میدانِ جہاد میں‘ کشمیریوں کی چوتھی نسل

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تاریخ کی طویل ترین گولہ باری ہوئی ‘ جس کا نشانہ شہری آبادیاں بنیں اور سیالکوٹ کی انٹرنیشنل سرحدوں کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں۔ اس دوران پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی بات چیت ملتوی ہوتی رہی۔ پاکستان اوربھارت کے اعلیٰ حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات ‘ شیڈول کے مطابق منعقد نہ ہو سکے۔ اس میں کسی کو شبہ نہیں کہ گولہ باری میں‘ ہمیشہ بھارت نے پہل کی اور بلاجواز شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا‘ جس میں انسانی جانیں گئیں اور سرحد کے قریب بسنے والوںکی تعمیرات بھی متاثر ہوئیں۔ مسلسل سرحدی خلاف ورزیوں کو دیکھ کر قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ بھارت ان حملوں سے پاکستان کا صبر آزما رہا ہے۔طرح طرح کے اندازے لگائے گئے‘ جن میں سے ایک یہ تھا کہ بھارت کی نئی انتہاپسند حکومت‘ پاکستان کو آزما رہی ہے کہ وہ مسلسل گولہ باری کا نشانہ بنتے ہوئے‘ اشتعال انگیزیاں کہاں تک برداشت کر سکتا ہے؟ ممکن ہے‘ ماضی کی پاکستانی قیادتیں‘ صبر آزمائی کی ان طویل آزمائشوں میں ‘کسی مرحلے پر بھارت کے اندازے درست ثابت کر دیتیں‘ لیکن پاکستان کی موجودہ فوجی قیادت نے ٹھان لی تھی کہ بھارت کی ان اشتعال انگیزیوں کو قطعاً خاطر میں نہیں لایا جائے گا اور بھارت کے مسلسل حملوں کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا۔ پاکستانیوں کے اعصاب آزماتے آزماتے‘ بھارت کو پہلے آنکھیں جھپکنا پڑیں اور فیصلہ ہوا کہ پاکستانی رینجرز اور بھارتی بارڈرسکیورٹی فورس کے اعلیٰ حکام کے مابین مذاکرات ہوں گے۔ پاکستان کے مذاکراتی وفد کو دہلی بلایا گیا‘ جہاں بھارت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے پاکستانی وفد کا استقبال کرتے ہوئے خیرسگالی کا پیغام دیا۔ انہوں نے پاکستان کو یقین دلایا کہ بھارت سرحد پر ‘گولہ باری میں پہل نہیں کرے گا۔ طویل کشیدگی کے بعد ‘اعلیٰ سطح پر یہ بھارت کی انتہائی اہم یقین دہانی ہے۔ ان مذاکرات میں بہت سی بنیادی باتیں طے کی گئیں‘ جن میں خصوصی اہمیت‘ مندرجہ ذیل امور کو حاصل ہے۔ میٹنگ میں طے پایا کہ حساس امور‘ جیسے فائربندی کی خلاف ورزیاں اور سرحد پار مداخلت کے معاملات کو فوری تبادلۂ معلومات سے حل کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ای میل اور ٹیلی فونک رابطوں سے کام لیا جائے گا۔ دونوں طرف بارڈر سکیورٹی کے سربراہوں کے ای میل ایڈریس ‘ایک دوسرے کے پاس رہیں گے۔ خصوصاً ڈی جی کی سطح کے معاملات پر فوری تبادلۂ خیال کے لئے اعتمادسازی کے نئے اور جدید طریقے اختیار کئے جائیں گے۔ باہمی بات چیت کا ریکارڈ تیار کر کے‘ اس پر دوطرفہ دستخط کئے جائیں گے تاکہ سرحدی آبادیوں کی سلامتی یقینی بنائی جائے۔ مستقبل میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے باہمی رابطوں کا معیار ٹیکنالوجی کے ذریعے بہتر کیا جائے گا۔ سرحدوں کے دوطرفہ محافظ‘ ہمہ وقت باہمی رابطے برقرار رکھیں گے اور مخصوص علاقوں کی سرحدوں پر مربوط پٹرولنگ کی جائے گی۔ یہ بھی طے پایا کہ اعلیٰ سطحی مذاکرات کا اگلا دور‘ 2016ء کے پہلے نصف میں‘ پاکستان میں ہو گا۔ دونوں فریقوں نے ان تمام امور کے بارے میں ایک تحریر تیار کر کے‘ اس پر دستخط کئے اور ایک دوسرے کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ اچانک ‘سرحدی خلاف ورزیوں پر کنٹرول رکھا جائے گا۔ جس طرف سے بھی خلاف ورزی ہوئی‘ متاثرہ فریق اسے نوٹس میں لائے گا اور ممکن ہوا تو معاملہ بات چیت سے طے کیا جائے گا۔ اتفاقیہ خلاف ورزیوں کو دونوں فریق محدود کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہمیں یہ اندازہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونا چاہیے کہ اس مرتبہ سرحدی خلاف ورزیوں کو روکنے پر جو باہمی اتفاق رائے ہوا ہے‘ اس سے پہلے ایک دوسرے کی اعصابی آزمائش کر لی گئی ہے۔ دونوں فریقوں کے مابین جو غلط توقعات پیدا کر دی گئی تھیں‘ ان کی بڑی حد تک تصحیح ہو چکی ہو گی۔ مودی کے حکومت سنبھالتے ہی‘ پاکستان کی طرف سے جو مبہم اور متضاد سگنل گئے تھے‘ بعد کے اقدامات اور بیانات نے‘ پاکستان کے مضبوط ارادوں کاواضح طور سے اظہار کر دیا ہے۔ بھارت کے پالیسی سازوں کو جو غلط توقعات پیدا ہو گئی تھیں‘ اب صرف بھارت کیا‘ امریکہ اور اس کے حواریوں میں بھی ختم ہو چکی ہوں گی اور دہشت گردی کے خلاف‘ پاک فوج کی فیصلہ کن اور نتیجہ خیز مہم میں مضمر‘مضبوط عزائم کے اندازے بھی لگالئے گئے ہوں گے۔ بظاہر یہ لائن آف کنٹرول پر ہونے والے حالیہ مذاکرات میں زیربحث آنے والے معمولات کا حصہ ہیں‘ لیکن جن مخصوص حالات میں یہ سمجھوتہ طے پایا‘ اس کے کئی پہلو اور معانی ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بھارت میںبی جے پی نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد‘ پاکستان کو گومگو کی کیفیت میں دیکھ کر جو اندازے لگائے تھے‘ بعد کے حالات نے انہیں غلط ثابت کر دیا اور بھارتی پالیسی سازوں نے حقیقت پسندانہ نظرثانی کر کے‘ یہ سوچ لیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جس طاقت کے مقام سے ‘وہ معاملات طے کرنے کے خواہشمند تھے‘ وہ اس پر فائز نہیں ہیں۔ انہیں تکبر کے مقام سے ہٹ کر‘ برابری کی سطح پر بات چیت کرنا ہو گی۔ 
حال ہی میں لداخ کی سرحد پربھارت نے چین کے ساتھ پھر سے جو سینگ پھنسائے ہیں‘ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت ابھی تک ‘ایک ایٹمی طاقت کا مزاج پیدا نہیں کر سکا‘ حالانکہ دنیا بھر کی مثالیں اس کے اور ہمارے سامنے موجود ہیں کہ جہاں بھی ایٹمی طاقتوں کے مابین کوئی تنازعہ پیدا ہوا‘ انہوں نے طاقت آزمائی کے بغیر‘ اسے عقل و دانش کی بنیاد پرکس طرح حل کیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال کیوبا کا بحران ہے۔ سوویت یونین نے کیوبا میں ایٹمی میزائل نصب کر کے‘ امریکی اعصاب کا امتحان لینے کی کوشش کی تھی‘ جس پر امریکی صدر نے فوری طور پران میزائلوں کو تباہ کرنے کا نہ صرف اعلان کر دیا بلکہ باقاعدہ تیاریاں بھی کر لی تھیں۔ جب سوویت یونین کے دفاعی ماہرین نے نتائج و عواقب کا تجزیہ کیا‘ تو ان کا اپنے حکمرانوں کو ایک ہی جواب تھا کہ ''اس تنازعے کوطاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں طاقتوں کے لئے تباہ کن ہے۔ مناسب یہی ہے کہ سوویت یونین مونچھ نیچی کر کے کیوبا سے اپنے میزائل ہٹا لے۔ دو ایٹمی طاقتوں کا فیصلہ کن حالتِ جنگ میں‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈٹ جانایقینی طور سے دوطرفہ تباہی ہے۔ دانشمندی اسی میں ہے کہ ہم اپنی مونچھ نیچی کر کے تباہی کے لمحے کا نشانہ بننے سے بچ جائیں۔ ‘‘یہ تاریخ کا ایسا سبق آموز واقعہ ہے‘ جسے دنیا نے آج تک فراموش نہیں کیا۔ 
پاکستان اور بھارت کے ایٹمی ہتھیار‘ اس دور کے مقابلے میں آج انتہائی زیادہ تباہ کن ‘ وافر اور جدید ہیں۔ ان ہتھیاروں کی موجودگی میں جنگ کا خطرہ تو کیا‘ امکان کے قریب پھٹکنا بھی انسانیت دشمنی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیڈروں کو احساس کرنا ہو گا کہ 2ارب سے زیادہ انسانی زندگیوں اور ان کی آئندہ نسلوں کی بقا کا فیصلہ کرنا معمولی بات نہیں۔ اتنے بڑے فیصلے کرنے کا اختیار‘ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے پاس رکھا ہے اور خدا کے دائرۂ اختیار میںمداخلت کرنا‘ قیامت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ پاکستان اور بھارت کی قیادتیں‘ جس قدر جلد اس حقیقت کا ادراک کر کے اور اپنے ملکوں اور خطے کے عوام کا مستقبل محفوظ کر کے‘ اپنے فرائض کی طرف توجہ دیں‘ جو عوام نے منتخب کرتے ہوئے ان کے سپرد کئے ہیں‘ بہتر ہوگا۔ دونوں ملکوں کی قیادتوں کو یہ حقیقت ہمیشہ کے لئے تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم جنگ میں ‘ایک دوسرے کو شکست نہیں دے سکتے ۔ تنازعہ کشمیر پر بھارتی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ نہ تو اس جھگڑے کو وقت کی گرد تلے دبا کر ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی طاقت کے استعمال سے۔ گزشتہ چند ماہ کے واقعات‘ بھارتی پالیسی سازوں کے لئے یاددہانی بھی ہیں اور سبق بھی۔ جو نوجوان نسل‘ ان دنوں مقبوضہ کشمیر میں‘ بھارت کی طاقتور حکومت کو للکار رہی ہے اور کشمیر کی تاریخ میں اس مرحلے پرجو شاندار مظاہرے کئے جا رہے ہیں‘ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ مسلسل جبر اور اندھادھند طاقت کا استعمال‘ کشمیری عوام کے جذبۂ آزادی کو ذرا بھی کمزور نہیں کر سکا۔ اس میں پہلے سے بھی زیادہ شدت آ گئی ہے۔ سات لاکھ فوج‘ دو عشروں کے ظلم و جبر کے بعد بھی کشمیریوں کی چوتھی نسل کے جذبۂ حریت کی آگ نہیںبجھا پائی۔ بھارت کے یہ حیلے بہانے کہ قابض افواج کے خلاف کارروائیاں کرنے والے غیرملکی مداخلت کار ہیں‘ سب بے معنی ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے پر‘ جدیدترین اسلحے سے مسلح بھارتی افواج ‘سری نگر کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کو نہیں روک پائیں‘ تو مقبوضہ کشمیر پر جبری قبضہ کب تک برقرار رکھا جا سکتا ہے؟ بھارت کو آخر کار کشمیریوں سے مذاکرات کر کے ہی‘ ایک سہ طرفہ سمجھوتہ کرنا ہو گا‘ جس میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ کشمیری عوام بھی ایک فریق کی حیثیت رکھتے ہوں۔ یہی نوازواجپائی سمجھوتے کا آخری مرحلہ تھا۔مناسب ہو گا کہ اب بھی انہی بنیادوں پر سمجھوتے کا راستہ ہموار کرنا شروع کر دیا جائے‘ ورنہ 67سال کے بدترین فوجی مظالم کے بعد بھی ‘کشمیریوں کی تیسری نسل‘ بھارتی فوجیوں کو سامنے آ کے للکار رہی ہے۔ کیا آئندہ نسلیںخاموش بیٹھ رہیں گی؟ بھارت کشمیریوں کو جتنے لالچ دے سکتا تھا‘ دے لئے۔ جتنے مظالم ڈھا سکتا تھا‘ ڈھا لئے۔ مقبوضہ کشمیر کے ہر خاندان کا ایک فرد یا ایک سے زیادہ افراد ‘جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ شہادتوں کا یہ سلسلہ نسلوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ ایک نہ ایک دن ‘بھارت کو سمجھوتے کی طرف آنا پڑے گا۔ بہتر یہی ہے کہ کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق دے دیا جائے‘ جو انہیں تقسیم کے فارمولے میں دیا گیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں