1982ء کی بات ہے جب میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی۔ 31سال پہلے یہ میرا لڑکپن کا زمانہ تھا، جب میر ے والد غلام سرور میر صاحب مجھے موٹر سائیکل پر کہیں بھیجتے تو میں سپائیڈر مین بن جایا کرتا تھا۔ میلوں کا فاصلہ منٹوں میں طے کیاکرتا، سڑکوں، گلیوں، کھیتوں، پگڈنڈیوںمیں سلطان گولڈن کی طرح موٹرسائیکل چلاتا تھا۔ مجھے جس شخص کو ڈھونڈنے کے لئے کہا گیا تھا میں صرف نصف گھنٹے کے بعد اس کے روبروتھا، مگر اس تک پہنچنے کی وجہ سن لیجئے ! میرے والد محکمہ تعلیم سے ہیڈماسٹرکی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ انہوںنے اپنی جمع پونجی سے کشمیر اکیڈمی کے نام سے پرائمری تا میٹرک‘ ایک تدریسی ادارہ قائم کر رکھا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب بچوں کے سالانہ امتحانات کی تقریب تقسیم انعامات کے موقع پر ایک ایسے ڈرامہ آرٹسٹ کی ضرورت محسوس کی گئی جو بچوںکے تیارکردہ ٹیبلوز کو مزید نکھار سکے۔ انہی دنوں کی بات ہے والد صاحب کسی تقریب میںمہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھے جس میںاس پری پیکر فنکار نے اپنی پرفارمنس سے سب کو بہت متاثر کیا تھا۔ تقریب کے اختتام پر اس فنکار نے والد صاحب کو بتایاکہ وہ گکھڑ منڈی بوڑھ کے نیچے آباد ’’فنکاروں کی بستی ‘‘ کا رہائشی ہے ٗ اس کانام ایوب اختر عرف ببوبرال ہے۔ گجرانوالہ کے چوک پونڈہ والہ سے میںنے وزیر آباد کے پہلو میںآباد گکھڑ منڈی کا فاصلہ بذریعہ موٹر سائیکل یوں طے کیاجیسے تامل فلموں میںرجنی کانت کیا کرتا ہے۔ ببوبرال کے گھر سے پتہ چلاکہ وہ اس وقت گجرانوالہ گوندانوالہ اڈہ میںواقع ڈسٹرکٹ کونسل ہال میںایک سٹیج ڈرامہ کی ریہرسل میںمصروف ہے۔ پلک جھپکتے میںکونسل ہال پہنچا جہاں ایک سٹیج ڈرامہ ’’بھکے ہتھ بٹیرا‘‘(بھوکے ہاتھ بٹیرا) کی ریہرسل جاری تھی۔ ڈرامہ کی کاسٹ میں ببوبرال کے ساتھ اداکار مستانہ، سلیم رنگو، صائمہ، مہرین مرحومہ(گلوکارہ سائرہ نسیم کی بڑی بہن) ،علی جاوید مرحوم اور آج کی اداکارہ نور کی والدہ ممتاز بیگم اور والد شیراز مرحوم شامل تھے۔ ریہرسل ختم ہوئی تو میںنے ببوبرال کواپناتعارف کرایا اور والد صاحب کا پیغام دیا، ببوبرال اسی لمحے میرے ساتھ موٹرسائیکل پر سوار ہوگیا۔ یوں ہم دونوں میںبھارتی فلم ’’شعلے ‘‘ کے (جے اینڈ ویرو) والی دوستی کا آغاز ہوگیا۔ اب میری اورببوبرال کی لگ بھگ روزانہ ملاقاتیں ہونے لگیں ۔وہ ہرروز گکھڑ سے گجرانوالہ ا ٓجاتا جہاں ہماری ملاقات گوندانوالے اڈے کے عقب میںواقع مشترکہ دوست گلوکار محمد سلیم کی میوزک اکیڈمی میں ہونے لگی۔ شام کو ہم اکٹھے ہوکر گاتے بجاتے اوررات کو ببوگکھڑ واپس چلا جایا کرتا۔ ببوبرال بلاکا ذہین فنکار تھا، قدرت نے اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھاتھا۔ اس کا تعلق اہل ِمیراث کے برال قبیلے سے تھا۔ مخصوص خاندانی پس منظر کی وجہ سے نقالی اورموسیقی سے رغبت اس کے وراثتی پیکج میں شامل تھی مگر وہ غیر معمولی صلاحیتیوں کا مالک فنکار تھا۔ببوبرال کے بارے میںمیرا خیال ہے کہ وہ ایک ایسا ’’پنج پٹیا‘‘(پہلوانی کی اصطلاح میں بہت سی خوبیوںکامالک پہلوان) تھا، جس کی زندگی میں ابھی اس کی صرف پندرہ فیصد صلاحیتوں کا اظہار ہو پایا تھا کہ اس کی کہانی کا وائنڈاپ(اختتام ) ہوگیا۔ اس بے مثل فنکار میں پائی جانے والی صلاحیتوں کوصفحہ قرطاس پر منتقل کرنے بیٹھاہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتاہوں کہ کیا ایوب اختر المعروف ببوبرال کی فنکارانہ حسیات کا ہوبہو بیان کرسکتا ہوں؟وہ MIMICRY (نقالی) کا بادشاہ تھا، یہ بحث پرانی ہے کہ نقالی بڑا عمل ہے یا اداکاری؟ دراصل اداکاری نقالی ہی ہوتی ہے، اداکار جب کینسر کے مریض کا کردار پوٹرے کرتاہے تو مریض کا انتخاب کینسر یا دل کے کسی ہسپتال سے نہیںکیاجاتا، اس کے لئے کسی فنکار کی خدمات ہی مستعار لی جاتی ہیں۔ ببوبرال کے فنکارانہ پیکج میں موسیقی کی غیر معمولی صلاحیتیں اسے ساتھی فنکاروں میں’’ایفل ٹاور‘‘ کی طرح بلند کئے ہوئے تھیں۔ وہ دنیا ئے موسیقی کے LEGENDS سمیت بیسیوں صاحبِ اسلوب گلوکاروں اور گلوکارائوں کو ان کے مخصوص لب ولہجے اورگائیکی کے انداز سے گھوٹ کے پی چکا تھا۔ تنقید نگاروں اور محققین کی انگلیوں کے پپوٹوں پروہ فنکار گنے نہیں جا سکتے جن کی منفرد اورمشکل گائیکی کے نقشے ببوبرال سوتے جاگتے بنایاکرتاتھا۔ ملاحظہ فرمائیں وہ عظیم اورمعروف فنکار جن کا اندازِ گائیکی ببوبرال یوں پیش کرتا تھا جیسے خاں صاحب ان کے ہمراہ ریاض کرتے ہوں ۔استاد بڑے غلام علی خاں، استاد برکت علی خاں، استاد عاشق علی خاں، استاد کالے خاں، استاد سلامت علی خاں، استاد نزاکت علی خاں،استا د چھوٹے غلام علی خاں،استادامانت علی خاں، استاد فتح علی خاںپٹیالہ والے، ملکہ موسیقی روشن آرابیگم، پروین سلطانہ جبکہ نیم کلاسیکی موسیقی میںکافی انگ گانے والے فنکاروں میں استاد حسین بخش گلوخاں، زاہدہ پروین، ثریا ملتانیکر اور پٹھانے خاں کی گائیکی کا انداز مذکورہ فنکاروں کے مکمل ’’ٹھیئوں‘‘(خاص جگہوں)کے ساتھ سنایاکرتاتھا۔ ببوبرال برصغیر کی فلم کی پلے بیک موسیقی سے وابستہ جن فنکاروں کا انداز ِگائیکی سنا کر ششدر کر دیا کرتا تھا ان میں کے ایل سہگل، ملکہ ترنم نورجہاں، لتامنگیشکر ، آشا بھوسلے، کشورکمار، مہدی حسن، غلام علی، محمدرفیع، مناڈے، مکیش، ہیمت کمار، مسعود رانا، مالابیگم، زبیدہ بیگم، عنایت حسین بھٹی، ہیم لتا، چنچل، ناہید اختر، ایس ڈی برمن، آرڈی برمن، منیر حسین، آشا اتھم، سریش واڈیکر، ہری ہرن سمیت بہت سے دوسرے شامل ہوتے۔کلاسیکی اورپلے بیک میوزک سے جڑے فنکاروں کے علاوہ برصغیر کے غزل گائیکوں کا منفرد، مشکل اورعوامی انداز وہ خوبصورتی سے پرفارم کیا کرتا تھا۔ شہنشاہِ غزل مہدی حسن اورغلام علی اس کے پسندیدہ غزل گانے والے تھے۔ ببوبرال دونوں فن کاروں کی گائی ہوئیں پیچیدہ غزلیں سنایاکرتا ۔