیٹس کو برقرار رکھنا ہمارے بس میں نہیں رہے گا۔ بے شک دہشت گردی کے پرانے طور طریقے باقی رکھنا اب مشکل ہو گا اور نئی دہشت گردی کی جھلکیاں پاکستان اور بھارت دونوں میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ کی بدترین دہشت گردی ہو گی‘ جس میں عوام اپنے ہی ہم وطنوں پر غداری کے الزامات لگا کر‘ انہیں گلی کوچوں میں ہلاک کریں گے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے لیڈروں نے اسی قیامت خیز قتل و غارت گری کے امکانات کو دیکھ کر تقسیم کا فیصلہ کیا تھا۔ جس تباہی کو ہندومسلم قیادتوں نے عقل و فہم کا استعمال کرتے ہوئے ٹالا تھا‘ دوبارہ سر اٹھانے لگی ہے۔ ہندو‘ مسلمانوں کو پاکستان کا ایجنٹ کہہ کر ماریں گے اور پاکستان کے انتہاپسنداپنے ہم وطنوں کو ''را‘‘ کا ایجنٹ کہہ کے ماریں گے۔ یہ میری خیال آرائی نہیں‘ وہ حقیقت ہے جو ظاہر ہونے لگی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں