بات 2009ء کے مون سون کی ہے۔ مردوں‘ عورتوں اور بچوں پر مشتمل لگ بھگ تیس افراد کا قافلہ دریا ئے نیلم‘ آزاد کشمیرکے کنارے کنڈل شاہی کی تلاش میں سبز پہاڑوں میں بھٹک رہا تھا اور کنڈل شاہی آنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ پاکستان‘ بھارت کے بیچ سیز فائر معاہدہ تھا‘ سڑکیں بری حالت میں تھیں اور ان کی تعمیر کا کام مسلسل جاری تھا۔ ہر کچھ کلومیٹر بعد رکنا مقدر تھا‘ کیونکہ آگے مشینیں کام کر رہی تھیں۔ کوچ کا ڈرائیور راستوں سے ناواقف تھا اور بہت دیر بعد جب اس نے اعتراف کیا کہ وہ راستہ بھٹک چکا ہے تو تھکے ہوئے مسافروں پر جیسے منوں بوجھ لاد دیا۔ پتا چلا کہ اب اسے کسی پل کی تلاش ہے جس سے وہ دریا پار کر سکے اور اس سڑک پر پہنچ سکے جہاں سے کنڈل شاہی کا راستہ ملے گا۔ اسی دوران بارش شروع ہو گئی۔ آگے لینڈ سلائیڈنگ تھی۔ کیچڑ میں کوچ پھنس گئی اور مسافروں کو اتر کر کیچڑ میں پیدل چلنا پڑا۔ نیچے بائیں طرف بہت گہرائی میں دریائے نیلم تھا اور دائیں طرف اونچے پہاڑ سے چھوٹے بڑے پتھر اب تک گر رہے تھے۔ کچی سڑک اتنی تنگ تھی کہ کوچ کے اطراف محض ایک دو فٹ کی جگہ بچتی تھی۔ پہلی بار خیال آیا کہ فیملی سمیت ادھر آنے کا فیصلہ غلط تھا۔ اس خطرناک جگہ سے کیسے نکلے‘ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ رات گئے جب ہم جاگراں ہائیڈرو پاور سٹیشن کی رہائشی کالونی میں داخل ہو رہے تھے تو اتنے تھک چکے تھے کہ گرد وپیش دیکھنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ صبح کی چمکیلی دھوپ میں ہائیڈرو پاور سٹیشن دیکھا اور اس کے اطراف گھومے۔ پہلی بار اسی وقت پتا چلا کہ جاگراں (یا کنڈل شاہی یا کٹن‘ شاید یہ تینوں ایک ہی جگہ کے مختلف نام ہیں) پر اتنا بڑا ہائیڈرو پاور سٹیشن بنایا جا رہا ہے۔ وادیٔ نیلم میں اس کے بعد بھی کئی بار جانا ہوا۔ مظفر آباد سے کچھ آگے نیلم کنارے پٹہکہ نامی چھوٹی سی بستی میں لبِ دریا بنی ہوئی ایک طعام گاہ میں کئی بار جانا ہوا جہاں آب ِرواں پر لکڑی کے چبوترے پر بیٹھ کر مقامی ساگ چٹنیوں اور روٹی کے ساتھ کھانے کی لذت اب بھی یاد ہے۔ ایک خنک‘ ہری بھری‘ پُرسکون وادی جہاں زندگی کی الجھنیں بہت دور رہ جاتی ہیں۔
چند دن پہلے جب پڑھا کہ یہ ہری بھری چھوٹی بڑی بستیاں بپھر کر اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور نیلم جہلم کے دور دراز بسنے والے لوگ قافلوں کی شکل میں مظفر آباد پہنچ رہے ہیں تو سخت حیرت ہوئی۔ جب معلوم ہوا کہ کوٹلی اور میرپور سے آنے والے مظاہرین کے راستے روک دیے گئے ہیں‘ مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئی ہیں اور کئی جانیں چلی گئی ہیں تو بہت دیر یقین ہی نہیں آیا۔ اور اب یقین آیا ہے تو دوونوں طرف جان سے جانے والوں کا صدمہ نہیں جا رہا۔ اس نوجوان کی وڈیو بار بار آنکھوں کے سامنے لہراتی ہے جو پولیس سے بچنے کیلئے کھائی میں جا گرا اور دریا کی تیز لہروں کی نذر ہو گیا۔ آزاد کشمیر میں جو کچھ ہوا‘ اس کا خلاصہ ایک جملے میں بیان کریں تو یہ ہو گا کہ جب حکومت کو نرمی کے ساتھ کوئی بات سمجھائی جائے تو حکومت پوری رعونت کے ساتھ ماننے سے انکار کر دیتی ہے‘ لیکن جب کہنے والا بپھر جائے اور دو چار لگا بھی دے تو بات مان لی جاتی ہے۔ فیصلہ ساز نرم مطالبے کے سامنے نہیں‘ سختی کے سامنے جھکتے ہیں۔ محاورے کی زبان میں‘ جب حکومت نے سو جوتے کھا لیے تو پھر سو پیاز کھانے پر بھی آمادہ ہو گئی۔
آزاد کشمیر میں کبھی اس طرح حکومت کے خلاف پُرتشدد احتجاج یاد نہیں جس میں جانیں بھی گئی ہوں۔ یہ کمال حکومت‘ ضلعی انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں ہی کا ہوتا ہے کہ پُرامن جگہ کو بدامنی کے مرکز میں تبدیل کر دیں۔ ملک میں ہر علاقہ خس و خاشاک کا ایسا ڈھیر ہے جسے محض ایک چنگاری الائو میں بدل سکتی ہے۔ اگر کوئی یہ بات نہیں جانتا تو وہ وزیر‘ مشیر اور انتظامی افسران ہیں۔ آزاد کشمیر میں ایندھن کے یہ ڈھیر کم تھے لیکن بہرحال موجود تھے۔ جس مہنگائی نے ہر انسان کے منہ کا نوالہ چھین لیا‘ اس وادی میں بھی منہ کھولے بیٹھی ہے۔ بجلی کے وہ کمر توڑ بل جس نے بچوں کے دودھ کی رقم بھی اپنی جیبوں میں بھر لی ہے‘ یہاں بھی ہیں۔ یہ وہی بجلی ہے جس کا اچھا خاصا حصہ آزاد کشمیر کے دریائوں اور ندی نالوں سے پیدا ہوتا ہے۔ جب لوگوں کے احتجاج نے ایک منظم تنظیم کا روپ دھار لیا اور اس نے حکومت کے سامنے تین بنیادی مطالبات پیش کر دیے تو انتظامیہ سمجھ رہی تھی کہ یہ معمولی سا احتجاج ہے‘ ڈنڈے کے زور پر دبا لیا جائے گا لیکن پہیہ جام ہڑتالوں اور آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع سے آنے والے مظاہرین نے جلد ہی حکومت کے پائوں سے زمین کھینچ لی۔ دکاندار اس احتجاج میں پیش پیش تھے‘ لیکن ہر طبقے کا عام آدمی‘ جو ظالمانہ بلوں اور مہنگائی سے تنگ آکر سڑکوں پر نکلا تھا‘ اس احتجاج میں شامل تھا۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے تین بنیادی مطالبات تھے۔ اول یہ کہ آزاد کشمیر سے جو بجلی بن رہی ہے‘ اس کا حق ہے کہ بجلی کے نرخ ہائیڈرو پاور کی لاگت پر لگائے جائیں۔ دوم‘ پورے ملک میں اس وقت گندم کی فراوانی ہے اس لیے آٹا سستا کیا جائے۔ سوم‘ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ختم کی جائیں۔ دیکھا جائے تو یہ تینوں مطالبات بنیادی طور پر غلط نہیں۔ اپنے وسائل پر مقامی لوگوں کا حق تسلیم کیا جانا کون سا غلط مطالبہ ہے؟ پاور سٹیشن کے اردگرد بستیاں بجلی بغیر کیسے گزارا کریں؟ آٹا جو تین وقت درکار ہے اور ملک میں فراواں ہے‘ اسے سستا کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ رہیں اشرافیہ کی مراعات‘ تو یہ صرف آزاد کشمیر کا مسئلہ نہیں‘ پورے ملک میں اشرافیہ کا کام صفر ہے اور مراعات ہر سال بڑھتی جاتی ہیں۔ اس منظم احتجاج نے اپنے تینوں مطالبات منوا لیے۔ سو جوتے اور سو پیاز کھا کر حکومت نے پیداواری لاگت پر بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا‘ وزیراعظم شہباز شریف نے 23 ارب روپے کا سبسڈی پیکیج آزاد کشمیر کیلئے جاری کر دیا‘ جوڈیشل کمیشن کا اعلان بھی کر دیا گیا جو مراعات کا جائزہ لے کر تجاویز دے گا۔ مطالبات منوانے کے بعد 14 مئی سے یہ ہڑتال اور مظاہرے ختم کر دیے گئے۔ بجلی کے نرخ 100 یونٹ تک 3 روپے۔300 یونٹ تک 5 روپے۔ 300 سے زائد یونٹس پر 6 روپے۔ ظاہر ہے ہم میدانی علاقوں کے لوگ تو رشک سے اس نرخوں کو دیکھیں گے۔
ایک طرح سے یہ نتیجہ اس بات کا اعلان ہے کہ جہاں جہاں لوگ بپھر جائیں‘ وہاں ان کی بات مان لی جائے گی‘ ورنہ حکام جو کیے جا رہے ہیں وہ جاری رکھا جائے گا۔ آزاد کشمیر پھر بھی نسبتاً ٹھنڈا علاقہ ہے‘ ان میدانوں اور ویرانوں کا تصور کیجیے جہاں شدت کی گرمی پڑ رہی ہے‘ بجلی کے نرخ انتہائی زیادہ ہیں‘ اس پر اوور بلنگ۔ کچھ دن پہلے ہی وزیر داخلہ نے انکشاف کیا تھا کہ واپڈا حکام کی ملی بھگت سے اوور بلنگ کی جا رہی ہے جس کی مالیت کروڑوں روپے میں ہے۔ کچھ لوگ پکڑے بھی گئے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ جن صارفین کو یہ کروڑوں روپے اپنی جیبوں سے نکال کر حکومت کی تجوری میں بھرنے پڑے ہیں‘ انہیں یہ کیسے واپس ملیں گے۔ جن لوگوں نے ظلم سے بچنے کے لیے سولر سسٹم لگوا لیے‘ اب انکے بارے میں بھی‘ اور جو لگوانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ ان کیلئے بھی ہمت شکن خبریں مسلسل آ رہی ہیں ۔ لوگ کیا کریں؟ کیا کھائیں؟ کیا پئیں اور کیسے زندگی گزاریں؟ ہے کوئی سکون کی صورت؟
جو کچھ آزاد کشمیر میں ہوا اور جس طرح ہوا‘ اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ خس و خاشاک کے ڈھیر ہر طرف لگے ہیں اور چنگاریوں کو یہ ڈھیر بہت پسند ہیں۔ احسان دانش کی نظم پیش بینی یاد کیجیے:
نہ جانے کس دن عوام بگڑیں‘ خواص ظلم و ستم بڑھا دیں
نہ جانے کس دن یہ جھونپڑوں کے مکین محلوں کو لڑکھڑا دیں
نہ جانے کس دن غریب گاہک دکاندارو ں کا زعم ڈھا دیں
نہ جانے کس دن خموش فوجیں نظامِ نو کا علم اٹھا دیں
نظامِ نو کا جو سیلِ روکے‘ مجالِ دیوار و در نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے‘ کسی کو اس کی خبر نہیں ہے