اس پر سونے پہ سہاگہ والی بات یہ ہوتی کہ گاتے ہوئے وہ اپنے ساتھ طبلے پر خود ہی سنگت کیاکرتا اور اس دوران میں ہونٹوں سے لگا سگریٹ بھی بجھنے نہ پاتا تھا۔ ببوبرال کے ساتھ رت جگوں میںدن اورگھنٹے پلک جھپکتے گذر جایاکرتے تھے۔ گجرانوالہ، راولپنڈی، لاہوراوردبئی میں ہونے والی سنگتوں میں وہ اپنے چچا موسیقار نذیر علی سمیت برصغیر کے بیسیوں عظیم موسیقاروں کا انداز منہ سے گاتے اورہاتھوں سے ڈھولک بجاتے ہوئے سنایا کرتا تھا۔ بھارتی موسیقاروں میں ببوبرال جن کے سدابہار گیتوں کی استھائیاں سنایا کرتا ان میںجھنڈے علی خاں، نوشاد اعظم، سلیل چوہدری، سجاد، ایس ڈی برمن،آرڈی برمن، مدہن موہن، اوپی نیر اور رویندر جین سمیت دوسرے شامل رہتے۔ پاکستانی موسیقاروں میں ببوبرال کو رشید عطرے ، خواجہ خورشید انور، باباجی اے چشتی، ماسٹر عنایت حسین،ماسٹر عبداللہ ،وزیر افضل، سہیل رعنا،روبن گھوش،سلیم اقبال،بخشی وزیر،ایم اشرف سمیت دیگر کی سینکڑوں استھائیاںیاد تھیں‘ جنہیںببوبرال دوستوں کی محفل میںسنا کر داد سمیٹا کرتا تھا۔ میوزک کے فرسٹ ورلڈکے لیجنڈز کا سٹائل بھی اس کی دسترس میںتھا۔ ببوبرال وہ فنکار تھا جو وٹنی ہوسٹن، ایلویس پریسلے ، مائیکل جیکسن، جینٹ جیکسن، میڈونا، ماریہ کیری، بی بی کنگ اور شرلے بیسی جس نے جیمز بانڈسیریز کی فلم گولڈفنگر کا تھیم سونگ گایاتھا‘ اسکا سٹائل بھی سنایاکرتاتھا۔مذکورہ تمام سنگرز کے علاوہ ببوبرال دنیائے موسیقی میںآٹھواں عجوبہ سمجھے جانی والی مصری گلوکارہ اُم کلثوم جس کی تان ہارمونیم کی تینوں سپتک (ہارمونیم کے تینوں آکٹیو) نگل جاتی تھی، ببوبرال اس کی مشکل گائیکی کی ’’ای سی جی رپورٹ‘‘ گا تے ہوئے (اوکے ) دیا کرتا تھا۔ ببوبرال کی یاد میںلکھے جانے والے اس کالم کو پڑھنے والے حیران ہوںگے مگر یہ سب سچ ہے نجانے اس نے یہ سب کچھ کیسے سیکھا تھا حالانکہ اس وقت یوٹیوب جیسی سہولت میسر نہیںتھی۔ یہ 13اپریل 2011ء کا دن تھا ۔میں اپنے عزیز اوربڑے بھائی اداکارسہیل احمدالمعروف عزیزی کے ساتھ ’’شریف کمپلیکس‘‘ کی انتہائی نگہداشت وارڈ میںبستر مرگ پر تڑپتے مریض کے سامنے کھڑا تھا۔ زندگی کی دہلیز پر پڑے اس شخص کو موت اپنے مضبوط پنجوں میں دبوچ رہی تھی۔ یہ میرا دوست اور حیرت زدہ کردینے والا فنکار ببوبرال تھا۔گنگرین کے باعث ببوبرال کا دایاں پیر اوردایاں ہاتھ کاٹ دیاگیا تھا، وہ میری طرف دیکھ رہاتھا مگر میرے اور اس کے درمیان وہ کمیونی کیشن نہیں ہو پا رہی تھی جو زندگی کی علامت ہوتی ہے۔ اس کی آنکھیں مرچکی تھیں، وہ کچھ بڑبڑارہاتھا مگر ہم زندہ رہ جانے والے لوگ انہیںالفاظ نہیںکہہ سکتے، ممکن ہے اسکے بڑبڑانے کا کوئی مطلب ہو ، اسے دیکھ کر یوں لگ رہا تھاکہ زندگی اور شعور کے تمام بند ٹوٹ چکے ہوں اور ببوبرال کسی دوسرے جہان منتقل ہو رہا ہے۔ 15 اپریل 2011ء کے دن ببوبرال چل بسا، ببوبرال کے بارے میں میرا خیال ہے کہ اس کا بے تحاشہ ٹیلنٹ اس کے ساتھ ہی قبر میںدفن ہوچکا ہے ۔وہ جو پیش کرسکا آٹے میںنمک کے برابرتھا۔ پروردگار اس کے درجات بلند کرے (آمین)۔