ایک اور معاملہ سامنے آیا ہے۔ سانسیں روک دینے والے ایک اور مسئلے کا انکشاف ہوا ہے۔ پاناما لیکس کے بعد اب دبئی لیکس کا تذکرہ عام ہے‘ اور میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی سکینڈل سامنے آتا ہے‘ کہیں سے بھی کسی لیکس کی خبر سامنے آتی ہے تو ان میں اِس مقروض ملک کے 'مہنگائی کی چکی میں پستے‘عوام کے نام ضرور شامل ہوتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں؟ لگتا ہے قدرت کو پاکستان کی غموں کی مارے اور مہنگائی کے جن سے مسلسل نبرد آزما قوم کا ایک اور امتحان درپیش ہے۔ پاناما سکینڈل کی طرح متعدد پاکستانیوں کے نام دبئی جائیداد خریداری سکینڈل میں بھی سامنے آئے ہیں۔ میرے لیے یہ بات بھی حیرت کا باعث ہے کہ ایسے سکینڈلوں میں اس نئی نسل کے نمائندوں کے نام بھی شامل ہوتے ہیں جو خود کو پاکستانی قرار دیتے ہیں اور جو مستقبل میں ہمارے حکمران بننے کی دعوے دار ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ لوگ اگر خود کو یہاں محفوظ نہیں سمجھتے اور بیرونِ ملک کاروبار کرتے ہیں اور جائیدادیں بناتے ہیں تو ان کے عوام کو حب الوطنی کے بھاشنوں کا لوگ کیا کریں؟
خبر یہ ہے کہ ایک مشترکہ عالمی تحقیقاتی صحافتی پروجیکٹ نے متحدہ عرب امارات کے تجارتی مرکز دبئی میں دنیا بھر کی اشرافیہ کی اربوں ڈالر کی جائیدادیں موجود ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ یہاں نامور سیاست دانوں‘ عالمی پابندی یافتہ افراد‘ منی لانڈررز اور جرائم پیشہ افراد سمیت متعدد لوگوں کی جائیدادیں موجود ہیں۔ مذکورہ فہرست میں پاکستانیوں کا دوسرا نمبر ہے جن کی جائیدادوں کی مالیت کا تخمینہ 12ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ اس معاملے پر بات کرنے سے پہلے یہ واضح کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ کسی پاکستانی کے پاکستان سے باہر کسی جائیداد کا مالک ہونے کو غیرقانونی سرگرمی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بہت سے ممالک کے لوگوں کی بیرونِ ملک جائیدادیں ہوتی ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہے۔ اچنبھے والی بات ان لوگوں کی بیرونِ ملک جائیداد کا ہونا ہے جو پاکستان کا دم بھرتے ہیں اور غیرملکی سرمایہ داروں کو یہاں سرمایہ کرنے کی دعوت اور ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ جو تھوڑا سا سرمایہ آنے پر بھی عوام کو احسان جتاتے اور بعد میں گنواتے رہتے ہیں۔ ارے بھائی‘ دوسروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کا کہتے ہو تو پہلے خود تو یہاں سرمایہ کاری کرو۔ دبئی میں کس کس کی جائیداد ہے‘ کتنی ہے اور کتنی مالیت کی ہے‘ یہ شاید میرا سر درد نہیں ہے‘ نہ ہونا چاہیے۔ میرے لیے قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ جن پیسوں سے جائیدادیں خریدی گئیں‘ ان کا سورس کیا ہے‘ یعنی یہ پیسے کہاں سے آئے اور کس ذریعے سے دبئی پہنچے؟ میرے لیے غور طلب بات یہ ہے کہ میرے ملک پر 131ارب ڈالر سے زائد کے غیر ملکی قرضے چڑھ چکے ہیں اور سابق وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کے بقول اس وقت ہر پاکستانی دو لاکھ 88ہزار روپے کا مقروض ہے‘ جبکہ لوگ یہاں سرمایہ لگانے اور ملکی معیشت کو فروغ دینے کے بارے میں سوچنے کے بجائے دوسرے ممالک میں جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2011ء کے بعد سے پاکستان کے بیرونی قرضے تقریباً دوگنا ہو چکے ہیں جبکہ ملکی قرضوں میں چھ گنا اضافہ مشاہدہ کیا گیا ہے۔ قرضوں کا یہ بھاری بوجھ ملکی معیشت کے استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جبکہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے پاکستان 24ویں بار آئی ایم ایف کے دروزے پر دستک دے رہا ہے۔ ہمارے ملک میں فی کس قرضہ بڑھنے کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 2000ء تک یہ قرضہ ایک لاکھ روپے فی کس سے کم تھا‘ اب بڑھ کر تین لاکھ کے ہندسے کو چھونے والا ہے۔ 1991ء میں پاکستان کا غیر ملکی قرضہ 28.22 ارب ڈالر تھا جو 2022ء تک بڑھ کر 128.6 ارب ڈالر ہو چکا تھا‘ اب اس سے بھی زیادہ ہے۔
ان حالات میں پاکستان کو سہارے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو اور درآمدات و برآمدات کے معاملات کو کچھ آگے بڑھایا جا سکے‘ لیکن اس کے برعکس صورت حال سامنے آ رہی ہے۔ وہ لوگ‘ جنہیں سرمایہ لگانا چاہیے وہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے دوسری جگہوں پر جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ اگر ہم خود ہی اپنے ملک کے بارے میں نہیں سوچیں گے‘ اس کی معیشت کا خیال نہیں رکھیں گے اور یہاں سرمایہ کاری کو ترجیح نہیں دیں گے تو کسی دوسرے کو کیا پڑی ہے کہ وہ ہمارے ملک اور ہماری معیشت کی ترقی کے بارے میں سوچے؟ یقین مانیں مجھے لوگوں کے غیرممالک میں جائیدادیں خریدنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن سوال پھر وہی کہ انہوں نے اپنے ملک کے معاشی و مالی حالات کے بارے میں کیوں کچھ نہیں سوچا؟ یہ بات تو بڑی واضح ہے کہ جب ہم خود اپنے ملک کے بارے میں نہیں سوچیں گے تو کسی اور کو کیا پڑی ہے کہ یہاں آ کر سرمایہ کاری کرے‘ ہمیں از خود سہارا دے؟ یہ لوگ ایمان داری کا بھاشن دیتے ہیں‘ ملکی ترقی کے لیے پیٹ پر پتھر باندھنے‘ ٹیکس نیٹ بڑھانے‘ زرعی و صنعتی ترقی پر توجہ دینے کی بات کرتے ہیں‘ لیکن جب خود یہی کچھ کرنے کا وقت آتا ہے تو اپنی ہی کہی ہوئی باتوں سے مکر جاتے ہیں‘ اپنے ہی کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرنے میں انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ میرے ذہن میں بار بار یہ سوال ابھرتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس اتنی دولت کہاں سے آتی ہے کہ بیرونِ ملک جائیدادیں خرید لیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سرمایہ کاری ڈالروں یا درہموں میں کی گئی ہو گی اور ایک ڈالر یا ایک درہم کتنے روپے میں آتا ہے‘ اس کا حساب بھی لگایا جا سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بیرونِ ملک جائیداد خریدنے کے لیے تھوڑی بہت رقم سے گزارہ نہیں ہوتا‘ اس کے لیے بوری بھر روپے چاہیے ہوتے ہیں۔ اتنے روپے کہاں سے آتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے تو زندگی کی عام ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے اور اکثر انہیں اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔ بجلی‘ گیس اور پانی کے بل بھرتے بھرتے ان کے اعصاب شل ہوئے جاتے ہیں اور روپے کی گرتی ہوئی قدر نے ان کے مالی بفر کو ریت کی مٹھی بنا کر رکھ دیا ہے جس میں سے ریت مسلسل گر رہی ہے۔ پیسہ اور پراپرٹی‘ دونوں پڑے پڑے ڈی ویلیو ہو رہے ہیں۔
بحیثیت قوم ہمارا بھی کیا مقدر ہے کہ ایک لیکس کا‘ ایک سکینڈل کا دکھ ابھی کم نہیں ہوتا کہ ایک نیا سکینڈل سامنے آ جاتا ہے۔ ان لیکس اور سکینڈلز نے ملک کے معاشرتی تانے بانے کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور ان معاملات کی سنجیدہ اور دوٹوک چھان بین نہ ہونے اور بدمعاملگیوں کے ذمہ داران کو قرارِ واقعی سزا دلانے کے عمل کے عنقا ہونے نے ایسے مسائل اور معاملات کی گمبھیرتا میں اضافہ کر دیا ہے۔ اب کوئی سکینڈل سامنے آ جائے‘ کسی لیک کا انکشاف ہو جائے‘ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ ہمارے لیے اچنبھے کی باتیں ہیں‘ ان کے لیے نہیں‘ جو ایسے سکینڈلز کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟ اس کا کوئی تو اختتام ہونا چاہیے۔ پتا چلایا جائے کہ ملک سے بیرونِ ملک لے جائی جانے والی یہ رقوم قانونی اور جائز طریقے سے باہر گئیں یا اس کے لیے غیر قانونی طریقے استعمال کیے گئے۔ کوئی تو ہو جو ان سکینڈلوں اور لیکس سے عوام اور ملک کو نجات دلا سکے۔ عوام کب تک بے بسی اور بے کسی سے یہ سارا تماشا دیکھتے رہیں گے؟