"KMK" (space) message & send to 7575

چنیدہ نظام انصاف و احتساب

جنوبی افریقہ میں نظامِ عدل کا حال اتنا ہی پتلا ہے جتنا کہ ہمارے ہاں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں نظامِ عدل رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم ہے اور یہ چنیدہ نظام انصاف (Selective Justice System) مستقل طور پر نافذ العمل ہے جبکہ ہمارے ہاں نظام انصاف کی مہربانیاں اور قہرسامانیاں طبقاتی اور سیاسی تقسیم کے اصولوں پر قائم ہیں۔ طبقاتی نظامِ انصاف مستقل بنیادوں پر جبکہ سیاسی انصاف کسی اور کے اشارۂ ابرو کا محتاج ہے۔ اس والے چنیدہ انصاف کا پلڑا حکمرانوں کے ساتھ ہر دو چار سال بعد بدل جاتا ہے۔
رائج الوقت اس چنیدہ نظامِ عدل نے اس مملکتِ خداداد میں عدل و انصاف کو بے وقعت اور بے اعتبار کرنے میں جتنا حصہ ڈالا ہے اس کی تفصیلات کیلئے تو ایک دفتر بھی ناکافی ہے۔ پاناما لیکس میں سینکڑوں لوگوں کا نام آیا جن میں خود عدلیہ کے محترم و معزز ججوں کے نام نامی بھی شامل تھے مگر سزا صرف میاں نواز شریف کو ملی اور چند سال بعد وہ سزا بھی خود عدلیہ ہی نے کالعدم قرار دے کر اس سارے جھنجھٹ سے اپنا دامن‘ بغیر دھوئے صاف کر لیا۔ پاناما لیکس کے دیگر چار سو سے زائد ''ملوثین‘‘ کو پھر کسی نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ انصاف کا پلڑا اگر زور آوروں کے حکم پر جھکتا یا اٹھتا ہے تو یہ انصاف کے نام پر بدنما دھبہ ہے اور احتساب اگر محض اپوزیشن کا مقدر ہے تو یہ انتقام کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
پھر یوں ہوا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو اہلیہ سمیت گھڑی وغیرہ فروخت کرنے کے جرم میں چودہ سال قید کا حکم سنا دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس قسم کے تحائف بازار میں بیچنا اخلاقی طور پر ضرور قابلِ شرم ہے؛ تاہم قانون ان کی فروخت کے بارے میں بالکل اسی طرح خاموش ہے جس طرح اس ملک کا آئین ہر اہم معاملے میں اور ہمارا قانون ہر تگڑے کے خلاف خاموش ہوتا ہے۔ گھڑی بیچنے پر اس چودہ سالہ قید کے علاوہ دونوں میاں بیوی کو علیحدہ علیحدہ اٹھہتر کروڑ ستر لاکھ فی کس جرمانہ بھی ہوا۔ اس سزا سے کئی باتیں دماغ میں آتی ہیں‘ مثلاً یہ کہ توشہ خانہ سے خریدی گئی گھڑی کو بازار میں بیچ دیں تو بندے کو چودہ سال قید بامشقت اور اٹھہتر کروڑ ستر لاکھ جرمانہ ہوتا ہے اور اگر بندہ سائفر کو مجمع میں لہرا کر ملکی راز افشا کر دے (مجھے فی الوقت اس جرم کے سچے یا جھوٹے ہونے کے بارے میں بحث نہیں کرنی۔ آپ سے بھی التماس ہے کہ فی الحال اس الزام کو استغاثے کے مطابق سچ تصور کریں) تو اس بندے کو محض دس سال قید ہوتی ہے۔ یعنی گھڑی کی فروخت ملکی رازوں کو افشا کرنے سے کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔ دوسری بات یہ دماغ میں آتی ہے کہ کیا توشہ خانہ سے گھڑیاں اور زیورات وغیرہ رعایتی نرخوں پر لینے والے دیگر اصحاب‘ جن میں خود میاں نواز شریف‘ اسحاق ڈار‘ خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی بمعہ ٹبر تحفے میں ملنے والی گھڑیوں اور زیورات کی وصولی کے اعتبار سے اونچے درجے پر فائز ہیں‘ کے پاس ساری گھڑیاں اور زیورات موجود ہیں؟ کیا کسی نے ان کے پاس جاکر ''سٹاک ٹیکنگ‘‘ کی ہے؟
چلیں گھڑیاں اور زیورات تو تحائف کے اس زمرے میں شامل تھے جو خریدے جا سکتے تھے۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے تو توشہ خانہ سے گاڑیاں نکلوا کر غتر بود کر لیں جو قواعد کے مطابق خریدی ہی نہیں جا سکتی تھیں۔ توشہ خانہ کی 2008ء کی فہرست کے سیریل نمبر 34 کے آگے درج ہے کہ ایک عدد مرسیڈیز‘ جس کی قیمت کا تخمینہ تب ساڑھے بیالیس لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔ (چور بازاری اور لوٹ مار کا اندازہ مرسیڈیز گاڑی کی قیمت سے ہی لگا لیں)‘ یہ گاڑی ہمارے پیارے میاں نواز شریف نے مورخہ 20 اپریل 2008ء کو ''بطور وزیراعظم‘‘ اس کی قیمت کا پندرہ فیصد‘ جو صرف 6 لاکھ 36 ہزار 888 روپے بنتا تھا‘ دے کر گاڑی ہتھیا لی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہ گاڑی خریدی گئی میاں نواز شریف وزیراعظم ہی نہیں تھے۔ موصوف اس تاریخ سے ساڑھے آٹھ سال پہلے‘ مورخہ 12 اکتوبر 1999ء کو فارغ ہو چکے تھے اور گاڑی لینے کے پانچ سال بعد‘ مورخہ 5 جون 2013ء کو دوبارہ وزیراعظم بنے تھے۔ اب سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے ناقابلِ فروخت فہرست میں شامل گاڑی‘ بغیر وزیراعظم ہوتے ہوئے کس استحقاق سے حاصل کی؟ ادھر اپنے پیارے صدر محترم آصف علی زرداری دو قدم آگے جاتے ہوئے اپنے پہلے عرصۂ صدارت میں پانچ کروڑ اٹھہتر لاکھ قیمت کی ایک بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو اور مبلغ دو کروڑ تہتر لاکھ مالیت کی دوسری بی ایم ڈبلیو گاڑی اورپانچ کروڑ روپے مالیت کی تیسری لیکسس گاڑی‘ دو کروڑ تین لاکھ روپے ادا کر کے گھر لے گئے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کے صدر نے درج بالا تینوں گاڑیاں پندرہ فیصد رقم ادا کر کے حاصل کیں۔ خیر سے اب انہیں صدارتی استثناء حاصل ہو گیا ہے۔
تاہم سب سے مزیدار کیس ہماری موجودہ عزت مآب وزیراعلیٰ پنجاب کا ہے۔ پاناما پیپرز کی جے آئی ٹی رپورٹ کے صفحہ 333 اور 334 میں درج ہے کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کی حکمران فیملی کی طرف سے تحفے میں ملنے والی بی ایم ڈبلیو گاڑی نہ صرف یہ کہ توشہ خانے میں جمع ہی نہ کروائی بلکہ اس کا سرے سے کہیں اندراج تک نہ کروایا۔ تب کے وزیراعظم کی صاحبزادی کروڑوں روپے مالیت کی یہ گاڑی چپکے سے مبلغ 35لاکھ کی کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسز ادا کر کے اپنے گھر لے گئیں۔ بعد میں انہوں نے ایف بی آر میں اپنی جمع کروائی گئی ٹیکس ریٹرن میں آمدنی کے کالم میں اس گاڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم‘ جو مبلغ دو کروڑ اسی لاکھ روپے تھی‘ ظاہر بھی کی۔ یعنی انہوں نے بھی غیر ملکی حکمرانوں سے ملنے والے تحفے کو‘ نہ صرف توشہ خانہ میں جمع نہ کروایا بلکہ اسے فروخت کر کے اس سے ملنے والی رقم اپنی آمدنی کی مد میں ظاہر بھی کی۔
انصاف اور عدالتی فیصلوں پر لکھتے ہوئے چند روز قبل الیکٹرک بائیکس کی طالبعلموں میں تقسیم کے مسئلے پر عزت مآب عدالت کے فیصلے پر کیا لکھا جائے؟ اس ساری صورتحال پر بہت سارے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مگر فی الوقت سوالات اٹھانے کے بجائے میر تقی میر سے منسوب نامعلوم شاعر کے شہرہ آفاق شعر سے کام چلانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ان سوالات میں سے اکثر سوالات گستاخی اور توہین کے زمرے میں آتے ہیں‘ اوپر سے ان کی فہرست اتنی طویل ہے کہ کالم کا دامن انہیں اپنے اندر سمونے سے قاصر ہے۔ میں تو شعر سے کام چلا رہا ہوں آپ بھی اسی سے لطف لیں۔
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو ؍ کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
وکی لیکس اور پاناما لیکس کے بعد گزشتہ دنوں دبئی لیکس کا غلغلہ اٹھا ہے اور حسبِ معمول اس میں سینکڑوں پاکستانیوں کے نام شامل ہیں۔ ان لیک ہونے والی دستاویزات سے قوم کو ایک بار پھر ملکی دولت لوٹ کر یا کھسکا کر باہر لے جانے والے معززین کے ناموں کا علم ہوا ہے۔ سر فخر سے بھی بلند ہوا کہ اس قریب الدیوالیہ قوم کے سپوتوں نے دبئی میں جایدادیں خریدنے کے معاملے میں عربی شیوخ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ حکمرانوں سے درخواست ہے کہ مستقبل میں عرب شیوخ کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے اپنے لوکل شیوخ کا منت ترلا کر کے گھر کی عزت گھر میں رکھ لیا کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اول تو اس سارے وقتی طوفان کا کوئی نتیجہ ہی نہیں نکلے گا کہ ان لیکس میں اس بار بھی مملکت خداداد کی ساری اشرافیہ‘ مقتدر طبقہ‘ زور آور‘ قانون ساز اور اس کے نفاذ پر متعین لوگ مشترکہ طور پر شامل ہیں۔ تاہم بفرض محال‘ اگر اس ہنگام میں سے چنیدہ احتساب کا پھندہ برآمد بھی ہوا تو اس کی زد میں جو گردنیں آئیں گی ان کا سب کو پیشگی علم ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں