بلوچستان میں نمودار ہوتے نئے حقائق

آج سے چند سال پہلے‘ بلوچستان میںپاکستان کا نام لینا جرم بن گیا تھا۔غیربلوچوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جاتی یا اغوا کر لیا جاتا۔ نسلوں سے آباد غیربلوچوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ملک کے دوسرے حصوں کی طرف پناہ لینے جانا پڑتا۔ فوج وہاں اس وقت بھی موجود تھی‘ لیکن باغیوں کی سرگرمیوں پر قابو پانا مشکل ہو چکا تھا۔ دن کی روشنی میں دیہی بلوچستان تو کیا؟ شہری آبادی میں بھی راہ چلتے پنجابیوں کو بالخصوص گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا۔ شیعہ کمیونٹی کے ہزاروں افراد باغیوں کا نشانہ بن چکے تھے۔ یہ مظلوم کمیونٹی‘ افغانستان سے لے کر بلوچستان تک‘ ہر جگہ سنی اکثریت میں موجود انتہاپسندوں کے ظلم کا نشانہ بن رہی تھی۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی اتھارٹی‘ چھائونیوں تک سمٹ کے رہ گئی تھی۔ میڈیا کے نمائندوں کو بری طرح سے دہشت زدہ کیا جاتا اور بعض کو ہلاک بھی کیا گیا۔ کوئٹہ کی حدود سے باہر جانا خود کو موت کی دعوت دینے کے مترادف تھا۔ خصوصاً جب دہشت گردوں کی فرقہ ورانہ تنظیموں کے مسلح دہشت گرد بلوچستان پہنچے‘ تو قتل و غارت گری کے ایک نئے وحشیانہ دور کا آغاز ہوا۔ وہاں کی ہزارہ کمیونٹی بہت ہی پُرامن اور مظلوم لوگوں پر مشتمل ہے۔ انہیں محض شیعہ ہونے کی پاداش میں اجتماعی حملوں کاہدف بنایا جاتا اور ایک ایک حملے میں سینکڑوں ہزارہ مسلمانوں کو ہلاک کر دیا جاتا۔ اس پر کوئٹہ میں سوگواروں کے اتنے بڑے بڑے اور طویل احتجاجی مظاہرے ہوئے‘ جن کی مثال پورے ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاک فوج کے بلوچستان میں متعین دستوں نے ان لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ انتخابات سے قبل‘ فوج نے اپنی طاقت کا پورا استعمال کر کے امن و امان قائم رکھنے کے انتظامات کئے۔ انتخابات کے لئے قوم پرست بلوچ سیاستدانوں نے امن برقرار رکھنے میں سکیورٹی فورسز کی ہر طرح سے مدد کی۔ عوام نے بھی انتخابات کو پرامن رکھنے کے لئے سرگرمی سے اپنا کردار ادا کیا اور انتخابی نتائج کے بعد منتخب ہونے والی ساری بلوچ قیادت نے باہمی تعاون سے ایک قوم پرست لیڈر‘ڈاکٹر عبدالمالک کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم کی‘ جو ابتدا میں دو سالوں کے لئے بنائی گئی تھی۔ بعد میں یہ ذمہ داری مسلم لیگ کے نمائندے کو سنبھالنا تھی‘ مگر حالات بتا رہے ہیں کہ فی الحال تو ڈاکٹر عبدالمالک کو مزید موقع دیا جائے گا‘ کیونکہ انہوں نے بلوچوں کی قومی قیادت کو‘ ریاستی امور میں براہ راست حصہ لینے کے مواقع مہیا کئے اور امن و امان میں بیشتر قبیلوں کی دلچسپی بڑھتی گئی۔
چند ہفتے پہلے جلاوطن بلوچ لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا‘ جو بڑی خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہا تھا‘ مگر اچانک کچھ ایسے مسائل پیدا ہو گئے کہ مذاکرات میں بظاہر تعطل آ گیا۔ بلوچوں کی جلاوطن قیادت نے طویل عرصہ بیرون وطن رہنے کی وجہ سے‘ پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ بھی رابطے قائم کر لئے تھے اور ان میں سے بعض کے زیراثر باغی بلوچ ‘اسلحہ لے کر پہاڑوں پر بھی چڑھ گئے تھے۔ فوجی قیادت کی کوششوں ‘ رابطوں اور پالیسیوں کے نتیجے میں باغی سرداروں سے مذاکرات کا راستہ ضرور کھلا اور بہت سے باغی‘ ہتھیار پھینک کر واپس بھی آنے لگے۔ لیکن تمام باغیوں کی واپسی کی جو توقعات پیدا ہوئی تھیں‘ وہ پوری ہونے میں نہیں آ رہیں۔ یقینا حالات معمول پر آنے کا جو عمل شروع ہوا تھا‘ اس میں تعطل پیدا ہوتا نظر آیا اور ساتھ ہی میڈیا میں اس عمل کی کوریج بھی رک گئی۔ شروع سے ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ پاکستان میں جب بھی کوئی بحران پیدا ہوا‘ تو سب سے پہلے میڈیا کو نشانہ بنایا گیا۔ ماضی میں میڈیا پر یہ سختی حکومتی ادارے کیا کرتے تھے‘ لیکن بلوچستان میں اس کے برعکس ہوا اور باغیوں نے میڈیا کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ یہ تجربہ کراچی میں بری طرح سے ناکام ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود بلوچ باغیوں نے میڈیا کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ختم نہیں کیا‘ جس کی وجہ سے بلوچستان کی حقیقی صورتحال‘ عوام کے سامنے نہیں آ رہی۔خبروں سے یوں لگتا ہے‘ جیسے پورے بلوچستان میں حالات معمول پر آ چکے ہیں اور باغی تیزی سے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔اب تک کتنے باغیوں نے ہتھیار ڈالے؟ کتنے قابل ذکر لیڈروں نے امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا؟ اور کونسے بااثر لیڈر واپس آ کر‘ انتظامیہ کے معاون بنے اور منتخب حکومت ‘ جس کے وزیراعلیٰ جانے پہچانے اور آزمودہ قوم پرست لیڈر ہیں‘ کے ساتھ کوئی بااثر لیڈر تعاون کے لئے آگے بڑھا؟ خبروں میں اس تعطل سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات اتنے وسیع پیمانے پر معمول پر نہیں آ رہے‘ جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس کے برعکس پچھلے تین مہینوں کے دوران غیرمصدقہ ذرائع سے جو خبریں موصول ہو رہی ہیں‘ ان کے مطابق دشت‘ مشکے‘ قلات‘ مستونگ اور نوشکی جیسے علاقوں میں فوجی آپریشن بھی ہو رہے ہیں۔ ان میں کئی گائوں تباہ و برباد کئے گئے۔ فوجی کارروائیوں میں جیٹ طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کئے گئے اور نہتے دیہاتیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک بڑی کارروائی گزشتہ عید کے موقع پر 18جولائی کے دن ضلع آواران میں کی گئی‘ جس کا نشانہ کالعدم تنظیم بی ایل ایف کے کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر تھے۔ انتظامیہ کا خیال ہے کہ وہ اس بمباری میں مارے گئے‘ لیکن ٹھوس شواہد نہیں مل سکے۔ بی بی گل نے ایک ریڈیو کے نشریے میں بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے ایک مہینے تک علاقے کو گھیرے میں رکھا۔ لوگوں کو لاشیں تک اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ وہاں کئی لاشیں پڑی سڑتی رہیں۔ آواران آپریشن کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد دربدر ہوئی۔ کسی نے ان کی پروا نہ کی‘ نہ انہیں آئی ڈی پیز قرار دیا‘ نہ کوئی ان کی امداد کو آیا۔ مگر افسوس کہ یہ خبریں میڈیا میں نہیں آتیں۔ حقائق کو چھپانے کی یہ کوششیں کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ اس کے برعکس حقائق کو میڈیا سے چھپانا ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ جو چند واقعات میں نے بیان کئے ہیں‘ ہو سکتا ہے‘ ان میں ہونے والا نقصان بیان کردہ واقعات سے کم ہو‘ لیکن جب یہ سچائی افواہوں کی صورت میں پھیلتی ہے‘ تو زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے۔ ہر کوئی ان میں اپنی سوچ کے مطابق رنگ بھر کے پھیلاتا ہے اور ردعمل ہمیشہ حکومت کے اعتبار کو مجروح کرتا ہے۔ انتظامیہ چاہتی تو یہ ہے کہ عوام کو یہ تاثر دیا جائے کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں‘ علیحدگی پسند تحریک کا زور ٹوٹ رہا ہے اور بلوچستان میں پاکستان کا پرچم لہرانا شروع ہو گیا ہے‘ مگر حقائق یہ نہیں۔ طاقت کے زور پر آج تک کسی نے لوگوں کے دل نہیں جیتے اور بلوچستان تو کئی عشروں سے اس کی مثال پیش کر رہا ہے۔ 
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی مثال ہی دیکھ لیں۔ وہ اپنے علاقے میں ترقیاتی کام کر رہے ہیں۔ نئے کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر کرا رہے ہیں۔ دو سال پہلے تک تربت شہر میں جگہ جگہ آزاد بلوچستان کے جھنڈے نظر آ رہے تھے‘ مگر آج ایسا نہیں۔ اترے ہوئے جھنڈوں کی جگہ پاکستانی پرچم نہیں لے سکے۔ آج بھی اگر سبز ہلالی پرچم کہیں نظر آئے ‘تو وہ ایف سی کی چیک پوسٹ اور سرکاری گاڑیوں پر ہوتے ہیں۔ البتہ دیواروں پر جو نعرے لکھے ہوئے نظر آتے ہیں‘ وہ پاکستانی سامراج‘ آئی ایس آئی اور ایف سی کے خلاف ہوتے ہیں۔ بلوچستان کا یہ رخ آج میڈیا اور عوام سے چھپایا جا رہا ہے‘ جس کی وجہ سے شکوک پیدا ہو رہے ہیں کہ بلوچ باغیوں کے ساتھ مذاکرات کا جو تاثر پیدا ہوا تھا‘ اسے ختم کیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالمالک سمیت‘ پاکستان کے جن خیرخواہوں نے باغیوں کے ساتھ رابطے شروع کئے تھے‘ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ حوصلے چھوڑ رہے ہیں۔ گزشتہ 70سالوں کے دوران بلوچ عوام اور پاکستانی اتھارٹیز کے درمیان جو باہمی وعدہ خلافیاں کی گئی ہیں اور متعدد معاہدے کرنے کے بعد ان سے انحراف کیا گیا ہے‘ اس سارے پس منظر کو سامنے رکھ کر‘ آج کے حالات میں ایک بار پھر مذاکرات میں تعطل طرح طرح کے خدشات پیدا کر رہا ہے۔ بلوچستان کے لوگ اور ان کے لیڈر یہ بات نہیں بھولے کہ پاکستانی حکومتوں نے امن کے متعدد معاہدے کرنے کے بعد‘ انہیںپہاڑوں سے اتارا اور پھر بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پاکستان کے دوسرے حصوں کے برعکس بلوچستان کے عوام‘ بڑے بڑے صدموں سے دوچار ہوئے ہیں۔ حکام نے ان کے ساتھ بے شمار بے قاعدگیاں کیں۔ پاکستانی حکمران چاہتے ہیں کہ بلوچ ماضی میں اپنے ساتھ کی گئی بدعہدیوں کو فراموش کر دیں‘ مگر ایسا کرنا ان کے لئے آسان نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج اور بلوچ باغیوں کے درمیان خون کی لکیر بڑی ہوتی جا رہی ہے۔ حال میں مذاکرات سے امیدیں پیدا ہوئی تھیں اور بلوچستان کے جلاوطن باغی لیڈروں کی طرف سے بھی مثبت جوابات کی اطلاعات آ رہی تھیں۔ معاًیہ سلسلہ رک گیا اور ایک دوسرے کے خلاف گولیاں چلنے کے عمل میں کوئی تعطل پیدا نہیں ہوا۔ پاکستانی حکمرانوں اور بلوچ عوام کے مابین جتنے فاصلے پیدا ہو چکے ہیں‘ وہ تیز رفتاری سے ختم نہیں کئے جا سکتے۔ ڈاکٹر مالک یقینا یہ بات سمجھتے ہوں گے‘ مگر یوں لگتا ہے کہ باغی بلوچ لیڈر اور بااختیار ارباب اقتدار ‘دونوں ہی ان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ جیسے ہی وہ ماحول میں بہتری لاتے ہیں‘ بندوقوں سے نکلتے ہوئے شعلے‘ دھواں پھیلا کرسب کچھ نگاہوں سے اوجھل کر دیتے ہیں۔ہمیں یہ بات بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک طرف پاک چین اقتصادی راہداری میں بلوچوں کے لئے دلکشی ہے‘ تو دوسری طرف ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی تعمیر میں بھی بلوچوں کے لئے امید کے پہلو موجود ہیں۔ اب وہ ماضی کی طرح بے یارومددگار نہیں۔ تعمیروترقی کے یہ دونوں منصوبے ان میں نئی امیدیں پیدا کر رہے ہیں اور یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ چین کو ان دونوں منصوبوں میں یکساں دلچسپی ہے۔ایران میں کم اور پاکستان میں زیادہ۔ یہ خوش فہمی ہمیں اپنے ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ ایران میں بننے والی سڑک پر بھارت سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ دونوں طرف بڑی طاقتوں کو دلچسپی ہے اور باہمی مفادات بڑی بڑی تبدیلیوں کا باعث بن جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں چین اور امریکہ کے درمیان ٹکرائو تھا اور آج امریکہ ‘بھارت اور چین دونو ں سے رابطے بڑھا رہا ہے۔ ہمیں کسی خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں