پرانی دشمنی‘ نئی حکمت عملی

پاک بھارت مذاکرات کا کھیل‘ بظاہر تو پرانی بازی بار بار کھیلنے کی مشق لگتا ہے اور دونوں طرف کے سفارتکار بھی پرانی چالیں چلتے دکھائی دے رہے ہیں‘ لیکن غور کیا جائے‘ تو ان پرانی چالوں میں ‘ نئی چالوں کا اضافہ ہونے لگا ہے۔ بھارتی سفارتکار بڑی چالاکی سے تنازعے اور مسئلے کی نوعیت تبدیل کر رہے ہیں‘ جبکہ پاکستانی سفارتکار (اگر ان میں کوئی ہے)‘ماضی کے سفارتکاروں کی طرح ہر چال بڑی گرم جوشی سے چلتے ہیں اور ایک آدھ مہرہ پٹوا کر‘ بازی کا نقشہ اپنے خلاف کر لیتے ہیں۔ اب تک مسئلہ کشمیر پر‘ پاکستان کی ہر چال الٹی پڑی اور بھارتیوں نے ہر چال انتہائی چالاکی سے کھیل کر‘ بازی کا نقشہ اپنے حق میں کر لیا۔ جب بازی شروع ہوئی تھی‘ گھبرایا ہوا بھارت فریاد لے کر سلامتی کونسل میں گیا تھااور اب جبکہ تنازعے کے آخری مراحل شروع ہو چکے ہیں‘ اوفا میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلان کے اندر سے‘ کشمیر کا لفظ ہی نکل گیا ہے۔ ہمارے ماہرین ابھی تک اسی پر فخر کر رہے ہیں کہ ہم نے حریت کانفرنس کے لیڈروں کے ساتھ ‘ بات چیت سے روکے جانے پر‘ بھارتیوں کا منصوبہ ناکام بنا دیا‘ جبکہ بھارتی ٹیم نے‘ بڑی چالاکی سے مشترکہ اعلامیے میں‘ صرف ایک لفظ حذف کرا کے پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیا۔ وہ لفظ ہے کشمیر۔ سفارتی امور کے ہمارے ماہرین نے 68سال میں اس کھیل پر اتنا عبور حاصل کر لیا ہے کہ ماضی کی جنگوں کے بعد ہونے والے معاہدوں میں سے‘ ریاست جموں اور کشمیر کا نام حذف نہیں ہونے دیا‘ مگر ہمارے موجودہ سفارتی ماہرین نے بڑی آسانی سے کشمیر کا لفظ دوطرفہ دستاویز میںحذف کر کے‘ بھارتیوں کی دیرینہ آرزو پوری کر دی۔دونوں ملکوں کے مشترکہ اعلان میں بھارت کے ہاتھ‘ ایک دستاویز لگ گئی ہے۔ آئندہ مشترکہ اعلامیوں اور معاہدوں میں سے کشمیر کا لفظ نکل جانے کے بعد‘ ہم بات کس موضوع پر کیا کریں گے؟ دہشت گردی؟ یہ ہمارامسئلہ ہے یا بھارت کا؟ ہم تو اپنی پیدا کردہ دہشت گردی میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ کیا اب ہم بھارت کے اندر ہونے والی دہشت گردی ختم کرنے کی ذمہ داریوں میں بھی شریک ہونے پر مجبور ہوں گے؟ اس کے سوا بھارت کے پاس رکھا ہی کیا ہے‘ جو ہم اس سے طلب کریں گے؟
کانگرسی حکومت ساڑھے چھ عشروں میں ہونے والی ‘دو جنگوں اور لاتعداد مذاکراتی اجلاسوں کے باوجودجو کچھ حاصل نہ کر پائی‘ وہ بی جے پی کی حکومت نے‘ ایک ہی سال کے عرصے میں حاصل کر لیا ہے اور منافعے میں پاکستان اور حریت کانفرنس کے مابین‘ اعتماد کا بحران بھی پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ بات‘ کشمیری حریت پسند منظرعام پر لانا تو کبھی پسند نہیں کریں گے‘ لیکن وہ اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھنے کی نئی راہیں ضرور تلاش کریں گے۔ سب کچھ کتنی آسانی سے ہو گیا! کشمیریوں کی قیادت تواپنی ریاست کا نام‘ پاک بھارت مشترکہ اعلان میں غائب دیکھ کرفکرمند ہو گئی تھی اور شاید اندازہ بھی کر چکی تھی کہ اب پاکستان سے کوئی امید لگانا تضیع اوقات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی طرف سے 
کسی معذرت کا انتظار کئے بغیر ہی‘ اپنی اپنی واپسی کا پروگرام بنا لیا اور استقبالیہ میں رسمی شرکت بھی گوارا نہیں کی۔ جب تنازعہ کشمیر‘ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر آیا‘ تو سوویت یونین سمیت تمام ویٹو پاورز‘ اس تنازعے کے پُرامن حل پر رضامند تھیں۔ اب حال یہ ہے کہ چین کے سوا ‘ہمیں کسی ویٹو پاور کی حمایت حاصل نہیں اور اگر ہمارے طور طریقے یہی رہے‘ تو مجھے ڈر ہے کہ ایک دن ہم چین کی حمایت بھی کھو بیٹھیں گے۔ مجھے معلوم ہے‘ ہمارے بعض سفارتی ماہرین یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وقت آنے پر چین ہماری مدد کو آ جائے گا۔ شاید انہیں اپنے پیش رو سفارتی ماہرین کی کارکردگی یاد نہیں۔ ہم نے جب بھی چین کو مدد کے لئے پکارا‘ اس نے ہر طرح ہمیں تقویت دینے کی کوشش کی‘ لیکن امریکہ کے عشق میں مبتلا ‘ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے‘ چین کے مدبرانہ مشوروں پر کان نہیں دھرا۔ 65ء کی جنگ میں چین ہماری عملی مدد کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ اس وقت چین زیادہ طاقتور بھی نہیں تھا اور اسے یہ بھی ڈر تھا کہ اگر اس کا بھارت کے ساتھ تصادم ہو گیا‘ تو امریکی بلاک یقینا اس کی مدد کو آ جائے گا۔ مگر ان خطرات کے ہوتے ہوئے بھی‘ چین نے بھارت کے ساتھ فوری تنازعہ کھڑا کرنے کے لئے یہ مطالبہ داغ دیا کہ بھارتی بارڈر فورس نے ان کے علاقے سے‘ 60بھیڑیں چرا لی ہیں‘ جو فوراً واپس کی جائیں۔ بھارتی پریشان ہو گئے اور یقین دلانے لگے کہ انہوں نے بھیڑیں نہیں چرائیں۔ مگر چین کے لہجے میں سختی آتی گئی جس سے تنگ آ کر بھارت نے بہترین قسم کی 60بھیڑیں جمع کر کے‘ چینی سفارت خانے کے سامنے لا کھڑی کیں اور کہا کہ ''آپ کی بھیڑیں حاضر ہیں۔‘‘ چین کے نمائندوں نے آ کر بھیڑوں کو دیکھا اور کہا کہ ''یہ بھیڑیں تو ہماری نہیں‘ہمیں وہی بھیڑیں لا کر دو‘ جو تم اٹھا کر لے گئے ہو۔‘‘ بھارتیوں کی حالت غیر ہو گئی اور ہمارے حکمران بھی ڈر گئے کہ اگر چین جنگ میں کود پڑا‘ تو ہم کہاں تک لڑیں گے؟ پاکستانیوں نے اپنے سرپرست امریکہ سے مدد کی درخواست کی۔ جبکہ وہ چینیوں کوبھارت کے ساتھ جنگ میں الجھانا چاہتے تھے‘ لیکن پاکستانی لیڈروں نے بھارتی شرائط پر جنگ سے جان چھڑا کر معاملہ ختم کیا۔ جنگ بندی کے معاہدے کے لئے‘ جب پاکستانی صدر نے امریکہ سے مدد کی درخواست کی تو انہوں نے صاف جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''اب تم سوویت یونین جائو اور اسی کی مدد سے معاہدۂ امن کرو۔‘‘ اس معاہدے میں ہم نے پہلی مرتبہ ‘سلامتی کونسل میںتنازعہ کشمیر کوعالمی ایجنڈے سے نکال کر‘ بھارت اور پاکستان کا باہمی مسئلہ تسلیم کر کے‘ اپنی دانست میں امن حاصل کر لیا‘ مگر یہ خواب جلد ہی ٹوٹ گیا اور بھارت نے مشرقی پاکستان میں سازشوں کا جال مکمل کر کے‘ وہاں فوج کشی کر دی۔ ہم اس وقت بھی چین سے مدد مانگنے گئے تھے۔ چین نے پھر ہمیں مدبرانہ مشورہ دیا کہ اپنا سیاسی بحران خود حل کر کے‘ بھارت کو جنگ کا موقع نہ دیں‘ مگر ہم نے اپنے ہی ہم وطنوں کو‘خون میں نہلانے کی ٹھان رکھی تھی‘ لیکن بھارت نے ہمیں خون کے آنسو بہانے پر مجبور کر دیا۔ 
اب حالات بدل گئے ہیں۔ چین عالمی طاقت بن چکا ہے۔ وہ اپنی سٹریٹجک ضروریات کے تحت پاکستان میں 45ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے‘ جس پر ہمارے لیڈر پھولے نہیں سما رہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ 75 ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری کی طرف بھی دیکھ لیں‘ جو بھارتی وزیراعظم نے گلف کی ایک ریاست میں جا کر حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کے پاس‘ بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے آخری چارۂ کار کے طور پر ایٹمی اثاثے رہ گئے ہیں۔ آپ ان الفاظ پر حیرت زدہ نہ ہوں۔ دنیا کے ایٹمی ملکوں میں برصغیر کے یہی دو ملک ہیں‘ جن سے ایٹمی جنگ کی امید کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ نے گزشتہ چند روز کے عالمی میڈیا پر توجہ دی ہے‘ تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ ان دنوں بھی ‘پاک بھارت جنگ کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ بھارتی انتہاپسندی‘ داعش اور طالبان کی انتہاپسندی سے کم نہیں۔ خصوصاً وہاں کی موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے۔چند روز پہلے جب پاک بھارت مذاکرات کی بات چل رہی تھی‘ تو بی جے پی کے ایک ترجمان نے ٹی وی کے ایک ٹاک شو میں‘ مذاکرات کی حمایت کرنے والے تمام شرکائے بحث کو‘پاکستان کا ترجمان اور بھارت کا مخالف قرار دے دیا۔ بھارت میں مذاکرات کی حمایت کرنے والے مبصروں اور دانشوروں کو قوم دشمن نہیں تو کم از کم انہیں قوم دوست بھی نہیں سمجھا جاتا۔ کنٹرول لائن پر بھارت نے مسلسل جو دراندازی اور فائرنگ شروع کر رکھی ہے‘ وہ خالی ازعلت نہیں۔ افغانستان میں بھارتی ایجنٹ ‘ پاکستان پر الزام تراشی میں مصروف ہیں اور وہاں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جا رہی ہے۔ بھارت کے موجودہ حکمرانوں کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کو داخلی اور بیرونی محاذوں پر مصروف کر کے‘ عسکری طاقت کو تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ایسی حالت میں ایٹم بم استعمال کئے بغیر بھی‘ پاکستان کے ساتھ فیصلہ کن جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ فی الحال عقل ان باتوں کو ماننے پر مائل نہیں۔ لیکن جس ذہنیت کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے‘ اس سے ہر قسم کی حرکت کی امید کی جا سکتی ہے۔ بھارت کے عسکری ماہرین کے یہ تبصرے تو آپ نے یقینا پڑھ اور سن رکھے ہوں گے‘ جن میں وہ اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے سارے ایٹم بم بھی بھارت پر پھینک دے‘ پھر بھی ہمارا دوتہائی حصہ‘ محفوظ رہ جائے گا۔ لیکن پاکستان کے پاس اتنی وسعت اور گہرائی نہیں ہے۔ جس ملک کے حکمرانوں اور دانشوروں کی سوچوں کا یہ حال ہو‘ اس سے ہر طرح کی نامعقولیت کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ جبکہ دنیا میں ایسے کئی ملک موجود ہیں‘ جو بڑی بڑی طاقتوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ لیکن اپنی حکمت اور دانائی کی وجہ سے وہ امن اور خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں تو خدا نے لامحدود وسائل سے مالامال کر رکھا ہے۔ جنگ کے خطرات میں گھرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ خطرات کے اندر رہ کر آزادی و سلامتی کی حفاظت کرنے میں ہی دانشمندی ہے اور مجھے اپنی نئی نسل پر یقین ہے کہ وہ اس خوبی سے مالامال ہو گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں