ہمارے خواب‘ بھارت کے خواب

برصغیر کے ان دو ملکوں‘ پاکستان اور بھارت نے لاکھوں انسانوں کے خون سے جنم لے کر‘ ایسی ابتدا کی کہ آج تک اس بدنصیب سرزمین پر انسانی خون کی ارزانی ختم نہیں ہوئی۔ آزادی کے فوراً ہی بعد کشمیر میں جنگ شروع ہو گئی۔ سیزفائر ہوا‘ تو سرحدی خلاف ورزیوں میںخونریزی کا سلسلہ برقرار رہا۔ 1965ء میں جنگ نے ایک بار پھر اپنا بھیانک چہرہ نکالا اور پھر سے انسانی خون بہتا نظر آیا۔ عالمی برادری کے دبائو میں آ کریہ جنگ رکی‘ تو جنگ بندی کا معاہدہ کرانے کے لئے کسی تیسرے ملک نے دلچسپی نہیں لی۔ یہاں تک کہ امریکہ‘ جو پاکستان کی دوستی کا دم بھرتا تھا‘ اس نے بھی یہ ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا اور سوویت یونین ‘جس کے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے‘ ہمیں اس کی طرف دھکیل کر کہا گیا کہ میزبانی کی ذمہ داریاں وہ قبول کرے گا۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے مذاکرات تاشقند میں ہوں گے۔ وہاں پاکستان کے لئے دوستانہ فضا نہیں تھی۔ بھارت کے لئے دوستی کا ماحول تھا اور ہمارے وفد کے ساتھ اجنبیوں جیسا سلوک ہوتا رہا۔ جلد ہی ماحول کی اجنبیت کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی اور پاکستان سے کہا گیا کہ اب دونوں ملک کشمیر کے مسئلے کو آپس میں حل کرنے کا فیصلہ کر لیں تاکہ آپ کو بار بار سلامتی کونسل میں نہ جانا پڑے۔ جب مجوزہ ڈرافٹ دونوں ملکوں کے سامنے رکھا گیا‘ تو پاکستانی وزیرخارجہ نے اس پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ اگر ہم اس مسئلے کو دوطرفہ مذاکرات میں طے کریں گے‘ تو تنازعے کی صورت میں کوئی تیسری قوت درمیان میں نہیںآئے گی‘ لیکن ملک کے صدر ایوب خان کے رویے سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ پہلے ہی سے معاملات طے کر چکے ہیں۔ چنانچہ پاکستان کے صدر اور بھارتی وزیراعظم کے مابین ملاقات ہوئی اور واپس آ کر ‘ پاکستانی صدر نے اچانک اعلان کر دیا کہ وہ یہ شرط قبول کر چکے ہیں‘ جس پر ظاہر ہے وزیرخارجہ نے احتجاج کیا۔ لیکن اقتدار کامل پر قابض ‘فوجی صدرنے پورے مسودے کو ردوبدل کے بغیر قبو ل کرنے کا اعلان کر دیا۔
1965ء کی جنگ میں بھارت نے کشمیر کی بعض اہم چوٹیوں پر قبضہ جما لیا تھا اور اس کے بعد جو لائن آف کنٹرول بنائی گئی‘ وہ65ء کی جنگ کے بعد کی پوزیشنوں کے مطابق تھی۔ اس کے بعد لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں معمول بن گئیں۔ دونوں طرف کی فوجیں‘ پرامن شہریوں پر گولہ باری کر کے‘ ان کے کھیتوں اور گھروں کو تباہ کرتیں اور بے گناہ مردوں ‘عورتوں اور بچوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر یا زخمی کر کے‘ غریب کسانوں کو روتے دھوتے چھوڑ دیا جاتا۔1971ء کی جنگ نے سارا مسئلہ ہی ختم کر دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان اور بھارت کے مابین فوجی طاقتوں کا توازن باقی نہ رہا۔ بھارتی فوجیں اب لائن آف کنٹرول کی من چاہی خلاف ورزیاں کرتیں اور پاکستان احتجاج سے زیادہ کچھ نہ کرپاتا۔ و ہ دن پاکستانی فوج اور عوام کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھے۔اس دوران بھارت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بنے۔ وہ مدبر اور مستقبل بین سیاستدان تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان اور بھارت میں اگر اب امن قائم نہ ہوا تو یہ دونوں ملک‘ جو ایٹمی طاقتیں بن چکے تھے‘ کسی بھی صورتحال کا شکار ہو کر‘ ایٹمی جنگ میں کود سکتے ہیں اور پھر ان دونوں ملکوں اور پورے خطے کی آبادی موت کے گھاٹ اتر جائے گی اور جو زندہ رہ جائیں گے‘ انہیں موت سے بدتر زندگی گزارنا پڑے گی۔ پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف نے اس سوچ میں واجپائی کا ساتھ دیا اور دونوں نے فیصلہ کیا کہ باہمی تنازعات کا یا تو فوری فیصلہ کن حل ڈھونڈ لیا جائے‘ ورنہ ایک طویل مدتی حل پر اتفاق کر کے‘ مقررہ مدت کے معاہدے کر لئے جائیں تاکہ دیرپاامن کی بنیاد رکھی جا سکے اور ہماری سرزمین ایٹمی تباہ کاری سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے۔ دیرپاامن معاہدے کا عرصہ مقرر کر لیا گیا اور اگلے ہی برس دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ رکھ لی گئی‘ جس میں معاہدے کا ابتدائی مسودہ تیار ہونا تھا۔ مگر افسوس! دیرپا امن کے اس شاندار منصوبے کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت میں امن کی جو ٹھوس بنیاد رکھی جا رہی تھی‘ اسے مسمار کر دیا گیا۔ اور آج پھر دونوں ملک بے یقینی کی حالت میں ہیں۔ بھارت میں ایک انتہاپسند ہندو جماعت نے اقتدار پر قبضہ کر کے‘ اپنی دیرینہ پاکستان دشمن پالیسیوں پر عملدرآمد کی منصوبہ بندی شروع کر رکھی ہے۔ بظاہر مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کے وزیراعظم کو اپنے جشن تاجپوشی میں شرکت کے لئے دعوت دی۔ افسوس کہ ہمارے سفارتی ماہرین اس گہری چال کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ ہمارے وزیراعظم نے جشن میں شرکت کا فیصلہ کیا اور انہی تقریبات میں پاکستان کے وزیراعظم کو سارک ممالک کا پروٹوکول دے کر‘ ظاہر کر دیا کہ آگے چل کر مودی حکومت کیا طرزعمل اختیار کرنے والی ہے۔ ہمیں مسلسل یہ احساس دلایا گیا کہ پاکستان‘ بھارت کے زیراثر علاقائی تنظیم کا ایک عام سا رکن ہے‘ جس کی حیثیت بھوٹان‘ نیپال اور سری لنکا کی طرح ہو گی۔ متعدد مواقع پر یہی احساس دلایا گیا۔ مودی حکومت کے پہلے سال میں جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ہوا تو وہاں مودی کی جو پذیرائی ہوئی اور پاکستانی وزیراعظم کو جو پروٹوکول دیا گیا‘ اس نے مزید واضح کر دیا کہ اب عالمی برادری میں ہمارا درجہ کیا ہو گا؟ 
ہمیں پہلے ہی مرحلے پر تبدیل شدہ عالمی منظر کا اندازہ کر کے‘ اپنے مقام کا تعین کر لینا چاہیے تھا۔ ہو سکتا ہے‘ ہمارا آزمودہ اور دیرینہ دوست چین‘ نئی صورتحال میں اپنے دیرینہ دوست پاکستان کے لئے کوئی منصوبہ بندی کر رہا ہو‘ کیونکہ عین انہی حالات میں جب عالمی بساط پر پاکستان کے مقام اور حیثیت کا تعین کیا جا رہا تھا‘ چین اچانک سلک روڈ کا منصوبہ لے کر دنیا کے سامنے آ گیا اور پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کر کے‘ سلک روڈ کی تعمیر بھی شروع کر دی۔ ظاہر ہے‘ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔ جو لوگ عالمی بساط میں‘ کھیل کے بدلتے منظروں کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں‘ انہوں نے یقینی طور پر سمجھ لیا ہو گا کہ پاکستان اب چین کے سکیورٹی نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ بھارت نے جب سکیورٹی کونسل کا ممبر بننے کے لئے اقوام متحدہ میں ویٹوپاور حاصل کرنے کی کوشش کی‘ تو چین نے ازخود آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک دیا اور دنیا پر ثابت کر دیا کہ ویٹو پاور کلب میں‘ پاکستان اپنے کسی حامی سے محروم نہیں۔ ہو سکتا ہے‘ اس بدلے ہوئے عالمی منظر میں‘ پاکستان کی نئی حیثیت کو یہاں پوری طرح نہ سمجھا گیا ہو‘ لیکن اہل علم و فکر اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں اور ہمارا دیرینہ دشمن بھارت اور عالمی بساط سیاست کاری کا شاطربرطانیہ بھی ‘اب چین کی طرح کھلے اشارے دینے لگا ہے‘ جس کی پہلی مثال باغی بلوچوں سے پاکستان کے مذاکرات ہیں۔ ان رابطوں کا سلسلہ برطانوی سرزمین پر ہی شروع ہوا اور اسی نے پہل کرتے ہوئے‘ باغی بلوچ لیڈروں کو مستقبل کے خطرات سے آگاہ کیا کہ اب انہوں نے بھارت کی مدد سے ‘بلوچستان میں دہشت گردی جاری رکھنے کی کوشش کی‘ تو ذہن میں رکھیں کہ اب یہ خطہ چین کے سکیورٹی زون میں آ چکا ہے اور چین اپنے مواصلاتی نظام کو‘ لاحق ہونے والے خطرات سے نمٹنے کی طاقت رکھتا ہے۔ بھارت کا یہ خواب کہ وہ چین کے ان نئے مواصلاتی اثاثوں کو بلوچ یا پختون باغیوں کے ذریعے ‘خطرات سے دوچار کرے گا‘ اب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گا۔ باغی بلوچ نوجوانوں نے انتہائی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے‘ اپنے خطے میں تعمیروترقی کے منصوبوں کو بیرونی طاقتوں کا میدان جنگ نہیں بننے دینا۔ یہ سارے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جدید علوم سے بہرہ ور ہیں۔ وہ اپنے وطن کو تعمیروترقی کے عظیم منصوبوں سے محروم نہیں ہونے دیں گے‘ جو مستقبل کے ترقیاتی نظام کا مرکزی حصہ بننے جا رہے ہیں۔ نئی نسل کی بلوچ قیادت‘ اپنے صوبے کی سلامتی اور ترقی کو خطے کی عظیم طاقت ‘چین کے ساتھ منسلک کرنا چاہتی ہے۔ بھارت‘ لائن آف کنٹرول پر خونریزی کر کے‘ جو کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اسے اب بے لگام چھوڑنا ہماری مجبوری نہیں۔ امریکیوں نے تو ابھی سے یہ شوشے چھوڑنا شروع کر دیئے ہیں کہ چینی لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں آ جائیں گے اور یہاں کی معیشت پر قبضہ کر لیں گے۔ہمارا اب تک کا تجربہ گواہ ہے کہ چینی ہمیشہ امن‘ سلامتی اور تعمیروترقی کے عمل میں ہمارے مدد گار رہے ہیں۔ ہمیں اس امکان سے غافل نہیں رہنا چاہیے کہ امریکہ اور بھارت‘ پاکستان میں ترقیاتی عمل کے خلاف سازشیں ضرور کریں گے اور ماضی کی طرح پھر سے اسلام فروشوں کو استعمال کر کے‘ پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں کو ناکام بنائیں گے‘ جیسے بھارت نے کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو عارضی طور سے ناکام بنایا۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری سرزمین پر ہمیشہ بیرونی سازشوں کے جال بنے جاتے رہے اور اس جال کو مضبوط کرنے والے عناصر آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان عناصر کو ختم کرنے کے لئے ہمیں طویل مدت تک جنگ لڑنا ہو گی۔ مگر اس بار انشاء اللہ ‘ ہم اکیلے نہیں ہوں گے۔چین کے مستقبل کے منصوبوں کے خطوط وسطی ایشیا‘ شرق اوسط اور افریقہ تک جاتے ہیں اور ان خطوں میں قدم قدم پر چین کو اپنے آزمودہ دوست پاکستان کا تعاون درکار ہو گا۔ یقینی طور پر امریکہ اور بھارت ‘ اس پورے خطے کو چین کے لئے ناسازگار بنانے کی کوشش کریں گے‘ لیکن اقتصادی راہداری کے پہلے حصے کی تکمیل اور اس کے نتائج کو دیکھ کر ‘ مذکورہ خطوں کے عوام میں نئی امیدیں اور نئے خواب جنم لیں گے۔ انہی میں ہماری طاقت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں