''مثالیت‘‘ کو انگریزی میں ''Idealism‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے مقابل عملیت (Practicalism) ہے۔ عملیت پسندی سے مراد یہ ہے: آدمی زمین سے جڑا رہے‘ حقائق کا ادراک کرے‘ ناقابلِ عمل اور ناقابلِ حصول چیزوں کا نہ مطالبہ کرے‘ نہ اُنکی توقع رکھے۔ اسکے یہ معنی ہرگز نہیں کہ انسان حقائق پر سمجھوتا کرے یا اُن سے آنکھیں بند رکھے۔ ہم بحیثیتِ قوم انتہا پسند واقع ہوئے ہیں‘ کبھی حد درجے گر جاتے ہیں اور کبھی بلاجواز تن جاتے ہیں‘ یعنی کبھی اِفراط اور کبھی تفریط۔ یہ افراط وتفریط عقائد میں‘ معاملات میں اور فرائض کی بجا آوری میں بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی ذات کے بارے میں بھی شریعت کی حدود سے ماورا مبالغہ آرائی کی اجازت نہیں دی۔ آپﷺ نے فرمایا: ''میری شان بیان کرنے میں مبالغہ آرائی نہ کرو‘ جیسے نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کی شان میں کی (کہ انہیں اللہ کا بیٹا قرار دیا) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘‘ (بخاری: 3445)۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور یہود نے کہا: 'عزیر اللہ کے بیٹے ہیں‘ اور نصاریٰ نے کہا: 'مسیح اللہ کے بیٹے ہیں‘ یہ اُن کی خود ساختہ باتیں ہیں جو اُن کافروں کے قول کے مشابہ ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا‘ اُن پر خدا کی مار ہو‘ کہاں اوندھے ہوئے جا رہے ہیں‘‘ (التوبہ: 30)۔
ہم نے اپنی 77سالہ تاریخ میں بارہا عدلیہ کو سمجھوتا کرتے ہوئے‘ مارشل لاء کی توثیق کرتے ہوئے اور مقتدرہ سے ہدایات لیتے ہوئے دیکھا ہے اور کبھی مثالی عدل کی طرف جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ اسی طرح حال وماضیِ قریب میں توہینِ عدالت کے قانون کا بے دریغ استعمال بھی دیکھا ہے۔ آئے دن ہماری عدالتوں میں ایک فریق کہتا ہے کہ فلاں جج کو اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے کہ انہوں نے اپنا ذہن پہلے ہی ظاہر کر دیا ہے یا اُس کاجھکائو مخالف فریق کی طرف ہے۔ وہ جج اسکا مطالبہ مانے یا نہ مانے‘ لیکن اس پر توہینِ عدالت ماضی میں نہیں لگی‘ جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایسا مطالبہ کرنے والے پر جرمانہ بھی کر دیا اور توہینِ عدالت کا بھی عندیہ دیا‘ بصد معذرت یہ انتہا پسندانہ رویہ ہے۔اسی طرح اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان ریاستی عملداروں کی بے توقیری کرتے رہتے ہیں‘ حالانکہ دیگر ریاستی عاملین کی طرح معزز جج صاحبان بھی ریاستی خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں۔ البتہ منصبِ عدالت کی تکریم وتعظیم لازم ہے۔ یہ تکریم منصبی اختیارات کے بجائے اپنے منصبی کردار سے حاصل کی جائے تو اسے دوام ملتا ہے‘ ورنہ منصب سے اُترتے ہی یہ تکریم بے توقیری میں بدل جاتی ہے۔ ماضیِ قریب کے ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان ثاقب نثار‘ آصف سعید کھوسہ اورگلزار احمدکی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ اس لیے یہ جج صاحبان کے شایانِ شان نہیں کہ سرکاری عاملین کو توہینِ عدالت سے ڈرائیں‘ ایک طرف انہیں امنِ عامّہ اور شہری حقوق کیلئے جوابدہ بنائیں اور دوسری طرف روزانہ عدالتوں کے چکر لگوائیں۔ اُنکی بے توقیری کر کے محظوظ ہوں‘ اس کے بارے میں ٹِکر چلیں‘ یہ اچھا شِعار نہیں ہے۔ ظاہر ہے کسی اور کو توہینِ عدالت جیسا تحفظ حاصل نہیں ہے۔
اعلیٰ عدالتیں بعض معاملات میں غیر معیّنہ مدت کے لیے حکمِ امتناع جاری کر دیتی ہیں۔ آڈیو لیکس میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس کا نام بھی آیا تھا‘ اُس وقت کی حکومت نے اس کیلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سہ رکنی انکوائری کمیشن بنایا‘ تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے حکمِ امتناع جاری کر دیا جو آج تک قائم ہے۔ اسی طرح جسٹس بابر ستار آڈیو لیکس کے ایک کیس کو لیے بیٹھے ہیں‘ حالانکہ اس کے دو پہلو ہیں: (1) یہ کہ آیا یہ آڈیو لیکس مُجاز ادارے کی جانب سے لیک کی گئی ہیں‘ کیا اُن کو کسی کی نجی باتوں کو ریکارڈ کرنے کا قانونی اختیار حاصل تھا‘ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ (2) دوسرا مسئلہ یہ ہے: آڈیو لیکس میں جو واضح طور پر سنائی دے رہا ہے‘ کیا یہ درست ہے‘ اس کا فارنزک آڈٹ ہو سکتا ہے اور اگر یہ درست ثابت ہو جائے تو اس پر لازماً کارروائی ہونی چاہیے‘ کیونکہ یہ خود اعلیٰ عدالتوں کے اعتبار و وقار کا مسئلہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس کو جس طرح لیا جا رہا ہے‘ اس کی مثال میں نے پہلے بھی درج کی تھی کہ کوئی ریوالور کی گولی سے کسی کو قتل کر دے‘ تو عدالت اصل مسئلے یعنی قتل کے جرم کو نظر انداز کر دے اور اس تحقیق میں لگ جائے کہ آیا قاتل کے پاس یہ ریوالور قانونی تھا یا اس کا لائسنس اس کے پاس موجود تھا یا نہیں۔ اسی طرح جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم الثاقب کی آڈیو لیکس کا مسئلہ ہے۔ عدالت نے اصل مسئلے کی تحقیق کو قطعاً نظر انداز کر دیا ہے‘ ہماری نظر میں یہ درست نہیں ہے۔ عدالت کے اعتبار کو قائم رکھنے کا لازمی تقاضا ہے کہ آڈیو لیکس کی تحقیق لازماً کرائی جائے اور اس پر کارروائی بھی ہو۔
آرمی عدالتوں کے فیصلوں پر ایک عرصے سے حکمِ امتناع دیا ہوا ہے اور اُن کے متاثرین کے معاملات معلّق ہیں‘ اس حکمِ امتناع سے انہیں کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں ہوا۔ گویا یہ ایک سال کا عرصہ حوالات میں شمار ہو رہا ہے‘ حالانکہ عرصۂ حوالات کا طویل ہونا بھی اپنی جگہ اذیت و آزار کا باعث ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: ''جب میزانِ عدل کے قیام میں تاخیر ہو گی‘تو اہلِ محشر کسی وسیلے کی تلاش میں ہوں گے کہ میزانِ عدل قائم ہو اور معاملات فیصَل ہوں‘ کیونکہ عرصۂ محشر کی مثال بھی حوالات جیسی ہے‘ جنہیں جنت کا استحقاق حاصل ہے‘ وہ بھی متاثر ہوں گے۔ لہٰذا وہ سفارش کے لیے مختلف انبیائے کرام سے رجوع کریں گے اور ہر نبی جواب دیں گے: ''آج جلالِ الٰہی اپنی انتہا پر ہے اور مجھے کچھ عرض کرنے کی مجال نہیں ہے‘‘ آخر میں یہ قافلہ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو گا اور آپﷺ فرمائیں گے: ''تم جس وسیلے کی تلاش میں ہو‘ وہ میں ہوں‘ پھر آپ اُن کی قیادت کرتے ہوئے بارگاہِ رب العالمین میں حاضر ہوں گے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ''جب اہلِ محشر اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی کے لیے چلیں گے تو میں اُن کا قائد ہوں گا‘ جب جلالِ الٰہی کے آگے سب مہر بہ لب ہوں گے تو میں اُن کا خطیب (ترجمان) ہوں گا‘ جب وہ محشر میں روک دیے جائیں گے تو میں اُن کے لیے شفاعت کرنے والا ہوں گا‘ جب وہ ناامیدی میں مبتلا ہوں گے تو میں بشارت دینے والا ہوں گا‘ ساری عزتیں اور (عظمتوں کی) کنجیاں آج میرے ہاتھ میں ہوں گی‘ میں اپنے رب کے حضور اولادِ آدم میں سے سب سے معزز ہوں گا‘ ہزار ہا فرشتے میرے گرد وپیش ہوں گے‘ گویا وہ پوشیدہ انڈے یا بکھرے ہوئے موتی ہیں‘‘ (دارمی: 49)۔ مزید فرمایا: ''میں اپنے رب کے حضور حاضری کی اجازت طلب کروں گا‘ پس مجھے اجازت دی جائے گی اور مجھے حمدِ باری تعالیٰ کے ایسے کلمات القاء کیے جائیں گے جو اس وقت مجھے مستحضر نہیں ہیں‘ پھر میں اُن کلماتِ حمد کے ذریعے حمدِ باری تعالیٰ کروں گا اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جائوں گا‘ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! صلی اللہ علیک وسلم! آپ سجدے سے سر اٹھائیے‘ آپ اپنی عرض پیش کیجیے‘ آپ کو سنا جائے گا‘ آپ سوال کیجیے‘ آپ کو عطا کیا جائے گا‘ آپ شفاعت کیجیے‘ آپ کی شفاعت قبول فرمائی جائے گی‘‘ (بخاری: 7510)۔
پس ہماری اعلیٰ عدلیہ کی مثالیت پسندی نظریاتی اعتبار سے تو قابلِ تحسین ہے‘ اس پر کئی حلقے واہ واہ بھی کرتے ہیں‘ لیکن اس مثالیت پسندی کا کیا فائدہ‘ جس سے ملک کے مسائل مزید الجھتے چلے جائیں اور قوم جس مشکل میں پھنسی ہے‘ اس سے نکلنے کے لیے روشنی کی کوئی کرن کہیں نظر نہ آئے۔ پس اس اِفراط وتفریط‘ غُلُو اور مثالیت پسندی سے بہتر ہے کہ ملک وملت کے بہترین مفاد میں کوئی آبرو مندانہ اور قابلِ عمل اور قابلِ قبول درمیانی راہ نکالی جائے تاکہ ملک کی معیشت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے بھی کوئی تدریجی اور قابلِ عمل راستہ نکل آئے‘ کیونکہ موجودہ حالات میں کسی کو تخت سے اتار کر دوسری من پسند شخصیت کو بھی تخت نشیں کر دیا جائے‘ حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